پاکستان کی معشیت کا تعلق؟

پاکستان کی معشیت کا تعلق ہمیشہ کچھ اداروں سے جڑا ہوا ہے اس وقت پاکستان جس قدر اپنی معاشی ، سیاسی اور خارجی بحران سے گزرہا ہے اس میں تمام اسٹیک ہولڈروں کا بالواسطہ اور بلاواسطہ کچھ کم اور کچھ زیادہ رہا ہے اس وقت جس طرح سے مہنگائی کا طوفان عوام پر ہر ہفتہ بعد لادا جارہا ہے اور نت نئے ٹیکس کی نوید وزیر خزانہ صاحب آئے دن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر سناتے جارہے ہیں مکر اس ٹیکس کلیکشن کا صیح روڈ میپ واضع نہیں کررہے ہیں موجودہ ٹیکس نظام کا جھکاؤ واضح طور پر ہمیشہ کی طرح اشرافیہ کی جانب ہی ہے. زیادہ تر بلا واسطہ ٹیکس عام آدمی کی کمر پر لاد دیئے گئے ہیں. پاکستان میں ہمیشہ اشرافیہ اور امیروں پر ٹیکس لگانا ہر حکمران کا ایک مشکل عمل ہی رہا ہے۔ اس ہی وجہ سے ہمیشہ پاکستان میں بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح بلا واسطہ ٹیکسوں کی شرح کے مقابلے میں کافی کم ہے. جو اس خطے یعنی ہمارے ارد گرد پڑوس ممالک میں بھی اس طرح کی صورتحال نہیں ٹیکس لگانے کی ہے.یعنی وہ ٹیکس جو براہِ راست جو صاحب ثروت لوگوں سے لیا جاتا ہے اُس ٹیکس سے کم ہے جو بلاواسطہ طور پر سب سے لیا جاتا ہے، مثال کے طور پر سیلز ٹیکس وغیرہ بلا واسطہ ٹیکس بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں لوگوں کی آمدنی میں موجود فرق بہت زیادہ ہےجو سراسر نا انصافی پر مبنی ہے۔اور ہر سال بجٹ ہو یا منی بجٹ اس پرہی لاد دیا جاتا ہے. یہ مذاق نہیں کہ ہے کہ ایک گدھا گاڑی چلانے والا اور ایک ارب پتی شخص روز مرہ استعمال کی اشیا کی خریداری پر ایک ہی جتنا سیلز ٹیکس ادا کرے۔ پاکستان میں بلا واسطہ ٹیکس لگانا اِس لیے آسان ہے کہ اُسے عائد کرنے میں زیادہ محنت جوکھوں وغیرہ نہیں کرنا پڑتی۔ پاکستان میں جو براہِ راست ٹیکس جمع بھی کیا جاتا ہے اُس ٹیکس کو دینے میں بھی بڑی تعداد بیچارے تنخواہ دار طبقے کی ہی ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہوا ہوتا کہ یہ ٹیکس تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ہی اُن کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ مراعات یافتہ طبقہ یا اُمراء کو جو ریاست کی دی گئی ہوئی ہر سہولتوں سے زیادہ استفادہ اُٹھارہے ہوتے ہیں اور جو لوگ اپنے کاروبار کا ہنر بھی رکھتے ہیں وہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں جن افراد کو حکومت تمام تر سہولیات اُنہیں مہیا بھی کرتی ہے یا انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں، و ہی زیادہ تر سب سے کم ٹیکسں ادا کرتے ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں شامل ہونا اپنی توہیں سمجھتے ہیں۔ ہر حکمراں کے دور ادوار میں جب بھی اس مراعات یافتہ طبقے پر عائد ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کی سن گن ہوتی ہے تو وہ اس پر سب سے زیادہ شور مچاتا ہے۔ پاکستان کا امیر طبقہ ہمیشہ یہ ہی شکوہ ہر محفل و مجلس میں کرتا نظر آتا ہے کہ ریاست ہمیں دیتی ہی کیا ہے جو ہم اتنا ٹیکس ادا کریں۔ جبکہ مڈل کلاس اور تنخواہ دار اپنا تمام بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتا ہے،اور ایسے ویسی سہولتیں میسر بھی نہیں ہیں . جو پاکستان میں اشرافیہ اور اُمراء کے طبقے کو حاصل ہوتی ہیں ۔ جبکہ تنخواہ دار طبقہ ہر ادوار سے نہ تو اپنے بچوں کو اچھے اداروں میں پڑھا سکتا ہے نہ ہی باہر کے مہنگے اسپتالوں سے اپنا علاج کروا سکتا ہے اور جو لوگ جو اپنا پیسہ بناتے ہیں بالخصوص جو بہت ہی زیادہ پیسہ بناتے ہیں، اُن کی اس کامیابی میں زیادہ سے زیادہ حکومتی پالیسیوں کی ہی مہربانی شامل ہوتی ہے۔ چاہے وہ سیمنٹ فیکٹری کا لائسنس ہو جو صرف اورصرف مخصوص اور بااثر افراد ہی کو مل سکتا ہے ، یا پھر بڑے بڑے سرکاری ٹھیکےجو صرف مخصوص کمپنیوں ہی کو دیے جاتے ہیں۔یا پھر زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر نہ ہونے کے برابر ٹیکس۔ یہ سب پیچھلی اور حالیہ ہر طرح کی حکومت کی وہ مہربانیاں ہیں جن کا آج یہ ملک بھگت رہا ہے. اس ہی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ افراد لامحدود پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ اور اُس پر ٹیکس بھی بہت کم ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیچھلی دہائی میں میں دبئ کے لینڈ ڈپارٹمنٹ کے2014-16ء کےاعداد و شمارکے مطابق ہندوستانی اور برطانوی سرمایہ کاروں کے بعد دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پاکستانیوں نے کی یعنی تقریباً 6 ہزار سےزائد پاکستانیوں نے اس عرصے میں18ارب درہم (512 ارب روپے) کی پراپرٹی خریدی ہیں۔اس پر پاکستان کے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ( FBR )کی ان 6 ہزار سے زائد پاکستانیوں میں سے کتنوں کے نام ان پیچھلی دہائی میں رجسٹرڈ ہیں چیک کیے جاسکتے ہیں. 10 لاکھ 74 ہزار ٹیکس دہندگان کی قومی فہرست میں شامل ہیں۔( یعنی ،22 کروڑ کی آبادی میں ڈائریکٹ ٹیکس دہندگان کی (2014 اور 2016) کے اعداد وشمار کے مطابق ٹیکس نیٹ میں شامل تعداد10 لاکھ 74 ہزار تھی )۔ اس سے قبل تو مٹھی بھر لوگ جانتے تھے مگر اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے سے ہر چیز کی آگاہی عوام کو گھر بیھٹے معلوم ہونے لگی اب تو سب لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ اور اُمراء ملک و قوم سے اور پھر اپنی زات سے کس قدر مخلص ہے۔ اس ہی طرح اقوامِ متحدہ کے ایک ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی ) کے ایک پاکستان پروگرام کے ڈائریکٹر مارک آندرے فرانشے نےاپنے پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد تقریبا پاکستان میزن 4 برس گزار کے2016ء میں واپس جاتے ہوہے پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کے بارے میں اپنا یہ تجزیہ اخذ پیش کیا کہ’’ پاکستان میں اس وقت ہی تبدیلی آسکتی ہے جب بااثر ادارے، امراء اور سیاستداں اپنے اپنے مفادات کے بجائے اجتماعی قومی مفاد کو ترجیح دیں. معیشت کا ایک اہم ترین پہلو پاکستان میں عدم مساوات ہے جو عام طور پر نہ تو پرنٹ میڈیا نہ ہی الیکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا ان پر کبھی اس کو زیر بحث نہیں لایا جاتا نہ ہی ٹاک شوز میں اس پر بات کی جاتی ہے۔ نیو لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کے نتیجے میں کس طرح سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے، اس بارے کوئی بات نہیں کرتا۔ اگر ہماری معیشت میں وسائل کی تقسیم اور عام لوگوں کو مواقع فراہم کرنا بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے تو ڈالر کا ریٹ جو آجکل اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے وہ نہ اتنی اہمیت اختیار کرتا۔ پھر اہمیت اس بات کی ہوتی کہ روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہوئے، مفت تعلیم اور صحت کی سہلوتوں تک رسائی کے برابر مواقع کس حد تک پیدا ہوئےہیں ایک متحرک اور ترقی کرتی ہوئی معیشت جس کا نصب العین وسائل کی تقسیم ہوتا، اس پر ایکسچینج ریٹ کا اتنا اثر نہ ہوتا۔ پیداوار اور وسائل کی تقسیم بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے. مگر ہمارے ملک میں کبھی ان پر عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں اس پر کچھ کام ہو. پاکستان کی معیشت کو اگر بھنور سے نکال کے ایسے صیح ٹریک ہر لاکر استحکام کی طرف لانا ہے تو ملک میں ٹیکسیشن نیٹ کے نظام کو بہتری کی طرف لانا ہوگا. جب تک اربوں روپے کمانے والے اور چند ہزار کمانے والے کیساتھ ایک جیسا سلوک ہی رکھا جائے گا تب تک کسی بھی بہتری کا امکان صرف خام خیالی ہے۔ پاکستان میں ایسے بھی اُمراء اور صاحب ثروت صدیوں سے جاگیردار ہیں لیکن انہوں نے آج تک پانی کے بلز بھی ادا نہیں کیے ہیں اور ان کا دارومدار لوگوں کی جبری مشقت پر ہی ہمیشہ رہا ہے اور پھر یہی لوگ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں جاکر فریاد کرتے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں تعلیم ، صحت و صفائی اور پانی کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے آپ ان علاقوں میں آگر پیسہ لگائیں ’’ آج 2023 میں بھی پاکستان کی 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے۔اور اس میں کووڈ اور مہنگائی میں اضافہ ہونے سے غربت بتدریج بڑھتی جارہی ہے. ہر شہر و گاؤں میں ایک جانب پاکستانی لوگوں کی بےترتیب آبادیاں ہیں دیکھ کر غربت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے شاپنگ مالز پاکستان میں اب 40 فیصد آبادی کو مسلسل غربت پر اب راضی رکھنا آنے والے سالوں میں مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائیگا“ مگر اس ملک میں بدقسمتی سے ہرحکمران کا اداروں پر انحصار بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پاکستان کا میڈیا بھی اپنے طاقتور مفادات کے لئے ننگے پیر ہر چوکھٹ پر سجدہ ریز ہےاپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگا ہوا ہےاورجو بھی مفادات کا پلڑا بھاری کررہا ہے اس کے لیے ہی استعمال ہو رہا ہے.اس سے نہ صرف صیح جمہوریت بلکہ ملک کے بنیادی اداروں کی کارگردگی بھی آگے چل کر کمزور ہوتی چلی جائی گی’’. اگر پاکستان کو اس بحران سے نکالنا ہے تو وہ سبب پر بھی غور کرنا ہے کہ جس سے انکا تدارک ہوجائے اور پاکستان کی معشیت، ٹیکس نیٹ سیاسی اور خارجہ پالیسیاں ایک صیح سمت کی طرف رواں دواں ہوجائے.
1/ : اگر بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ممالک نے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو پاکستان کے گورننس ماڈل میں کچھ سنگین خامیاں ہیں۔
2/ : حکومت کی مختلف شکلیں – جمہوریت، پارلیمانی جمہوریت، آمریت – کو آزما لیا گیا ہے، لیکن ملک پر ہمیشہ ایک چھوٹی اشرافیہ کی حکمرانی ہے، اور یہ ملک کو آج جن بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے ان کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔
3/: سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کی صف بندی کے نتیجے میں بیرونی وسائل کی دستیابی نے ‘بیرونی مدد’ پر انحصار کی عادت پیدا کی۔ اس عادت نے یکے بعد دیگرے حکومتوں پر زور دیا – جو دیہی اور شہری اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں – اقتصادی اصلاحات سے گریز کریں، مناسب آمدنی کو متحرک کریں یا اپنے بااثر حامیوں کے نیٹ ورک پر ٹیکس لگائیں۔
4/: چین کا رابطہ بھی پاکستان کے لیے پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے، نہ کہ تمام صحیح وجوہات کی بنا پر۔ یہ ایک مقبول نظریہ کو ہوا دے رہا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کو دوسرے تعلقات کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، امریکہ دشمنی کو ہوا دے رہی ہے جو کہ عوام کے ذہنوں میں ’آزاد‘ خارجہ پالیسی کا بیج بن چکا ہے۔
5/: مٹھی بھر ڈالر آ رہے ہیں، قیمتیں اوپر کی طرف ایڈجسٹ ہو رہی ہیں، زر مبادلہ کی شرح جو کہ ‘مارکیٹ سے چلنے والی’ ہے، ہماری اشرافیہ کو جھوٹی امید فراہم کرے گی جب کہ یہ آئی ایم ایف کے سخت اقدامات کے بارے میں بڑبڑا رہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے غیر مساوی اثرات اور اشرافیہ کس طرح نہ صرف اس سے نمٹنے کے قابل ہو گی بلکہ طویل عرصے میں فائدہ بھی اٹھا سکے گی.
6/: پاکستان کو بھارت کے مقابلے اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ’جیو اکنامکس‘ پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان بھارت کے ساتھ کسی بھی ہلکی پھلکی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا. پاکستان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بیرونی دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے جنوبی ایشیا کے پڑوسیوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرے۔ اس کے لیے پاکستانی لیڈروں کو آؤٹ آف دی باکس سوچنے کی ضرورت ہوگی اور اس پر عمل کرنے کی بھی ہمت دیکھانے کی ضرورت ہوئیگی.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 304 Articles with 107429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.