جمعہ نامہ: مرحبا اے موسمِ بہار

ارشادِ ربانی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔اس مختصر مگر نہایت جامع آیت میں سب سے پہلے تو روزوں کی فرضیت کا حکم دیا گیا ہے اور ماضی سے تسلسل کا اظہار کیا گیا۔ یعنی یہ بتایا گیا کہ پہلے والی امتوں پر بھی یہ اسی طرح فرض تھے کہ جیسے تم پر ہیں اور آخر میں روزوں کا مقصد یعنی تقویٰ کا تذکرہ کیا گیا جو اس عظیم عبادت کی روح ہے ۔اس کے معنیٰ یہی ہوئے کہ اگر روزے رکھنے کے بعد بھی ہمارے دل اللہ کی محبت اور اس کی ناراضی کا خوف پیدا نہ ہوتو ایسے روزے بے روح اجسام کی مانند ہیں۔ اس کے بعد والی آیت میں شرائط و ضوابط ِ صوم اور سہولت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ :’’ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو‘‘۔ یعنی ان سہولیات کے باوجود بندۂ مومن کے لیےحتی الامکان روزوں کا اہتمام ہی بہتر ہے ۔

قرآن حکیم میں سو سے زائد مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے جن میں سے 80 جگہ تو صریحاً نماز کا حکم وارد ہوا ہےجبکہ روزوں کا ذکر صرف دو مقامات پر ہے ۔ ان میں سے بھی ایک حضرت مریم ؑکےمخصوص روزے کا بیان ہے۔ اس کے باوجود وہ لوگ نمازوں کی پابندی تک نہیں کرتے وہ بھی بڑے ذوق و شوق سے روزے رکھتے ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوجاتا ہے؟ اس کی وجہ مندرجہ بالا دو آیات کے بعدوالی آیت میں موجودجہاں ماہِ رمضان کی فضیلت یہ بتائی گئی کہ :’’ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘۔ پھر اس کے بعد روزوں کے بجائے قرآن مجیدکے فضائل بیان کیے گئے۔فرمانِ خداوندی ہے:’’ جو(قرآن ) انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔ اب اس کے یہ حکم دیا گیا کہ :’’ لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۰۰۰۰‘‘ ۔

رمضان یعنی ماہِ قرآن دراصل عالمِ انسانیت کے لیے موسمِ بہار کی مانند ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چونکہ اس روحانی بہار کے موسم میں روزہ فرض کیا اس لیے ان کا اہتمام اہل ایمان کے لیے نہایت سہل ہوجاتاہےاور ایمان والے برضا و رغبت اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ موسمِ بہار بدلتی رت کے حوالے سے ایک مختصر دورانیئے کا نام ہے۔ اس میں عالمِ فطرت ایک حسین انگڑائی لے کر اپنی مسکراہٹ کو سرسوں کے روشن پیلے پھولوں کی صورت عیاں کردیتی ہے۔ یہ ایک صحت بخش تبدیلی کا پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو انسانی قلب و روح میں تازگی، لطافت، الفت اور محبت بھردیتا ہے۔ بہار کی آمد سے خزاں کے گہرے سائے چھٹ جاتے ہیں اور ہر کس و ناکس موسم بہار کی الفتوں سے مستفید ہونے لگتا ہے۔موسمِ سرما کی سَرد ہوائوں اوربے برگ ٹہنیوں کے بعد جب مختلف پھولوں کی خوش رنگ پتیاں دوشِ آب پر سوار چلی آتی ہیں، جب چڑیاں چہچہاتی ہیں، بُلبلیں نغمہ سراہوتی ہیں اور بادِ نسیم کے جھونکے اٹکھیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دلربا موسمِ بہارجلوہ نما ہوجاتی ہے۔ آمدِ بہار کی آمد سے جو مادی تبدیلی آتی ہے، روحانی سطح پر وہی انقلاب ماہِ رمضان کے ساتھ نمودار ہوکر ایمان و یقین کی سرسبز و شاداب کردیتا ہے۔

دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں موسمِ بہار کا آغاز مارچ کے تیسرے ہفتے میں ہوتا ہے۔ لوگ اس کا بڑا ذوق و شوق سے انتظار کرتے ہیں نیز بڑے جوش و خروش کے ساتھ استقبال بھی کرتے ہیں۔ موسمِ بہار کے ہر پل سے مستفید ہونے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سبھی جانتے ہیں یہ مختصر مدت بڑی تیزی کے ساتھ گزر جائے گی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس بار روحانی بہار کا موسم یعنی ماہِ رمضان کا آغاز بھی اسی دوران ہوگا۔ اب یہ سوال اہل ایمان سے ہے کہ وہ اس دوران اپنے ایمان کی ترو تازگی کا سامان کتنا کریں گے؟ ظاہر جو شخص اس کی قدرو قیمت کا جس قدر معترف ہوگا اور استفادے کی جتنی تیاری کرے گا وہ اتنا ہی زیادہ مالا مال ہوگا ورنہ وقت کا پہیہ کسی کے لیے نہ رکتا ہے اور نہ کسی کا انتظار کرتا ہے۔ ماہِ رمضان جس تیزی سے آیا چاہتاہے اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ گزر جائےگا اور ہم جیسے غافل و کاہل لوگ کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ ماہ رمضان کی ابتداء سے پہلے کے یہ چند دنِ منصوبہ بندی اور تیاری کے حوالے سے بے حد قیمتی ہیں ۔انہیں گنوانے والوں کی حالت ان طلباء کی سی ہوجاتی ہے جو بغیر تیاری کے امتحان گاہ میں داخل ہوجاتے ہیں اور آدھے ادھورے جوابات لکھ کر اپنی ناکامی کا انتظار کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ماہِ رمضان کا شایان ِ شان استقبال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی نعمتوں و برکتوں دنیا و آخرت میں خوب مالامال فرمائے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226417 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.