آنسوؤں کا خراج

انسانی اعمال میں جب تک عشق کو مرکزی مقام حاصل نہیں ہوتا انسانی ارتقاء ناممکن ہوتا ہے۔وہی محبت اصلی اور کھری قرار پاتی ہے جسے دنیا تسلیم کرے اور اس کی گواہی دے کیونکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے بات نہیں بنتی۔ علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی عقیدت نے والدِ محترم کے دلِ نازک میں سوزو گداز کی ایک دنیا آباد کر رکھی تھی لیکن وہ بات جو والدِ محترم کی شخصیت کو اور بھی جاذبِ نظر بنا دیتی تھی وہ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفے ﷺ سے ان کی دلی وارفتگی اور بے پایاں محبت کا اظہا ریہ تھا ۔ تاریخ ِ اسلام کا کو ئی اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کے سرخ و سفید رخساروں پر جب آنسوؤں کی لڑیاں موتیوں کی مانند چمکتی تھیں تو ان کی شخصیت کو اور بھی دلکشی عطا کر دیتی تھیں ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سرکار ِ دو عالم ﷺ کا تذکرہ ہو اور والدِ محترم کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز نہ ہوئی ہوں؟ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ ذکرِ رسول اﷲ ﷺ کو چھیڑا جائے تا کہ ان کے دل ِ بے تاب کی تسکین کا سامان مہیا ہو سکے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے اندر ایک ایسا عاشقِ رسول ﷺ برا جمان تھا جو سرکارِ دو عالم ﷺکے نا مِ نامی پر اپنے آنسوؤں کا خراج دینے کیلئے بے تاب رہتا تھا ۔ یہ عشقِ رسول ﷺ کا اعجاز تھا یا ان کے دل میں جوش مارتی ہوئی عقیدت کا کمال تھا کہ ان کا چہرہ ذکر ِ رسول ﷺ سے اور بھی دمکنے لگتا تھا۔ایک نور کا ہالہ ان کے چہرے کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا جس کا مشاہدہ گھر کا ہر فرد کرتا تھا۔محبت واقعی ایسی نایاب اور انمول شہ ہے کہ یہ انسان کے وجود اور اس کے اندر روح کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور انسان خود بخود محبوبِ خلائق بنتاچلا جاتا ہے۔علامہ اقبال ؔکے بارے میں مشہورتھا کہ محبوبِ خدا ﷺکے ذکر پر ان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی جسے سمجھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا تھا کہ ایسا کیوں ہو تا ہے ؟ علامہ جی اے پرویز مارچ ۱۹۳۸؁ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح علامہ اقبال ا سرکارِ دوعالم ﷺ کے ذکر پراپنے ہوش وحو اس پر قابو نہ رکھ سکے تھے ۔ان کا گلہ رندھ گیاتھا اور ان پر کھانسی کا ایسا شدید حملہ ہواتھا کہ ان کیلئے کلام کرنا ناممکن ہو گیاتھا۔علم و ادب کی محفل تشویش کی نظر ہو گئی تھی کیونکہ سرکار ِ دوعالم ﷺ کی محبت کی شدت ان کی ذات پر حاوی ہو گئی تھی اور وہ اسی کے حصار میں کھو گے تھے ۔ہم سارے محوِ تماشہ تھے کہ یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیاہے )؟سچ تو یہ ہے کہ ایسی محبت ہر انسان کا مقدر نہیں ہو سکتی۔علامہ اقبال سرکارِ دو عالم ﷺسے محبت کی شمعیں جلاتے رہے اور دنیا اقبال کی گرویدہ ہو تی چلی گئی ۔ لوگ صدیوں تک اس محبت کی داستانیں دھرائیں گے لیکن اس کی چاشنی پھر بھی کم نہ ہو گی۔انھوں نے جس محبت، درد اور لطافت سے آقائے دو جہاں ﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے وہ صرف انہی کی ذات کا حصہ ہے ۔عشق و محبت میں ڈوبی ان کی نادر رباعی۔(وہ دانائے سبل،ختم الرسل ،مولائے کل جس نے ۔،۔ غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی ِ سینا )۔،۔( نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر ۔،۔وہی قرآن وہی فرقان، وہی یاسین وہی طحہ ) ۔،

یہ بات اہلِ نظر کے علم میں ہے کہ علامہ اقبال جب حج کی سعادت سے بہرہ ور نہ ہو سکے تو انھوں نے ارمغانِ حجاز میں اپنی تمناؤں کو زبان عطا کی۔علامہ اقبال نے تو یہی کہا تھا کہ میں مدینہ منورہ چلا تو جاؤں لیکن کوئی مجھے بتائے کہ میں اپنے محبوب کی گلیوں سے کیسے زندہ سلامت لوٹ کر آسکوں گا؟آنسوؤں کی جھڑیوں میں کیا کوئی درِ یار کو چھوڑنے کا تصور کر سکتا ہے؟علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے حج کی سعادت کا پروانہ ملا تو و ہ سو رش کاشمیری کے آستانے پر پہنچے اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ میرے والدِ محترم ساری عمر سفرِ حجاز کو ترستے رہے لیکن انھیں اذنِ زیارت نہ مل سکا ۔ آج ان کے فرزندِ ارجمند کو جو کہ دنیا داری میں کھویا ہوا ہے حج کی سعادت کیلئے چن لیا گیاہے جس کی منطق کو سمجھنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔براہِ مہربانی اس راز سے پردہ اٹھائیے۔ سورش کاشمیری نے ڈاکٹر جا وید اقبال سے کہا کہ تم اس بات کو سمجھ نہیں پاؤ گے کیونکہ یہ عاشقی کی دنیا ہے اور عاشقی کی دنیا میں ( عاشقوں کو بلا یا نہیں جاتا،عاشقو ں کی تڑپ خالقِ کائنات کو اچھی لگتی ہے لہذا وہ اس تڑپ کو دیکھنا چاہتا ہے۔عاشقوں کو کبھی کبھی درِ نبی ﷺ پر حاضری سے روک لیا جاتا ہے تا کہ ان کی تڑپ اہلِ جہاں کو عشق و محبت کے نئے معنوں سے روشناس کرواسکے اور ان کیلئے عشق و محبت کے نئے در کھول سکے ۔ دل کا آئینہ شفاف ہو تو منظر ضرور تشکیل پا تا ہے ۔ محبت کا ذکر اہلِ عشاق کا کام ہے ۔یہ دھن دولت کے پجاریوں کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔ مال و دولت کی سجی ہوئی منڈی میں محبت کا لفظ بذاتِ خود کسی عطا سے کم نہیں ۔اسے صفحہِ قرطاس پر وہی انسان بکھیر سکتا ہے جس کا دل جوئے رواں کا مسکن ہوتا ہے ۔ ایک ایسی ندی جس میں آنسوؤں کا راج ہو تاہے ۔جب جنت کا راستہ مدینہ منورہ سے ہو کر جاتا ہے تو پھر سب کی نظریں مدینہ منورہ پر کیوں مرکوز نہ ہو ں ؟علامہ اقبال نے بھی تو یہی کیا تھا اور اس شہر ِ نور کی زیارت کی حسرت میں ساری عمر روتے رہے تھے جس کا حال بیان کرنے سے مجھ جیسا دنیا دار قاصر ہے البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اقبال نے عشقِ نبی ﷺ میں اپنے آنسووں کا جو خراج پیش کیا تاریخِ ادب میں اس کی نظیر ڈھونڈنا ناممکن ہے۔عشق کا انداز دیکھئے (عشق دمِ جبر ئیل،عشق دلِ مصطفے ۔،۔ عشق خدا کا رسول ،عشق خدا کا کلام)۔،۔( عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک ،عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرا م )۔،۔(عشق فقیہِ حرم،عشق امیرِ جنود۔،۔عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام)۔،۔

نامور مصنف ناصر ادیبؔ جن کا شمار میرے قریبی دوستوں میں ہو تا ہے ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے کہا تھا ( حرمِ پاک میں حج کے دوران ایک بھی آنسو میری آنکھ سے نہ ٹپکا تو مجھے اپنے آنسوؤں پر شک ہونا شروع ہو گیا کہ شائد یہ خشک ہو چکے ہیں لیکن جیسے ہی مدینہ منورہ میں میری نظر گنبدِ حضراِ پر پڑی اسی لمحے ناصر ادیب کی موت واقع ہو گئی اور ایک ایسے منگتے کا ظہور ہوا جس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ جو کچھ خانہ کعبہ میں نہیں ہوتا وہ مدینہ منورہ میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے)۔ میرے یارِ غار صوفی ادریس احمد قریشی کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔میں نے عشقِ نبی ﷺ میں اسے ایک بچے کی طرح بلکتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس کے رخساروں پر آنسو ایسے بہتے ہیں جیسے کسی چشمہ سے پانی پھوٹتا ہے۔اس کا دلِ بے تاب ایک ایسی تلاش میں نکل چکا ہے جس کے راز سے کوئی دوسرا انسان واقف نہیں ہے۔اگر میں اپنے دیرینہ دوست عابد حسین قریشی ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج (ر) کا ذکر نہیں کروں گا تو ساری بات ادھوری رہ جائیگی ۔عابد حسین قریشی کا تعلق علم و ادب کے ایک ایسے حلقہ سے ہے جھنیں جدید سوچ کا حامل اور ترقی پسندی کی علامت سمجھا جا تا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ان کے اندر عشقِ نبی ﷺ کی لہر اپنی انتہاؤں کو چھوتی ہے۔ان کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب عدل بیتی کا آغاز نعتِ رسولِ مقبول ﷺ سے ہوتا ہے۔یہ بھی ایک منفرد واقعہ ہے کہ نثر کی کتاب کا آغاز نعتِ رسولِ مقبول سے ہو۔در اصل ایسا ان کی دلی کیفیت کا اظہار یہ ہے جس نے یہ انداز اپنا یا ہے۔جج صاحب کے ہاں سالانہ ختم کی محفل تھی جس میں اجمل سندھڑی سے عدل بیتی کی نعت سنانے کی فرنائش کی گئی تھی ۔ جب محفل اس شعر پر پہنچی ۔(تمہی ختمِ نبوت ﷺ ہو شہہِ کون و مکاں تم ہو ۔،۔ ہر اک مشکل سے عابد ؔ کو تمہی نے ہی نکالا ہے) توجج صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہنا شروع ہو گئیں جو کوشش ِ بسیار کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں لہذا انہیں محفل سے اٹھ کر جانا پڑا ۔میرے آقا ﷺ کی محبت کا یہ کیسا اعجاز ہے کہ ان کی محبت میں انسان خود کو بھول جاتا ہے اورآ نسو ؤں کی لڑیاں محبت کی ساری داستان بیان کرنے لگ جاتی ہیں؟ ۔کمال دیکھئے کہ عاشق جس راز کوچھپانے کی سعی کرتے ہیں اک دن وہی طشت از بام ہو جاتا ہے ۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.