جنت کی تلاش


ربِ کائنات نے انسانی سہوت کیلئے اس کرہِ ارض پر مختلف موسموں کی آبیاری کی ہے تا کہ انسان کی بودو باش اعلی انداز میں سر انجام پا سکے ۔ موسموں میں تغیر و تبدل انسانی نشو نما کیلئے انتہائی ضرور ی تھا اسی لئے انسانی ضرورت ، مناسبت، رغبت اور تقاضہ کے مطابق پھل ، سبزیاں اور اناج انسان مہیا کئے تاکہ انسان کی طبعیت ہشاش بشاش رہے ۔موسمِ گرما میں آم کا تحفہ جبکہ سردیوں میں مالٹے اور کینوں کی فراوانی انسانی طبیعتوں میں سکون و طمانیت پیدا کرتے اور انسانی افتاد ِ طبع کو مزیدخو شگوار بناتے ہیں ۔موسمِ بہار میں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی نغمہ سنج ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں لا ابالی پن کروٹیں لینے لگتا ہے ۔ رنگ برنگے پھولوں کی نمائش دلِ پژمردہ میں عروقِ زندگی دوڑا دیتی ہے۔پرندوں کی چہکاریں اور کوئل کی کوک انسانی دل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے لگتا ہے۔لہلہاتی کھیتیاں انسان میں رومانوی جذبوں کی آبیاری کرتی ہیں ۔موسموں کی طرح انسانی طبیعتیں بھی مختلف ہو تی ہیں ۔ کبھی انسان زود رنج ہو تا ہے ،کبھی شاداں و فرخان ہو تا ہے ،کبھی پژمردہ ہوتا ہے ،کبھی پر جوش ہو تا ہے،کبھی پر امید ہو تا ہے،کبھی مایوس ہوتا ہے ، کبھی محبتوں کے چراغ جلا تا ہے،کبھی ہجرِ و فرا ق میں اپنی جان کا نذرانہ دے ڈالتا ہے،کبھی سرفروش بن جاتا ہے،کبھی جوکر بن جاتا ہے،کبھی دیش پریمی کا روپ دھارن کر لیتا ہے ، کبھی دیش دروخی بن جاتاہے ،کبھی حرص و ہوس کا استعارہ بن جاتا ہے ،کبھی امانت و دیانت کا پیکر بن جاتا ہے ،کبھی لا دینیت کا پرچارک بن جاتا ہے، کبھی دین کی خاطر اپنی جندڑی لٹانے سے دریغ نہیں کرتا ، کبھی ترقی پسندبن جاتا ہے ، کبھی رجعت پسندی میں پناہ ڈھونڈتا ہے،کبھی فخرو ناز کی تصویر بن جاتا ہے، کبھی عجزو انکسار کی انتہا کر دیتا ہے،کبھی یاروں کی خاطر زندانوں کو گلے لگاتا ہے،کبھی یار وں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتا ہے ، کبھی وفا کی قسمیں کھاتا ہے ،کبھی سرعام عہدِ وفا توڑ تاہے،کبھی متقی بن جاتا ہے اور کبھی لوٹ مار کا دھندہ شرع کر دیتا ہے ، کبھی عورت کے عزت و وقار کی خاطر پوری دنیا سے لڑ جاتا ہے ، کبھی عورت کو بھرے بازار میں رسوا کر دیتا ہے،کبھی اپنے دلدار کی خاطر والدین سے بغاوت کرتا ہے، کبھی والدین کی خاطر پیار سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے،کبھی دل کا روگ پال لیتا ہے،کبھی دل کی بات نہیں سنتا،کبھی صوفی بن جا تا ہے ،کبھی انتشار کو ہوا دیتا ہے،کبھی غیروں کی سنتا ہے ،کبھی غیروں سے بھڑ جاتا ہے،کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے،کبھی نعروں سے درو دیوار ہلا دیتا ہے ، کبھی انقلابی بن جاتا ہے ،کبھی انقلاب سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے،کبھی مسجد کو اپنی جاہِ پناہ بنا لیتا ہے،کبھی مسجدکا رخ نہیں کرتا،کبھی مذہب کومسائل کا حل سمجھتا ہے،کبھی مذہبی مداخلت سے کوسوں دور بھاگتا ہے،کبھی موسیقی سے دل بہلاتا ہے، کبھی موسیقی کو حرام سمجھتا ہے،کبھی خودستائی کا نمائندہ بن جاتا ہے،کبھی عجزو انکسار کا پیکر بن جاتا ہے ،کبھی سادگی کا پرچارک بن جاتا ہے،کبھی غرورو نحوت کا بت بن جاتا ہے ، کبھی نسلی امتیاز کو ہوا دیتا ہے ،کبھی نسلی امتیاز کو زہرِ قاتل سمجھتا ہے ،کبھی مشاورت کو عزیز رکھتا ہے،کبھی آمر بن جاتا ہے ،کبھی سخاوت کا نمائندہ بن جاتا ہے،کبھی دولت کا پجاری بن جاتا ہے،کبھی جھوٹی قسمیں کھاتا ہے،کبھی سچ کا نمائندہ بن جاتا ہے،کبھی جبر کی علامت بن جاتاہے،کبھی عدل و انصاف کو صدائیں دیتا ہے،کبھی محکوموں کا ہمدرد بن جاتا ہے،کبھی دولت پرناز کرنے لگ جاتا ہے،کبھی درویشی اپناتا ہے،کبھی نمودو نمائش کی حدیں پھلانگ جاتا ہے،کبھی ناداروں کو جینے نہیں دیتا،کبھی ان کی فلا ح وبہبود کی خاطر دولت کے منہ کھول دیتا ہے ، کبھی پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور کبھی آمریت کے سامنے بزدلی کا مظاہرہ کر کے نسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے۔،۔
 
انسان کے بارے میں حتمی رائے انتہائی مشکل ہے کیونکہ اﷲ تعالی نے اسے فیصلے کی قوت عطا کر رکھی ہے جو حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں یو ٹرن کی وجہ سے اپنی بات پر ڈٹ جانے اور پہرہ دینے کا زمانہ لد چکا ہے۔کوئی فرد کسی انسان کے بارے میں حتم و یقین سے کہہ نہیں سکتا کہ یہ آنے والے دنوں میں کیا گل کھلائے گا َ۔میں نے اپنی آنکھوں سے گہرے دوستوں کو بد ترین دشمن بنتے ہوئے دیکھا ہے اوردشمنوں کو صفِ دوستی پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے کیونکہ انسان کو بدل جانے کے وصف سے بہرہ ور کیا گیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دنیا جس کے ہم سب باسی ہیں اس میں کوئی امیر ہو یا کوئی غریب ہو،کسی کے ہاں آسائشات کی فراوانی ہو یا کوئی نانِ جویں کو ترس رہا ہو،کوئی مفلس و نادار ہو یا کوئی لعل و زرو جواہر میں کھیل رہا ہو ان کے اندر بے چینی اور بے قراری اپنی جڑیں گہری رکھتی ہے۔ایک ان دیکھا خوف انسان کاسکون غارت کر دیتا ہے اور طبیعتوں میں اختلاف کے باوجود خوف و ملال کا شکار بن جاتا ہے ۔جنت سے نکلا ہوا انسان وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے جنت میں ملتا تھا ۔ اوپر والی دنیا میں ہر چیز اس کے اختیار میں تھی لیکن اس زمین پر وہ جنت والا اختیار پا نہیں سکا جو اسے بے چین کر دیتا ہے۔کبھی کبھی انسان کو لا علاج بیماری لا حق ہو جاتی ہے،ابنارمل اولادپیدا ہو جاتی ہے،جھگڑالو بیوی سے واسطہ پڑجا تا ہے اور باغی اولاد اسے سکون کی دولت سے محرومکر دیتی ہے ۔ اگر سکون دولت سے ملتا تو دنیا کے سارے امراء و روساء سکون کی جنت میں فروکش ہوتے۔ان کے ہاں بے چینی اور بے قراری کا نام و نشان نہ ہوتا لیکن ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ دولت مندوں کے ہاں بے چینی و بے قراری زیادہ پائی جاتی ہے ۔ دولت مند بننے کی حرص و ہوس امراء کو بے چین کئے رکھتی ہے۔وہ دولت کے انبار لگانے اور ساری دنیا کی دولت ہتھیا لینے کیلئے بے کل رہتے ہیں اور یوں نا انصافی اور استحصال کو ہوا دیتے ہیں۔ان کے شب ور وز ارتکازِ دولت کی لت میں ضائع ہوتے جاتے ہیں۔ دولت کی خواہش ان سے صبرو سکون چھین لیتی ہے اور وہ بے قراریوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ(ایک سونے کی وادی آدمی کو دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی آرزو کرے گا ۔ اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا پیٹ بھر نہیں سکتی) ۔ ایک طرف اہلِ ہشم کی یہ کیفیت ہے جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جو مالکِ ارض و سماء سے لو لگا لیتے ہیں وہ ان مادی اشیاء سے بہت بلند و بالا ہو جاتے ہیں ۔ان کی نظر میں دنیاوی مال و دولت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ وہ کائنات میں مال و دولت کے ارتکاز کو نہیں بلکہ اپنے مالک کی اطاعت کو اہمیت دیتے ہیں۔ان کی بودو باش اور رہن سہن انتہائی سادہ ہوتا ہے اور وہ مال و زرِ دنیا کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں دیتے۔ان کی توجہ کا مرکز ربِ کعبہ کی ذات ہو تی ہے لہذا ان کی سوچ کا محور آلائشِ دنیا کی بجائے اس دنیا کا حقیقی خالق ہو تا ہے۔وہ خالق جس کے سامنے اسے روزِ محشرپیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ رب سے تعلق اور سکون کی کلید عبادت ہے اسی لئے اہلِ صفااپنی زندگی کو زہدو عبادت کی نذر کر دیتے ہیں ۔جب دل کے تار کسی اور جگہ جڑ جائیں تو پھر سانسوں میں بے چینی نہیں بلکہ سکون و طمانیت کی خوشبو ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے کہ ( وہ لوگ جو میرے دوست ہیں انھیں کوئی غم اور خوف نہیں ہوگا۔) لہذا ثابت ہوا کہ سکون کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ اس سوچ سے ہے جو انسانوں کے دلوں میں پرورش پاتی ہے۔ سکون و طمانیت کیلئے منزل کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے۔مہ خانہ میں جام و سبو اور رقص و سرور سے دل بہلانے والوں اور رات کی خاموش فضا میں اﷲ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہونے والوں کے سکون و طمانیت کا موازنہ نہیں ہو سکتا۔سکون انھیں ہی میسر آتا ہے جو خدا کے متلاشی ہو تے ہیں۔دیدہ ور نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا(کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی ) ۔ ،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.