زندگی اک راز ہے

زندگی کے فلسفے کو فلسفے سے ہٹ کر, جب حقیقت کی آنکھ کے ہر منظر میں ڈھونڈا تو یہ راز بھی لگی اور ہم راز بھی۔۔۔

خالق کائنات کو تخلیق کائنات کے بعد جب اپنے ہونے کی دلیل دینے کی ضرورت پڑی تو اس نے "زندگی" کو تخلیق کیا۔ عالم بے رنگ، زندگی کے آنے سے عالم رنگ و بو بن گیا۔ یوں زندگی خود۔۔۔زندگی دینے والے کی گواہ بن گئی۔ میرے لئے زندگی کا موضوع ایک مشکل موضوع رہا ہے۔ یوں تو زندگی ہمیشہ میری ہم راز رہی، مگر یہ خود میرے لئے اک راز ہی رہی۔ زندگی کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا کھیل کیا ہے؟ زندگی۔۔ابتداء ہے یا انتہاہے؟ یہ معمہ کبھی حل نہ ہو پایا۔ یہ سب جاننے کے لئے بھی اکثر، مجھے زندگی ہی کا سہارا لینا پڑا۔ زندگی کی کتاب کو پڑھنے کے لئے جب کبھی سوچ کے دریچوں میں قدم رکھتا ہوں تو کچھ حقیقتوں کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔زندگی کو لکھنے کے لئے عقل کا گھوڑا دوڑاتا ہوں تو خیال بغاوت کرتے ہیں۔ لیکن جب دل کا قلم اٹھاتا ہوں تو لفظ خود زندگی بن جاتے ہیں۔

زندگی کا ہر باب انوکھا نکلتاہے۔ ہر جملہ میرے چہرے پہ ان گنت نقوش ثبت کرتا چلا جاتا ہے۔ کتاب زیست کا ہر ورق میرے چہرے کے تاثرات کو متغیر کرتا ہے۔ کہیں تو ہونٹوں پہ مسکان ٹھہر جاتی ہے اور کہیں ماتھے پر بل آجاتے ہیں۔ کہیں آنکھ اشک بار ہوتی ہے تو کہیں دل خوشی سے جھوم اٹھتاہے۔ کہیں میں روتا رہتا ہوں اورزندگی مسکراتی رہتی ہے۔ کہیں میں مسکراتا رہ جاتا ہوں اور زندگی روتی چلی جاتی ہے۔

خیر! زندگی کی کہانی کو کسی خاص ترتیب میں تو نہیں سنا سکتا کیونکہ اس کو ترتیب دینے والا کوئی اور ہے۔ لیکن میں زندگی میں بہت سے چہرے دیکھتا ہوں اور بہت سے چہروں میں زندگی۔ نہاں خانہء دل میں ایک مہین سے آواز ، ایک پے در پے دھڑکتی ہوئی دھڑکن زندگی ہے یا ایک ماں کی کوکھ میں جنم لیتی ہوئی کسی کن کی صدا۔ وجود خاکی میں آتی جاتی ہوئی سانسوں پہ غور کرتا ہوں، بدلتے موسموں کی دھوپ چھاؤں، لہلہاتے کھیت، وسیع و عریض گلزاروں میں پھیلی ہوئی خوشبو اور پھولوں پہ جا بجا بکھرے ہوئے شبنمی موتیوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ زندگی ہے۔گلستاں میں پھولوں پہ صد رنگ تتلیاں، اور ان تتلیوں کے پروں پہ لکھی ہوئی رنگوں کی داستاں کو پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہی زندگی ہے۔ شب کی تاریکی میں کوئی جگنو جب رستہ دکھاتا ہے تو ایک لمحے کے لئے لگتا ہے کہ یہ زندگی ہے۔

کسی معصوم سے چہرے پہ سجتی ہوئی مسکراہٹ پہ نظر پڑتی ہے اور کسی آنکھ کی چلمن سے جگمگاتی ہوئی روشنی پہ دل فدا ہونے لگتا ہے تو محسوس ہوتا ہے۔یہی زندگی ہے۔ برستی بارش میں چہرے پہ پڑتی ہوئی بوندیں، اور ان بوندوں میں کسی سہانی یاد کا عکس جب دل کے صحرا کو سیراب کرتا ہے تو خیال گزرتا ہے کہ یہی زندگی ہے۔کسی پراثر چہرے کی پر تاثیر آواز جب سماعتوں میں رقص کرتی ہے تو محسوس ہوتا ہے یہی زندگی ہے۔ خوشیوں کے سب رنگ لئے کسی محفل یاراں پہ نظر پڑتی ہے یا اٹھکیلیاں کرتی ہوئی سہیلیاں آپس میں پہیلیاں بوجھتی ہیں تو لگتا ہے کہ یہ زندگی ہے۔

خواب نگر میں کھوئے ہوئے کسی شاعر کا حسن خیال جو رتجگوں میں گلاب بن کر مہکتا ہے یا کسی خیال کے پنچھی کی اڑان جو اس کے قلم کو تقویت دیتی ہے، لفظ پھولوں کی مالا پروتے ہیں اور ہر جملہ خوشبو بن جاتا ہے۔ یوں کسی خیال کا ہم خیال بن جانا بھی زندگی ہے اور کسی حسن کا جمال بن جانا بھی زندگی ہے۔

کسی طویل سفر کے دوران کھڑکی سے جھانکتے ہوئے آنکھ، جب کسی منظر میں کھو جاتی ہے جنگل، پہاڑ، دریا، کوہسار، وادیاں، گلزار اور ہوا کے دوش پہ بیٹھے ہوئے خانہ بدوش۔۔پھر ان خانہ بدوشوں کے کھلکھلاتے ہوئے چہروں پہ اطمینان کے جلتے ہوئے دیے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہی زندگی ہے۔ کسی روتے ہوئے معصوم بچے کا ماں کا چہرہ دیکھتے ہی چپ ہو جانا اور پھر آغوش مادر میں سب درد بھلا کر سکون سے سو جانا دیکھتا ہوں تو خیال گزرتا ہے کہ یہ زندگی ہے۔ الفتوں کے رستے پہ کسی بچھڑے ہوئے ہاتھ کا ساتھ دوبارہ مل جائے تو سوچتا ہوں یہی زندگی ہے۔۔۔

مگر زندگی کی کتاب میں خوشیوں کے باب پڑھتے ہوئے اچانک کچھ نئے منظر بھی سامنے آجاتے ہیں اور دل درد کی دلدل میں پھنس جاتاہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لطافتوں سے بھری جیون کی گاڑی جب غم کی وادی سے گزرتی ہے تو گردش ایام سے مکدر چہروں پہ نظر پڑتی ہے، غبار آلود چہرے، مشقت کی ریاضت سے اینٹھے ہوئے اجسام، چہرے پہ عمر بھر کےغم پالے ہوئی جھریاں اور ان جھریوں میں نہ نظر آنے والے آنسوؤں کی جل تھل دیکھتا ہوں تو دل کے گوشوں سے آواز آتی ہے کہ یہ بھی زندگی ہے۔ فاقہ کش آنکھیں، دبلے پتلے اجسام اور زندہ لاشوں کی جان لیوا سسکیاں سنتا ہوں تو دل یہ تسلیم کرنے پہ مجبور کرتا ہے کہ یہ بھی زندگی ہے۔ شدید دھوپ میں ہاتھ میں کدال تھامے کسی مزدور کو دیکھتا ہوں، کسی حاکم کم ظرف کا ستم سہنے والے مجبور کو دیکھتا ہوں یا مکافات عمل کی عدالت میں کھڑے کسی مقہور کو دیکھتا ہوں تو دل کانپ کے کہتا ہے یہ بھی زندگی ہے۔

سڑک کنارے کسی غبارے بیچنے والے کو دیکھتا ہوں جو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی سانسیں بیچ رہا ہے تو خیال آتا ہے کہ یہ بھی زندگی ہے۔ کسی درد کی دہلیز پہ کھڑے بھکاری کو دیکھتا ہوں جو کسی بے درد سے ہمدردی کی بھیک مانگ رہا ہے تو روح کانپ کر کہتی ہے یہ بھی زندگی ہے۔ کسی دفتر میں خالی آسامی کو پر کرنے کے لئے امیدواروں کی لمبی قطار اور ان کی حالت زار کو دیکھتا ہوں تو دل کہتا ہے، یہ بھی زندگی ہے۔ کسی جیتے ہوئے کھیل کو آخری گھڑیوں میں ہار جانے والے کھلاڑی کی بے بسی کہتی ہے یہ بھی زندگی ہے۔ کسی اپنے کو بستر مرگ پر موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں چھپا درد دیکھتا ہوں تو دل خوں کے آنسو روتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ بھی زندگی ہے۔۔

الغرض کتاب زیست کے تاریک اور روشن پہلو دیکھنے کے بعد سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے اور دل و دماغ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زندگی ایک راز ہے۔۔ جو صدیوں سے کسی پر کھل نہیں پایا۔۔ یہ زندگی کبھی خوشیوں کا جہاں ہے تو کبھی غم کی داستاں۔ زندگی کسی درد مند کے لئے ہمدرد ہے تو کسی بے درد کے لئے اک درد۔

زندگی دیکھنے والے کے لئے اک خواب ہے، سوچنے والے کے لئے عذاب ہے، سمجھنے والے کے لئے سراب ہے۔ یہ کسی کم ظرف کے لئے حجاب ہے اور اعلی ظرف کے لئے بے حساب ہے۔۔

زندگی زندہ دلوں کے لئے زندہ رہتی ہے اور بزدلوں کے لئے موت بن جاتی ہے۔ قسمت کی آنکھ مچولی میں کبھی کبھار ہار جانا، اور ہارجانے کے بعد بھی مسکرانا۔۔ زندگی ہے۔ زندگی مکاں سے لامکاں تک کی کہانی ہے ، یہ جتنی نئی ہے، اتنی ہی پرانی ہے۔ زندگی کوئے یار سے سوئے دار تک کا فسانہ ہے ، ہجر و وصال کا ترانہ ہے، یہ سوزش پروانہ ہے ، کبھی ساقی ہے، کبھی پیمانہ ہے۔

نگاہ ظاہر کے لئے زندگی کوبکو ہے تو نگاہ باطن کے لئے جلوء ھو ہے۔زندگی کو اگر زندگی کے مالک کی بارگاہ میں تلاش کیا جائے تو زندگی، بندگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ زندگی کا رستہ وجود سے موجود تک جاتا ہے، یہ وحدت سے شہود تک جاتا ہے۔ زندگی کبھی نور کی تجلی ہے تو کبھی طور کی تسلی۔ زندگی ساجد کے لئے مسجود کی عطا ہے۔ یہ کبھی حق کی صدا تک پہنچی تو کبھی سدرۃالمنتھی تک پہنچی۔ زندگی کہیں مصطفی تک پہنچی تو کہیں نجف و کربلا تک پہنچی۔ زندگی خالق کے قرب کی علامت بن کر طائف کی وادیوں میں پہنچی تو دعا بن گئی اور کربلا کے صحرا سے گزری تو بقا بن گئی۔ المختصر! زندگی کا سفر آفاقی ہے۔ یہ ایک سربستہ راز ہے کہ جس کے سامنے کون و مکاں دست بستہ کھڑے ہیں۔ صدیاں بیتیں، زمانے بیت گئے، اس زندگی کے راز سے پردہ نہ اٹھ سکا۔ زندگی حرف سے دعا تک کا سفر ہے۔ یہ ابتداء سے انتہا تک کا سفر ہے۔بس خدا سے۔۔خدا تک کا سفر ہے۔

Waseem Aakash
About the Author: Waseem Aakash Read More Articles by Waseem Aakash: 5 Articles with 2123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.