لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے

جی ہاں، لوڈشیڈنگ بالکل ختم ہو سکتی ہے ایسے ہی جیسے لاہور میں پتنگ بازی کا خاتمہ باالخیر ہوا، اگر گورنمنٹ آف اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک قانون بنا دے کہ کہیں بھی کوئی ائر کنڈیشنڈ نہیں چلے گا ، آج سے تقریباً نصف صدی پہلے کی طرح تمام سرکاری و غیر سرکاری جگہوں پر صرف اور صرف پنکھے چلیں گے ۔

اگر کہیں اے۔سی چلتا ہوا پایا جائے تو ذمہ دار افراد کو گرفتار کر کے بلا ضمانت دو سال کے لیے جیل بھیج دیا جائے ۔ راجہ ہو یا مہاراجہ یہ قانون سب کے لیے برابر ہو نا چاہیے پھر دیکھیئے بجلی کی چوری جو اے۔سی چلانے والے کرتے ہیں کہ ہر کمرے میں لگا کر میٹر ریڈر سے لائن کر لیتے ہیں، اُس کے خاتمے کے ساتھ ہی سسٹم لاس میں کمی کیسے آتی ہے اور کارخانوں کی پیداوار میں اضافہ کیسے ہوتا!!

تھوڑی سی قربانی دینے سے مُلک کا کتنا فائدہ ہوگا اس کا تصور آپ یوں کر سکتے ہیں کہ ہر سال لاہور میں پتنگ بازی سے کتنی معصوم اور قیمتی جانیں ضائع ہوتی تھیں اور بے شمار زرِمبادلہ بھی اس شوق کی نظر ہو جاتا تھا۔

پتنگ بازی کے قانون کی مخالفت کرنے والے یہ بہانہ کرتے تھے کہ اس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، جبکہ میرے محلے کے مشہور پتنگ ساز نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی دوکان میں خراد مشینیں بٹھا کر مشینی پرزے بنانے کا کام شروع کر دیا اور مو چی دروازے میں پتنگوں کی مارکیٹ میں اب اچھے اچھے کاروبار ہو رہے ہیں، گڈی بنانے والے کاریگر اب دوسرے دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں، اللہ تعالٰی کی شانِ کریمی ہے کہ وہ روزی دیتا ہے انسان چاہے چوری کر کے لے یا محنت کر کے وہ ہر حال میں دیتا ہے۔

اسی طرح جب ائر کنڈیشنڈ نہیں تھے تو لوگوں میں بیماریاں کم تھیں کھلی ہواؤں میں سانس لے کر صحت مند زندگی گزارتے تھے، آج مسجدوں میں بھی اے سی لگا کر مسلمانوں نے اپنی عبادت گاہوں کو بھی اتنا آرام دہ بنا لیا ہے کہ جس سے عبادت کا مقصد ہی فوت ہو جاتاہے لوگ تھوڑی دیر آرام کرنےکے لے لیے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔

ہمارے آباﺅاجداد کتنے سکون کی زندگی گزار کر گئے ،جب ٹینشن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا جبکہ آج ہر فرد چھوٹا ہو بڑا ہو سب اسی مرض میں مُبتلا ہیں جس کو دیکھو ٹینشن کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اخراجات بے تحاشہ بڑھا لیے ہیں جیسے گھر میں لگژریز کی بھر مار ہر کمرے میں اے۔سی ہونا ضروری ہےمگر جب بجلی کا ہوشربا بل آتا ہے تو چوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہر مہینے پندرہ بیس ہزار کون بھرے لہذا ہزار ڈیڑھ ہزار میٹر ریڈر کو دواور اتنے کا بل آ جائے گا۔

مقابلے کی اس دوڑ کا رخ اگر ہم کفایت شعاری کی طرف موڑ دیں تو اس کے اثرات ہماری آئندہ نسل پر کتنے اچھے ہوں گے اس کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں۔

سوچیئے اگر صرف ایک چیز کو اپنے آپ سے علیحدہ کر دینے سے ہمارے ملک کا ہماری پاکستانی معیشت کا اتنا بھلا ہو سکتا ہے کہ جس سے دنیا سبق سیکھے ،یہ کام ہماری حکومت کی ذمہ واری ہے جو اپنے اپنے محلوں سے ابتدا کرے خاص کر پنجاب کی حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی لگائی تھی اس کام کی ابتدا بھی یہیں سے ہو اور ایسی مثال قائم کرے کہ جس سے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو کر رضاکارانہ طور پر خود ہی اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔

اس ایک نیک عمل کی بدولت اللہ کریم ہمارے دلوں میں اور بھی اچھے اچھے عمل کرنے کا حوصلہ پیدا فرما دے گا ،جیسے کہ اُس کا فرمان ہے کہ بندے تو میری طرف ایک قدم بڑھا میں تیری طرف دس قدم بڑھاﺅں گا۔

میں اس دعا کے ساتھ کہ ہمارے حکمرانوں کو جنہیں اللہ کریم نے نہ جانے کس برائی کا خاتمہ کرنےکے لیے حکومت دی ہے یہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کام کے لیے کس کو منتخب کرنا ہے ہم لوگ جلد بازی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اُس کی منشاءکے بغیر ایک پتہ بھی جنبش نہیں کرتا ، بس ہم کو اپنی توبہ اور اصلاح کی طرف دھیان دینا چاہیے اور ہر وقت اچھے کام کی کوشش اور دعا کرنی چاہیے باقی اُس پر چھوڑ دینا چاہیے، انشاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

ایک کہاوت ہے کہ کسی مصور نے ایک تصویر بنائی اور اُس کے نیچے لکھا ”اِس تصویر میں جہاں کوئی نقص دکھائی دے اُس پر نشان لگا دیں“ یہ لکھ کر تصویر کو چوراہے پر لگا دیا، دوسرے دن جا کر دیکھا تو پوری تصویر پر سیاہ دھبے نظر آئے اس پر کسی نے اُسے مشورہ دیا کہ بھائی ایسا کرو اب کی بار یہ لکھ کر رکھو کہ اگر کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو مہربانی فرما کر اُسے درست کر دیں، دوسرے دن جا کر دیکھا تو تصویر ویسی کی ویسی ہی ملی جیسی بنائی گئی تھی،اس کہاوت میں ایک اشارہ ہے کہ تنقید کرنے کو ہر کوئی آگے ہوتا ہے مگر اصلاح کرنے کو بہت کم لوگ ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

اس بات سے میں اپنے لکھنے والے بھائیوں سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس روش کو اپنانے کی کوشش کریں کہ تنقید کو ترک کر یں یہ سیاسی پارٹیوں کا کام ہے جو ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں تو رات کو نیند نہیں آتی،کیوں نہ ہم اصلاح کی طرف توجہ دیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے جہاں کہیں کوئی نقص نظر آئے اُس کو درست کرنے کی کوشش کریں نہیں تو کوئی حل تجویز کردیں۔

کاش یہ تجویز کوئی حکومت وقت کے کانوں تک پہنچا دے !!!

اللہ کریم ہم سب کو متحد ہو کر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.