کاپی سے تباہی تک۔۔

یہ تین چارسال پہلے کی بات ہے میں جیب سے پرس نکال کردکان والے باباجی کوبسکٹ اورٹافیوں کے پیسے دے رہاتھاکہ اچانک ہاتھ میں کالاسابیگ اٹھائے ایک نوجوان نمودارہوا۔ اپنے بیگ کودکان کے شوکیس پررکھتے ہوئے نوجوان دکان والے باباسے گویاہوئے۔باباجی میرے پاس سگریٹ کی کاپیاں ہیں آپ کودوں۔باباجی بولے ۔ہم نے ایک دودن پہلے سگریٹ،پاپڑ اوردیگرچیزیں لی ہیں ،ہمارے پاس سگریٹ کاسٹاک توباالکل پوراہے۔نوجوان نے بیگ سے سگریٹ کی ڈبیوں کاایک ڈنڈا نکالا اورباباجی کودکھاتے ہوئے کہا۔باباجی یہ دیکھیں جیسے باالکل ایک نمبر۔باباجی نے سگریٹ کے اس ڈنڈے پرہاتھ شاتھ پھیرکرکہاٹھیک ہے لیکن ہمیں فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔نوجوان ڈنڈے کوبیگ میں ڈالتے ہوئے وہاں سے چل دئیے۔نوجوان کے جانے کے بعدمیں نے باباجی سے پوچھا۔باباجی یہ کاپی کیاہوتی ہے۔؟باباجی چونکہ میرے جاننے والے تھے اوران سے وقتاًفوقتاًدعاسلام ہوتی رہتی تھی۔ہنستے ہوئے کہنے لگے کیوں جوزوی صاحب آپ کو کاپی کانہیں پتہ۔؟میں نے کہاباباجی مجھے اس کاپی کاتوپتہ ہے جس میں بچے سکول کاکام کرتے ہیں اورجس میں آپ جیسے دکاندارحساب کتاب ۔۔اورہاں اس کاپی کابھی پتہ ہے جوفوٹوسٹیٹ والے پانچ چھ روپے کے بدلے مشین کے ذریعے اصل کے پیٹ سے نکال کر دیتے ہیں لیکن اس والی کاپی کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ باباجی بولے۔جوزوی صاحب ۔یہ بھی وہی کاپی ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ کاعذوں کی کاپی ہوتی ہے اوریہ سگریٹ،شیمپو،صابن اوردیگراشیاء کی۔یہ سنتے ہی جیسے مجھے کوئی جھٹکاسالگاہو۔باباجی کیاکھانے پینے کے اشیاء کی بھی کاپی ہوتی ہے۔؟باباجی کہنے لگے ہاں آج کل ہرچیزکی کاپی ہوتی ہے۔جوبھی چیزمارکیٹ میں آئے اگلے دن اس کی کاپی بھی آجاتی ہے۔اس بات کامیں نے بعدمیں اپنے ایک دوست سے ذکرکیا تووہ قہقہے لگاتے ہوئے ہنسے لگاکہ جوزوی صاحب دنیاچاندپرپہنچ گئی اورآپ کوابھی تک کاپی کانہیں پتہ۔آپ باہرنکلیں گے توآپ کواس دنیااوردنیاکے لوگوں کاپتہ چلے گانا۔آپ سگریٹ کی کاپی کی بات کررہے ہیں اس ملک اوردنیامیں تودل میں ڈالے جانے والے سٹنٹ اورزندگی بچانے والی ادویات کی بھی کاپیاں نہ صرف بنتی ہیں بلکہ سرعام ملتی بھی ہیں۔یہ سگریٹ،شیمپو،صابن اورسرف سمیت دیگراشیاء کی کاپیاں یہ تواب لوگوں کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔آپ کسی بھی دکان پرجائیں آپ کواصل کے نام پرہرجگہ سے یہ کاپیاں ملیں گی۔اب تویہ کاپیاں عام سی بھی عام ترہوگئی ہیں ۔غالباً ایسی کوئی چیزبچی نہیں جس کی مارکیٹ میں کاپی نہ ہو۔کاپیاں بھی اتنی وافرمقدارمیں کہ اب اصل اورنقل کاپتہ ہی نہیں چلتا۔ میرے نزدیک یہ صرف کاپی یاکاپیاں نہیں بلکہ وہ عظیم دھوکہ،جھوٹ،بددیانتی ،فریب اورفراڈہے جس کی کوئی معافی نہیں۔یہ کہاں کاانصاف اورکونسی مسلمانی ہے کہ آپ پیسے اصل کے لیں اورخریدارکوکاپی پکڑادیں۔؟یہ کہاں کاقانون ہے کہ آپ بل ایک نمبرکابنائیں اورچیزغیرمعیاری ودونمبردیں۔؟ انہی کاپیوں اوردونمبریوں کی وجہ سے توآج انسانیت نہ صرف رل اورتڑپ رہی ہے بلکہ سسک سسک کرمربھی رہی ہے۔غریب لوگ علاج معالجے پرجمع پونجی کیا۔؟گھر،دکان اورجائیدادتک کوداؤپرلگادیتے ہیں لیکن ان کاپیوں کی وجہ سے ان کوپھربھی افاقہ نہیں ہوتا۔بیماربندہ بسترپرپڑامررہاہوگالیکن ان کے لئے دوائی لانے کے لئے جانے والے اس کے باپ،بھائی اوررشتہ دارسے ایک نمبرکے پیسے لیکردولت کے پجاری اوریجنل دوائی دینے کے بجائے کاپی پکڑااورتھمادیتے ہیں جوکام اصل سے ہوتاہے کیاوہ جعلی اورکاپی سے ہوگا۔؟اسی لئے تولوگ دوائیاں کھاکھاکرٹھیک نہیں ہورہے۔جہاں دلوں میں دونمبراورغیرمعیاری سٹنٹ ڈالتے ہوئے ظالموں کے ہاتھ نہیں کانپ رہے ہوں وہاں پھر لاچار،مجبوراورغریب لوگوں کودونمبردوائیاں تھماتے ہوئے کسی کے ہاتھ کیوں کانپیں گے۔؟جاگیرداروں سے لیکرسرمایہ داروں،صنعتکاروں سے تاجروں ،ٹھیکیداروں سے انجینئرزاورریڑھی بانوں سے چھابڑی فروشوں تک اس ملک میں ہربندہ کاپی کوترجیح دے رہاہے کیونکہ پیسہ ہی کاپی میں ہے۔جاگیرداروں،سرمایہ داروں،تاجروں اورٹھیکیداروں کاکام ہی پیسے سے ہے آگے کوئی صابن،شیمپو،سگریٹ اوردوائی کام کرتی ہے یانہیں ۔یہ نہ کسی جاگیردارکامسئلہ ہے اورنہ ہی اس سے کسی تاجر،کسی سرمایہ داراورکسی ٹھیکیدارکوکوئی مسئلہ وپریشانی ہے۔مسئلہ اورپریشانی اس غریب کوہے جوپیٹ بھرنے اورزندگی کی سانسیں بحال کرنے کے لئے جان تک کوبھی داؤپرلگانے سے دریغ نہیں کرتے۔پیناڈول کی چندگولیاں لینے کے لئے غریب چالیس پچاس روپے ایک ایک پیسہ کرکے کس طرح جمع کرتے ہیں۔؟اصل کے نام پرکاپی اورجعلی اشیاء بیچنے والوں کواس کاکیاپتہ اورکیااحساس۔؟اس ملک میں صرف سگریٹ،صابن اوردوائیاں ہی نہیں بلکہ آج کل ہرچیزکاپی اوردونمبرمل رہی ہے۔دودھ سے لیکرچاول اورچینی تک اصل کے نام پرلوگوں کوزہردیاجارہاہے۔شہرکیا۔؟کاپی اوردونمبری کی یہ خباثت اوربے ایمانی اب گاؤں،دیہات اوردوردرازعلاقوں تک بھی پہنچ گئی ہے۔بے ایمانی اوردونمبری سے پاک وہ گاؤں،وہ دیہات اوروہ علاقے جہاں سب کچھ خالص ملاکرتاتھااب ان گاؤں،دیہات اورعلاقوں میں بھی دودھ،گھی اورشہدسمیت کوئی چیزخالص اورمعیاری نہیں ملتی۔شہروں میں دونمبرچیزوں کی دیکھادیکھی اب گاؤں اوردیہات کے لوگوں نے بھی اصل کی کاپیاں بناکربے ایمانی اوردونمبری والاکام شروع کردیا ہے۔باہرنکل کریوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے یہ پورانظام اورمعاشرہ کاپی پرچل رہاہو۔بولنے اورلکھنے کی حدتک کاپی ایک معمولی اورہلکاسانام ولفظ ہے لیکن حقیقت میں اس لفظ اورنام کے اندرآج بے ایمانی،بددیانتی،جھوٹ،فریب اوردھوکے کے وہ رازچھپے ہیں کہ جسے دیکھ اورسن کرانسان کانوں کوہاتھ لگانے پرمجبورہوتاہے۔چندپیسے زیادہ کمانے کے لئے آج کاپی کے نام پرہم نے جوکام شروع کئے ہیں یہ والے کام تووہ کالے کافربھی نہیں کرتے ہوں گے۔بے ایمانی،بددیانتی،جھوٹ،فریب اوردھوکہ یہ سب چیزیں تومسلمانی کے خلاف ہے۔مسلمانوں کی شان یہ تونہیں کہ وہ چندٹکوں کی خاطر دوسرے انسانوں پھراپنے مسلمان بھائیوں کودھوکہ دیں،ان سے بے ایمانی اورفراڈکریں۔بندہ اگربے ایمان،جھوٹااوردھوکے بازہو،وہ پھرمسلمان کیسے ہوا۔؟اس ملک کی گلی محلوں ،چوکوں اورچوراہوں پرسگریٹ،صابن،شیمپواوردوائیوں کی یہ کاپیاں دیکھ کریوں لگ رہاہے کہ جیسے اس ملک میں رہنے والے ہمارے جیسے یہ مسلمان بھی کوئی کاپی ہوں۔کیاپتہ۔؟شائدکہ ایساہی ہو۔کیونکہ بے ایمانی،بددیانتی،جھوٹ،فریب اوردھوکے والے جوکام ہم نے پکڑے ہیں ایسے کام کاپی والے مسلمان ہی کرسکتے ہیں اصل اورخداسے ڈرنے والے مسلمان نہیں۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 211 Articles with 134231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.