جی ہاں!ذندہ ہے ابھی بھی انسانیت

جس معاشرے میں آجکل ہم سانس لے رہے ہیں ہم میں سے بیشتر لوگ اس کی برائ کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید ہمارے رگ و پے میں یہ بات سما گئ ہے کہ مثبت سے ذیادہ منفی پر توجہ دو۔ چاہے لوگوں کے رویوں کی بات ہو یا معاشرے کی اخلاقیات کا ذکر۔ مگر جب ہم نے خود ویلفیئرورک شروع کیا تب ہم پرحقیقی معنوں میں آشکار ہوا کہ جی ہاں! ذندہ ہے ابھی بھی انسانیت۔

اس بات سے تو سب ہی لوگ واقف ہیں کہ مہنگائ کے طوفان نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے، لوگوں کی نیندیں تک چھین لی ہیں اس نے۔ مڈل کلاس طبقہ تو جیسے ہمارے معاشرے میں اپنی آخری سانسیں جی رہا ہے۔ وہی مڈل کلاس طبقہ جو عزت سے دو وقت کی روٹی کھا لیتا اور اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے سکولوں میں پڑھا کر ہی کسی قدر اطمینان محسوس کرتا کہ چلو ہمارے بچے تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں، انہی لوگوں نے اب نظر نہ آنے والی بلکہ محسوس کی جانے والی سفید پوشی کی چادر اوڑھ لی ہے۔

اپنے ملک کے باسیوں کی اسی تکلیف کو دل سے محسوس کرتے ہوۓ ہم نے سوچا اپنے لۓ تو سب ہی جیتے ہیں کیوں نہ دوسروں کے جینے میں کچھ آسانی پیدا کرنے کی حقیر سی کوشش کی جاۓ۔ جیسا کہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لۓ کم نہ تھے کروبیاں
اپنے رب تعالٰی کی عطا کردہ ہمت کے سبب اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لۓ ہم نے کچھ ایسے سفید پوش، مستحق خاندانوں کے بچوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لۓ سماجی بحالی کے کام کا آغاز کیا۔ ایسے خاندان جن کے لۓ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانا ایک ناممکن مرحلہ بن چکا تھا۔

کسی کے پاس جانا، اپنا مدعا بیان کرنا، انہیں کسی عمل خیر کے لۓ تیار کرنا بلا شبہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ بہرحال جب ہم اپنے جاننے والوں، پڑوسیوں، دوست احباب کے پاس درخواست لے کر گۓ اور انہیں اپنے ویلفیئر ورک کے بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے ہماری اس کاوش کو سراہا۔ مگر ان میں سے بیشتر لوگوں نے ہم سے اس لۓ معذرت کی کیونکہ وہ پہلے ہی کسی نہ کسی خاندان کی مدد کر رہے ہیں۔ کسی نے بتایا وہ اپنی ہی برادری کے ایسے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں جو کسی وجہ سے اپنے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ایک صاحبہ نے بتایا وہ اپنے سکول کے ڈومیسٹک سٹاف کو مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔ ایک رشتہ دار خاتون سے گفت و شنید کے دوران معلوم ہوا وہ ایک بیوہ خاتون اور ان کی تین بیٹیوں کے راشن پانی کا بندوبست کرتی ہیں۔ ایک محترمہ نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں غربت بہت ہے، وہاں تو لوگوں کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں تو وہ اپنی زکوٰۃ و صدقات ان لوگوں کو دیتی ہیں۔

شروع میں تو ہم ان کے معذرت بھرے جوابات سے دل شکستہ ہوۓ مگر پھر جب ٹھنڈے دل سے سوچا تو دل کو کسی حد تک مطمئن کر پاۓ۔ آپ یقین کریں کہ پھر تو جیسے ہمارا ڈھیروں خون بڑھا اور ہمیں یہ جان کر نہایت خوشی ہوئ کہ ہمارے لوگ آج بھی ایک دوسرے کا درد محسوس کر رہے ہیں اور اس مہنگائ کے دور میں نہ صرف اپنا بھرم رکھے ہوۓ ہیں بلکہ دوسروں کے جینے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

اب تصویر کے دوسرے رخ پر نظرڈالتے ہوۓ میں ان لوگوں کو سراہنا چاہونگی جنہوں نے لبیک کہتے ہوۓ ہمارے اس کار خیر میں شامل ہونے کی حامی بھری اور اپنی استطاعت کے مطابق donation دینے کا عہد کیا۔ ان لوگوں کی نہ صرف مالی امداد بلکہ moral سپورٹ نے ہمیں بہت ہمت و حوصلہ دیا۔ ہمارا اس بات پر یقین مزید پختہ ہو گیا کہ اگر ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں تو یقیناً ہم اپنے ہموطنوں کی مشکلات کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم پرعزم ہیں کہ ان شاء اللہ ہم اپنے اس عمل خیر کو پایۂ تکمیل تک ضرور پہنچا پائیں گے بلکہ اس کو مزید وسیع بھی کر سکیں گے۔

میری اللہ پاک سے یہی دعا ہے کہ وہ اسی طرح ہم سب کو انسانیت کے رشتے سے جوڑے رکھے اور تمام انسانوں کی مشکلات و پریشانیوں کو دور فرماۓ۔ یا رب کریم! ہمارے اس عملِ صالح کو شرفِ قبولیت بخشنا۔ امین
 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 36 Articles with 30439 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More