ایسے بھی حادثے

کوئی غیر معمولی اچانک ہونے والا واقع حادثہ کہلاتا ہے۔انسانی زندگی حادثوں سے عبارت ہے اور زندگی میں حادثے روز ہوتے ہیں۔ حادثے ضروری نہیں کہ برے ہی ہوں، تلخ ہوں یاجان لیوہ ہوں، زندگی کی چلتی گاڑی جگہ جگہ کئی طرح کے حادثوں سے دو چار ہوتی ہے۔ جن میں بعض اتنے دلچسپ اور خوشگوار ہوتے ہیں کہ مدتوں یاد رہتے ہیں۔سانحے وہ بڑے حادثے ہوتے ہیں جن میں انسان کا قدرے زیادہ نقصان ہوتاوہ ذہنی، مالی اور جانی کسی طرح کا بھی ہو سکتا ہے۔مگر کچھ حادثے ایسے اچھوتے اور دلچسپ ہوتے ہیں کہ ا یک عرصے بعد جب کبھی ہم اس حادثے یاواقعے کو یاد کرتے ہیں تو ا ن کا سوچ ہمیں ہنسی آتی اور اس حادثے کی یاد سے ایک فرحت محسوس ہوتی ہے۔یہ حادثے بھی زندگی کا معمول ہیں۔
چند دن پہلے میں ایک بازار میں ایک دکان سے کچھ چیزیں لینے اس دکان پر کھڑا تھا۔ ایک بزرگ عورت جس کی عمر اسی سے کم نہیں ہو گی، اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ لاٹھی ٹیکتی اس سڑک کے عین درمیان میں خرامانں خراماں چلی جا رہی تھی۔ پیچھے سے ایک نئی SUV گاڑی آئی جسے ایک بیس سالہ جوان چلا رہا تھا۔راستہ بہت چوڑا نہیں تھا۔ بزرگ عورت چونکہ سڑک کے درمیان چل رہی تھی اس لئے گاڑی کے گزرنے کے لئے بالکل بھی راستہ نہیں تھا۔ نوجوان نے تین چار دفعہ ہارن دیا۔وہ عورت شاید کچھ اونچا بھی سنتی تھی اس لئے اس نے ہارن پر توجہ ہی نہ کی۔بالکل قریب پہنچ کر نوجوان نے ایک بار پھر ہارن بجایا۔ اس بار عورت نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ نوجوان اس کی گھبراہٹ پر ہنسنے لگا اور پھر کھڑکی سے باہر جھانک کر بولا، ’’دادی جی، سائڈ پر ہو جائیں، آپ بیچ میں چل رہی ہیں، کسی کو رستہ ہی نہیں مل رہا‘‘۔ دادی جی کو اس کی بات سمجھ آئی کہ نہیں ۔ مگر انہوں نے شور مچا دیا۔لڑکے کو کہنے لگیں، ’’تم کو شرم نہیں آتی، میں کوئی تمہاری ہم عمر ہوں جو مجھ پر ہارن بار بار بجا رہے ہو، گھر میں تمہاری کوئی ماں بہن نہیں، جو دوسروں کی ماؤں بہنوں پر ہارن بھی بجاتے ہو اور سامنے کھڑے ہو کر دانت نکال نکال کر ایکٹنگ بھی کر رہے ہو۔ میرے جیسے چند لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے۔ گاڑی والا لڑکا وہیں کھڑا ہنس رہا تھا اور باقی تمام لوگ بزرگ عورت کی باتوں پر ہنس رہے تھے۔۔ کہنے لگا کہ کوئی لڑکی الزام لگاتی تو اچھی بات تھی مگر ہماری قسمت دیکھیں، ہماری دادی ہمیں آوارہ کہہ رہی ہے۔ بڑی بی کہ بس میں نہیں تھا ورنہ وہ لڑکے کو اپنے پر ہارن بجانے کے جرم میں چند لاٹھیاں ضرور رسید کر دیتیں۔ بڑی بی کو باتوں میں لگا کرلوگوں نے لڑکے کو اشارہ کیا کہ گاڑی لے کر نکل جاؤ۔ وہ چلا گیا تو بڑی مشکل سے وہاں کھڑے سارے لوگوں نے ا س بزرگ خاتون سے معافی مانگ کر انہیں بمشکل وہاں سے روانہ کیا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس نیم مردہ بزرگ عورت کو اب بھی غلط فہمی تھی کہ کوئی اس کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ اسے چھیڑ سکتا اور اس سے اٹھکیلیاں کر سکتا ہے۔

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ۔ اچھرے میں ایک پرائیویٹ کالج ہوتا تھا۔ ہم کچھ لیکچرار دوست شام کواس کالج میں چلے جاتے اور وہاں اس کے دفتر میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ۔ وہاں کا پرنسپل بڑا زبردست آدمی تھا۔ اس نے صرف میٹرک تک انگریزی پڑھی تھی ۔ یہی اس کی کل کوالیفیکیشن تھی۔ مگر اس نے اپنی انگلش اس حد تک بہتر کر لی ہوئی تھی کہ وہ ایف اے ،ایف ایس سی، بی اے، بی ایس سی اور ایم اے تک کی ساری انگلش کی کلاسوں کو بڑی آسانی سے خود پڑھاتا تھا اور لڑکے اس کی تدریس کی تعریف کرتے تھے۔اس کے کالج میں بڑی کلاسوں میں دفتروں میں کام کرنے والے خواتین و حضرات کا خاصہ رش ہوتا تھا۔ایک دن میں اس کے دفتر میں بیٹھا تھااور وہ کلاس روم میں تھا۔ میں دفتر میں بیٹھ کر دوستوں کا انتظار کر رہا تھا کہ وہاں کی ایک سٹوڈنٹ جو شاید ٹیلی فو ن آ ٓپریٹر تھی اور مجھ سے دس پندرہ سال بڑی تھی، وہ دفتر میں آئی ۔پرنسپل صاحب سے کوئی مشورہ کرنا چاہتی تھی۔اسے پتہ تھا کہ ہم جو اسوقت اس کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں سارے کسی نا کسی کالج میں استاد ہیں۔پرنسپل صاحب کو نہ پا کر مجھے کہنے لگی؂، ’’ سر،آپ ایک مشورہ دے سکتے ہیں‘‘۔میں نے کہا بتائیں۔ وہ مجھے کچھ بتانے لگی۔ میں نے ساری بات سنی اور اس کے بعد اپنی عقل کے مطابق اسے جو مشورہ دے سکتا تھا دے دیا۔وہ کچھ بحث کرنے لگی۔میں نے اس کے ایک سوال کے جواب میں کہا، بی بی آپ کو شاید برا لگے، مگر آپ یہ غلط کہہ رہی ہیں ۔ جواب ملا، نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی بات کا برا کیوں مانوں گی۔ آپ تو میرے باپ کی طرح ہیں۔اس وقت مجھے تدریس سے وابستہ ہوئے بہت عرصہ نہیں ہوا تھا۔عمر بھی تیس بتیس سال ہو گی۔ ابھی تک کسی نے انکل بھی کم ہی کہا تھا۔ مگر یہ کیا کہ مجھ سے پندرہ بیس سال بڑی لڑکی مجھے باپ کہہ رہی ہے۔میں کچھ لمحوں کے لئے سکتے میں چلا گیا۔ اس کے بعد پریشان پریشان گھر لوٹ آیا۔ بیگم نے پوچھا خیریت ہے کچھ ڈھیلے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ غور سے مجھے دیکھ کر یہ بتاؤ کہ کیا میں آج بہت بوڑھا نظر آ رہا ہوں۔بیگم نے دائیں، بائیں، اوپر، نیچے سب دیکھا اور کہا، کیوں کیا ہوا، مجھے تو کوئی تبدیلی نظرنہیں آ رہی۔ ہوا کیا ہے جو آپ پریشان ہیں۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ہونے والے اس سانحے کے بارے بتایا کہ آج ایک پچاس سال بچی نے مجھے اپنا باپ کہہ دیا ہے۔اس صدمے سے مجھ پر جو بیتی ہے وہ فقط میں ہی جانتا ہوں۔ اس روح کے زخم کا کوئی دوسرا اندازہ نہیں لگا سکتا۔وہ وقت بیت گیا۔ اب کوئی دادا جی بھی کہہ لے تو برا نہیں مناتاکہ اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ایسی چیزیں استاد سے جڑی ہوتی ہیں۔

سوچتا ہوں کہ استاد ہونے کے ناطے اس بزرگ بچی نے جو رویہ میرے ساتھ اپنایا، وہ ایک اچھا، مثبت اور باعزت رویہ تھا۔جو اچھے طالب علم ہمیشہ اپناتے ہیں اور اپناتے رہیں گے۔استاد کے احترام کے لئے عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی، وہ جس عمر کا بھی ہو اس کا احترام اپنے والدین کی طرح کرنا ہر شاگرد بچے کا فرض ہے۔ استاد بھی اپنی عمر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رشتے کا تقدس نباتا ہے اور بچے سے اسی طرح پیش آتا ہے جیسے وہ اس کا اپنا بچہ ہو۔ استاد اور شاگرد کا باہمی اچھا، مثبت اور پر خلوص تعلق نہ صرف طلبا کو کلاس روم میں مضمون کو سمجھنے میں مدد گار ہوتا ہے بلکہ استاد کو بھی زیادہ فعال اور بہتر کارکردگی کا حامل بناتا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444095 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More