پی ڈی ایم انتخابات کروانا چاہتی ہے یا انتخابات سے راہ فرار چاہ رہی ہے؟

انتخابات سے قبل ہی 13 جماعتی اتحاد کو اپنی شکست صاف نظر آرہی ہے، انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے پی ڈی ایم رہنما مختلف حربے استعمال کررہے ہیں، پی ڈی ایم کو انتخابات میں شکست کا خوف دن رات ستا رہا ہے اور اس کا برملہ اعتراف اپنی نجی محفلوں میں کرتے رہتے ہیں .ابھی گزشتہ مہینہ راجن پور کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام پی ڈی ایم حکومت کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے اپنی متواتر عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی کو بھی مشکل ترین بنا دیا ہے، موجودہ حالات میں غریب عوام کے ساتھ متوسط طبقے کے لوگ کا گزارا کرنا بھی اس وقت مشکل سے مشکل ترین ہوگیا ہے، پی ڈی ایم کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھی اس وقت اپنے 75 سالہ ادوار کے ایک مشکل اور کھٹن دور سے گزرہا ہے اگر اس طرح کے حالت رہے جیسے عمران خان کے خلاف زمان پارک آپریشن اور اسلام آباد جوڈیشل بلڈنگ پر جس طرح کے حالیہ اقدامات پی ڈی ایم اور پنجاب حکومت نے کیے اس سے یہ کہیں یہ ملک کو بند گلی میں نہ دھکیل دیں . اس وقت پورے ملک میں اکثریت عوام کو عمران خان ہی واحد لیڈر نظر آتا ہے جو اس وقت عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ پورے ملک کی عوام ملک میں فرسودہ نظام کے خاتمے کے لئے عمران خان کے شانہ بشانہ اپنے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑی ہے۔اور ایسے سر پورے کارکنان کے جزباتی لگاؤ رکھتے ہیں جو عمران کے لیے اپنا سب کچھ لگانے کہ لیے تیار کھڑے ہیں. مگر پاکستان میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں جو آئے دن جمہوریت یعنی جمہوریت اور آئینی انتظام کے بلند بانگ دعوے اور نعرے لگانے والی پاکستانی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی ، ن لیک، جے یو آئی ، متحدہ، جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی و تانگہ پارٹی وغیرہ بھی ان سب جماعتوں کے رویوں سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ عوامی مرضی کسی بھی پارٹی کا مطمح نظر نہیں ہے۔جب پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں عمران نے توڑی نہیں تھیں ان کو توڑنے پر سوچ بچار چل رہا اُس وقت ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ضروری نہیں کہ اسمبلیاں توڑنے کی صورت میں مقررہ مدت میں ہی اسمبلیوں کے انتخابات ہوجائیں۔ انہیں عام انتخابات تک مؤخر بھی کیا جاسکتا ہے۔ گویا حکومت یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ انتخاب سے راہ فرار نہیں چاہتی، درحقیقت انتخابات سے بچنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے یہ اسمبلی توڑنے سے پہلے ان کی یہ تُکبرانہ سوچ روز عیاں تھی . اتحادی حکومت قائم کرنے کے بعد سے حکومتی جماعتیں مسلسل عمران خان کے تیار کئے ہوئے سیاسی جال میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہیں اور ان کی ہر سیاست رد عمل کی سیاست اس وقت نظر آرہی ہوتی ہے۔

وزیر اعظم سے لے کر پارٹی سطح تک کے لوگ یہ انتظار کرتے ہیں کہ عمران خان کیا بیان دیتے ہیں اور ان کا آئندہ قدم کیا ہو گا۔ ابھی پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن کی الیکشن کرانے اور نہ کرانے کی بازگشت سن ہی رہے تھے کہ رمضان کے چاند :30 10 بجے رات پشاور میں نمودار ہونے کے اعلان کے بعد ہی الیکشن کی نوید کا ستارہ بھی ہمالیہ کے پہاڑوں کی اوٹ ڈوبتا ہوا محسوس ہوہی رہا تھا کہ پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی انتخابات کی تاریخ اور شیڈول واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرکے انتخابات کی نئی تاریخ آٹھ اکتوبر مقرر کی ہے۔ پہلے یہ انتخابات 30 اپریل کو ہونا تھے الیکش کمیشن کے مطابق انتخابات ملتوی کیے جانے کے فیصلے سے متعلق صدر کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔اس سے پہلے چیف الیکشن کمیشن اپنے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا مستقل موقف رہا کہ آئین میں ان کا اختیار ہی نہیں کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ۔ آج یہ کون سی شق ہے آئین کی جس کی بنیاد پر الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے.جبکہ آئینی طور پر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر صوبائی انتخابات کا انعقاد ہونا ہوتا ہے تاہم اس عمل میں تاخیر کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور انتخابات ’آئینی مدت‘ کے مطابق کروانے کا حکم دیا جس کے تحت الیکشن کمیشن نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کو پولنگ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس کے لیے شیڈول کا اجرا بھی 8 مارچ کو کر دیا گیا۔ اپنے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سوا کسی آئینی ادارے کو انتخابات کی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، عدلیہ کو بھی مدت بڑھانے کی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی۔ اب پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کیے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلے پر بحث اور تنازعات پیدا کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انتخابات سے انکار کرنے والی اتحادی حکومت کے حق میں نہیں تھا۔اگرچہ پی ڈی ایم حکومت کو یہ گمان ہے کہ انتخابات ملتوی کرکے وہ آئندہ انتخابات تک اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں تحریک انصاف کے مقابلے کے لیے تو ان کی یہ منطق کم فہمی لگ رہی ہے کیونکہ چند ماہ میں ان کی موجودہ حیثیت تبدیل ہوکر قابلِ تعریف کیسے بن سکتی ہے؟ اس بات کے تو سب ہی معترف ہیں کہ کمر توڑ مہنگائی، توانائی اور تیل کی اوپر جاتی ہوئی قیمتوں اور تباہ شدہ معیشت کے باعث حکومت نے عوامی حمایت تقریبا اکثریت کھودی ہے۔ اگرچہ الیکشن کرانے سے پی ڈی ایم کو کم اور نہ کرانے سے زیادہ سیاسی نقصان ہوگا۔ درحقیقت، اگر ’معیشت کو بچانے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کو اقتدار میں لانے کا اولین جواز جو بنایا گیا تھا تو اب یہ جواز کمزور تر ہوچکا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق انتخابی کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔جبکہ پاکستان کی معیشت اب بدترین بدحالی کا شکار کی طرف گامزن ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی بڑی سخت کڑی شرائط پر غیریقینی ہے، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور مارکیٹ/کاروباری اعتماد تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ بین الاقوامی جائزوں کی ایجنسیوں ایک بار پھر پاکستان کو تنبیہ کررہی ہیں کہ پاکستان قرضوں کے باعث کافی مُشکلات کا شکار ہوسکتا ہے.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 92982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.