فضیلت نماز

نماز مومن کی معراج ہے ،

نمازی کو اللّٰہ کے حضور ایک خاص درجہ و مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے انبیاء کرام علیھم السلام سے آئمہ کرام تک نماز کی فضیلت قائم ہے ،خدا وند عالم دوسرے لوگوں پر برکتیں نازل کرتا ہے اور ان سے بلاؤں اور عذاب کو دور کرتا ہے۔
جیسا کہ حدیث قدسی میں خدا وند عالم فرماتا ہے :
” لولا شیوخ رکع و شباب خشع و صبیان رضع وبھائم رتع لصبت علیکم العذاب صباً
ترجمہ:
اے گنہگار و! اگر بوڑھے نمازی، خاشع جوان، شیرخوار بچے اور چرنے والے چوپائے نہ ہوتے تو میں تمہارے گناہوں کی وجہ سے تم پر سخت عذاب نازل کرتا۔
انسان ہمیشہ ایک ایسی قوی اور طاقتور چیز کی تلاش میں رہتا ہے جو اسکو قبیح اور برے کاموں سے روک سکے تاکہ ایسی زندگی گزار سکے جو گناہوں کی زنجیر سے آزاد ہو۔
قرآن کی نگاہ میں وہ قوی اور طاقتور چیز نماز ہے۔

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
بے شک نماز گناہوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔
اس آیت کی روشنی میں نماز وہ طاقتور اور قوی شئی ہے جو انسان کے تعادل و توازن کو حفظ کرتی ہے اور اس کو برائیوں اور گناہوں سے روکتی ہے۔
نماز دوسری عبادتوں کی قبولیت کے لیے میزان و ترازو کے مانند ہے نماز کو اس درجہ اہمیت کیوں نہ حاصل ہو جبکہ نماز دین کی علامت و نشانی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
''نماز بغیر پاکیزگی کے قبول نہیں ہوتی اور خیانت والا صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا'' (صحیح مسلم)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز سکھاتے ہوئے فرمایا: ''جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو اچھی طرح مکمل وضو کرو''۔
ترميم
حمزہ بن حبیب صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نماز کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے خواص، فوائد اور اسرار کے بارے میں اس طرح فرمایا:

” نماز دین کے قوانین میں سے ایک قانون ہے۔ پروردگار کی رضا و خوشنودی نماز میں ہے۔ نماز انبیاء علیہم السلام کا راستہ ہے۔ نمازی، محبوب ملائکہ ہے۔ نماز ہدایت، ایمان اور نور ہے۔ نماز روزی میں برکت، بدن کی راحت، شیطان کی ناپسندی اور کفار کے مقابلہ میں اسلحہ ہے۔ نماز دعا کی اجابت اور اعمال کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ نماز نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہے۔ نماز قبر میں انسان کی مونس، اس کا بستر اور منکر و نکیر کا جواب ہے۔ نماز قیامت کے دن نمازی کے سرکا تاج، چہرے کا نور، بدن کا لباس اور آتشِ جہنم کے مقابلہ میں سپر ہے۔ نماز پل صراط کا پروانہ، جنت کی کنجی، حوروں کا مہر اور جنت کی قیمت ہے۔ نماز کے ذریعہ بندہ بلند درجہ اوراعلی مقام تک پہنچتا ہے اس لیے کہ نماز تسبیح و تہلیل، تمجید و تکبیر، تمجید و تقدیس اور قول و دعا ہے۔

ہر عبادت کا ایک ستون اور پایہ ہوتا ہے جس پر پوری عمارت کا دارو مدار ہوتا ہے، اگر کبھی اس ستون پر کوئی آفت آجائے تو پوری عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے نماز ایک دیندار انسان کے دین و عقائد کےلیے ایک ستون کے مانند ہے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تمام مسلمانوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

” اوصیکم بالصلوة ، و حفظھا فانھا خیر العمل و ہی عمود دینکم
ترجمہ: میں تم سب کو نماز کی اور اسکی پابندی کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ نماز بہترین عمل اور تمہارے دین کا ستون ہے۔ “
محمد باقر فرماتے ہیں :

” بنی الاسلام علی خمسة: الصلوة و الزکاة و الحج و الصوم و الولایة
ترجمہ:
اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر استوار ہے: نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور اہلبیت علیہم السلام کی ولایت۔
نماز انسان کو بلند ترین درجہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔
” الصلوة معراج المومن
ترجمہ:نماز مومن کی معراج ہے۔ “
نمازی اللہ اکبر کہتے ہی مخلوقات سے جدا ہو کر ایک روحانی اور ربانی سفر کا آغاز کرتا ہے جس سفر کا مقصد خالق و مالک سے راز و نیاز اور اس سے گفتگو کرنا ہے اور اپنی بندگی کا اظہار کرنا، اس سے ہدایت و راہنمائی اور سعادت و خوش بختی طلب کرنا ہے۔
” الصلوة تبلغ العبد الی الدرجة العلیا
ترجمہ: نماز بندے کو بلند ترین درجہ تک پہنچاتی ہے۔
نماز عقیدہ کی تجلی، ایمان کا مظہر اور انسان کے خدا سے رابطہ کی نشانی ہے۔ نماز کو زیادہ اہمیت دینا ایمان اور عقیدہ سے برخورداری کی علامت ہے اور نماز کو اہمیت نہ دینا منافقین کی ایک صفت ہے۔ خدا وند عالم نے قرآن میں اس کو منافقین کی ایک نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :

” ” ان المنافقین لیخادعون اللہ وھو خادعھم و اذا قاموا الی الصلواة قاموا کسالی یراء ون الناس و لا یذ کرون اللہ الا قلیلا
ترجمہ:
منافقین خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں جبکہ خدا خود ان کے فریب کو ان کی طرف پلٹا دیتا ہے اور منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کاہلی کی حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دکھاتے ہیں اور بہت کم اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

” الصلوٰۃ میزان
ترجمہ: نماز ترازو ہے۔

جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ فرماتے ہیں :

” اول ما یحاسب بہ العبد الصلوۃ فاذا قبلت قبل سائر عملہ و اذا ردت ردّ علیہ سائر عملہ
ترجمہ:
سب سے پہلے انسان سے آخرت میں نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا اگر نماز قبول کر لی گئی تو تمام اعمال قبول کرلیے جائیں گے اور اگر رد کر دی گئی تو دوسرے سارے اعمال رد کر دیئے جائیں گے۔
نماز دین کی بنیاد اور اس کا ستون ہے۔عمل کی منزل میں بھی ایسا ہی ہے کہ جو شخص نماز کو اہمیت دیتا ہے وہ دوسرے اسلامی دستورات کو بھی اہمیت دے گا اور جو نماز سے بے توجہی اور لاپرواہی کرے گا وہ دوسرے اسلامی قوانین سے بھی لا پرواہی برتے گا۔ گویا نماز اور اسلام کے دوسرے احکام کے درمیان لازمہ اور ایک طرح کا رابطہ پایا جاتا ہے۔

اسی لیے حضرت علی رضی اللّٰہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللّٰہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

” و اعلم یا محمد ( بن ابی بکر ) ان کل شئی تبع لصلاتک و اعلم ان من ضیع الصلاة فھو لغیرھا اضیع
ترجمہ:
اے محمد بن ابی بکر! جان لو کہ ہر عمل تمہاری نماز کا تابع اور پیرو ہے اور جان لو کہ جس نے نماز کو ضائع کیا اور اس سے لا پرواہی برتی وہ دوسرے اعمال کو زیادہ ضائع کرنے والا اور اس سے لا پرواہی برتنے والا ہے۔
اصول دین میں سے ایک قیامت ہے اور یہ وہ دن ہے کہ جب تمام انسانوں کو حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں حاضر کیا جائے گا۔ روایات کی روشنی میں اس دن سب سے پہلا عمل جس کے بارے میں انسان سے سوال کیا جائے گا، نماز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” اول ما ینظر فی عمل العبد فی یوم القیامة فی صلاتہ
ترجمہ:
روز قیامت بندوں کے اعمال میں سب سے پہلے جس چیز کو دیکھا جائے گا وہ نماز ہے۔
حضرت علی رضی اللّٰہ فرماتے ہیں:
” ان الانسان اذا کان فی الصلاۃ فان جسدہ و ثیابہ و کل شئی حولہ یسبح
ترجمہ: جب انسان حالت نماز میں ہوتا ہے تو اس کا جسم ،کپڑے اور اس کے ارد گرد موجودساری اشیاء خدا کی تسبیح و تہلیل کرتی ہیں۔
انسان جائز الخطا ہے اور کبھی کبھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور ہر گناہ انسان کے دل پر ایک تاریک اثر چھوڑ جاتا ہے جو نیک کام کے انجام دینے کی رغبت اور شوق کو کم اور گناہ کرنے کی طرف رغبت اور میل کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایسی حالت میں عبادت ہی ہے جو گناہوں کے ذریعہ پیدا ہونے والی تیرگی اور تاریکی کو زائل کر کے دل کو جلاء اور روشنی دیتی ہے۔ انہیں عبادتوں میں سے ایک نماز ہے۔ خدا وندعالم نے فرماتا ہے :

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ “
نماز قائم کرو کہ بے شک نیکیاں گناہوں کو نیست و نابود کر دیتی ہیں بے شک نماز گذشتہ گناہوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار اس آیت میں گنہگاروں کو یہ امید دلا رہا ہے کہ نیک اعمال اور نماز کے ذریعہ تمہارے گناہ محو و نابود ہو سکتے ہیں۔
شیطان جو انسان کا دیرینہ دشمن ہے اور جس نے بنی آدم کو ہر ممکنہ راستہ سے بہکانے اور گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، مختلف راستوں، حیلوں اور بہانوں سے انسان کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کی تمام چالبازیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک نماز ہے۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

” لا یزال الشیطان یرعب من بنی آدم ما حافظ علی الصلوات الخمس فاذا ضیعھن تجرء علیہ و اوقعہ فی العظائم
ترجمہ:
جب تک اولاد آدم نمازوں کو پابندی اور توجہ کے ساتھ انجام دیتی رہتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے خوف زدہ رہتا ہے لیکن جیسے ان کو ترک کرتی ہے شیطان اس پر غالب ہو جاتا ہے اور اس کو گناہوں کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ “
احادیث مبارکہ میں نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے :

1. وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَo
البقرة، 2 : 43
’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کروo‘‘
2. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO
البقرة، 2 : 153
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo‘‘
3. إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
البقرة، 2 : 277
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گےo‘‘
اِس کے علاوہ کثیر احادیث مبارکہ میں فضیلتِ نماز بیان کی گئی ہے اور نماز ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ نیز نماز کی جملہ تفصیلات بھی ہمیں احادیث میں ہی ملتی ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اﷲُ عزوجل، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوْءَ هُنَّ وَصَلاَّهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدُ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اﷲِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَلَهُ، وَ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
پانچ نمازیں ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ جس نے ان نمازوں کو بہترین وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور کامل خشوع سے ادا کیا تو ایسے شخص سے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لیے اﷲ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔‘
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ فَاَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ : فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، قَالَ : فَقَالَ : يَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ : لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّ الصَّلَاةَ يُرِيْدُ بِهَا وَجْهَ اﷲِ فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ کَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ.

احمد بن حنبل، المسند، 5 : 179، رقم : 21596

’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موسمِ سرما میں جب پتے (درختوں سے) گر رہے تھے باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شاخ سے پتے گرنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا : اے ابو ذر! میں نے عرض کیا : لبیک یا رسول اﷲ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان بندہ جب نماز اس مقصد سے پڑھتا ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑتے جا رہے ہیں۔‘‘

3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلَاتِهِ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اگر نماز شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کی گئی ہوئی تو وہ شخص نجات اور چھٹکارا پائے گا اور مقصد حاصل کرے گا۔‘‘

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463072 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More