کلام پاک کی بے حرمتی۰۰۰ عالمی برادری اس قسم کے ناقابلِ قبول اقدامات کو روکنے کیلئے اپنا فرض ادا کرے۔ ڈاکٹر نایف

دشمنانِ اسلام کلامِ مقدس کی بے حرمتی کرکے اپنی دنیا بھی برباد کر لے رہے ہیں کیونکہ انکی آخرت تو بربادہو ہی چکی ہوتی ہے۰۰۰ ماضی کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کی جنہوں نے بھی بے حرمتی کی ہیں انہیں کس طرح رب ذوالجلال نے عبرتناک انجام تک پہنچایا۔ 21؍ جنوری کو سویڈن کے دارالحکومت اسٹا ک ہوم میں دائیں بازو کا سیاست داں راسموس پالوڈن نے اسٹاک ہوم میں واقع ترک سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کے دوران کلام پاک کو نذر آتش کیا تھا ۔اس واقعہ نے ساری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کردیا تھا اور عالمی سطح پر مسلمانوں نے سویڈن حکومت کے خلاف اس دشمنان ِاسلام کو سزا دینے کی مانگ کرتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں ، ابھی مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے بھی نہ ہوپائے تھے کہ پھر ایک معلون نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران قرآن کریم کے اوراق بھاڑکر اسلام کے تشخص اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان ظالم تعصب پرست دشمنان ا سلام کو ان کے کئے کی سزا تو مل کر ہی رہے گی ۔ اگر دنیا کی عدلیہ انکے خلاف خاموشی اختیار کرتی ہے اور سزا نہیں دیتی ہے تو اﷲ کے قہار سے یہ ملعون اشخاص بچ نہ پائیں گے۔ عالمی برادری اور سوپر پاور کہے جانے والے ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ فوراً اس جانب توجہ دیتے ہوئے کلام پاک کی بے حرمتی کرنے والے ان دونوں معلونین کو کفیرکردار تک پہنچانے کا انکی حکومتوں سے اپیل کرتے ۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قدم قرار دیا۔وزارتِ خارجہ نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ سعودی عرب انتہا پسندی اور نفرت کے محرکات کو ترک کرنے اور پرامن بقائے باہم، روا داری اور مکالمے کے اصولوں کے فروغ کی پالیسی پر گامزن تھا، ہے اور رہے گا۔ اس حوالے سے ہمارا موقف غیر متزلزل ہے‘۔اسی دوران خلیجی تعاون کونسل ( جی سی سی) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر نایف الحجرف نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں ایک انتہا پسند کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ڈاکٹر نایف الحجرف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’اس قسم کی حرکتوں سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور یہ اشتعال انگیز عمل ہے‘۔انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ’وہ اس قسم کے ناقابل قبول اقدامات کو روکنے کیلئے اپنا فرض ادا کرے‘۔ پاکستان ،عرب لیگ، مصر اور جامعہ الازہر نے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں انتہا پسند سیاست داں کی جانب سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردغان نے کلامِ پاک کی بے حرمتی کے واقعہ کے خلاف کہاک ’’اسلام کیلئے احترام کا مظاہرہ کرنے اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے طریقہ کار کو تبدیل کئے بغیر ،سویڈن کو نیٹو کی بولی پر ترکیہ سے کسی بھی اچھی خبر کی توقع نہیں رکھتی چاہیے۔ انہو ں نے دارالحکومت انقرہ میں کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ جن لوگوں نے ہمارے سفارت خانے کے سامنے اس طرح کی حرکت کی ہے، انہیں اپنی نیٹو کی رکنیت کی درخواستوں پر ہم سے کسی قسم کے احسان کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔اردغان نے اس بات پر زور دیکر کہا کہ کسی بھی فرد کو مسلمانوں یا دیگر مذاہب اور عقائد کی توہین کرنے کی آزادی نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ سویڈن میں گھناؤنا اقدام ہر اس شخص کی توہین ہے جو لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام کرتا ہے ، خاص طور پر مسلمانوں کا۔ سویڈن حکومت سے رجب طیب اردغان یہ بھی کہا کہ اگر وہ دہشت گرد تنظیم کے ارکان اور اسلام کے دشمنوں سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں تو ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے کا دفاع ان کے سپرد کریں۔
عرب نیوز کے مطابق مصر کی قدیم علمی درسگاہ الازہر الشریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قرآن تمام انسانیت کیلئے ایک رہنما کتاب کے طور پر اپنی شان میں قائم رہے گا۔یہ مبارک کتاب بنی نوع انسان کیلئے نیکی، سچائی اور خوبصورتی کی اقدار کی رہنمائی کرتی ہے۔الازہر کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر اور بار بار مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش انتہائی دائیں بازو کی شخصیات کے ساتھ سویڈش حکام کی ملی بھگت ہے۔الازہر نے احتجاجی رپورٹ میں کہا ہے کہ کسی قسم کی وحشیانہ یا مجرمانہ حرکات سے مسلمانوں کے دل میں قرآن پاک کی حرمت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔گمراہی کی جانب دھکیلنے اور جنونیت کو فروغ دینے والوں کی بیمار سوچ اور نفرت انگیز اقدامات مذہبی کشیدگی میں سیاہ ریکارڈ رکھتے ہیں اس سب کے باوجود بھی وہ سب قرآن پاک کی حرمت کم نہیں ہو گی۔الازہر نے اس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے کہا ہے کہ مذہبی عقائد کو مجروح کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دینا مشرق اور مغرب کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان امن، بین المذاہب مکالمے اور روابط کو فروغ دینے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط اور مصر کی حکومت نے بھی اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

سعودی عرب کے مفتی اعلیٰ اور ممتازعلما بورڈ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے اتوار کو ایک بیان میں سویڈن میں انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے اسے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اقدام قرار دیا اور کہا کہ’ اس اقدام سے انتہا پسندی اور فتنہ انگیزی کی آگ بھڑکے گی‘۔انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قسم کی حرکتوں کی کسی بھی نام یا عنوان سے مدد کرنے والوں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن موقف اختیار کرے۔اسی طرح ممتاز علماء بورڈ جنرل سیکریٹریٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ سے مسلمانوں کے جذبات متاثر ہوئے ہیں۔ یہ حرکت تعصب اور نفرت کی علامت ہے۔ اس سے پرامن بقائے باہم اور روا داری کے اس اصول کو کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘۔سعودی علما نے دنیا سے اپیل کی کہ ’وہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے اقدام کی مذمت کریں۔ نفرت بھڑکانے اور انتہا پسندی کو ہوا دینے والے ایسے واقعات کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے‘۔

ہندوستان کے جشن جمہوریہ میں مصری صدر کی شرکت۔ باہمی تعاون کے معاہدات
بی بی سی ڈاکومنٹری اپنی جگہ نریندر مودی کی پالیسی اپنی جگہ۔ 74ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کرکے مسٹر مودی نے عرب ممالک سے اپنے تعلقات کی اہمیت جتائی ہے۔ مصر کے صدر کے علاوہ مصری مسلح فوج کا ایک دستے نے بھی جو 144سپاہیوں پر مشتمل تھا یوم جمہوریہ پریڈ میں شامل تھا اور توجہ کا مرکز تھا۔ السیسی کا مسٹر مودی نے پُرتپاک استقبال کیا اور دہلی کے حیدرآباد ہاؤز میں ان سے باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر مصری صدر نے وزیر اعظم مودی کو دورۂ مصر کی دعوت دی اور دہلی اور قاہرہ کے درمیان مزید فضائی رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔ مسٹر مودی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ انتہا پسند طاقتوں کی جانب سے سائبر اسپیس کا غلط استعمال دونوں ممالک کے لئے خطرہ ہے اور دونوں کو متحدہ طور پر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ دونوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ دہشت گردی انسانیت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سرحد پار سے دہشت گردی کو نمٹنے کیلئے سخت اقدامات کئے جانے چاہئیے۔ ہندوستان نے G20 سربراہ کانفرنس میں مصر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان قدیم تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک نے باہمی طور پر فوجی تعلقات اور سیاسی سلامتی، اقتصادی اور سائنٹیفک علاقوں میں طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ السیسی نے کہا کہ مصر کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہندوستانی سیاح مصر کا دورہ کریں۔ دونوں ممالک نے ثقافت، نوجوانوں کے امور، سائبر سیکیوریٹی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور پبلک براڈ کاسٹنگ اس طرح پانچ معاہدوں پر دستخط کئے۔ السیسی نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے درخواست کی ہے کہ وہ چھوٹے اور متوسط پیمانے کی صنعتوں کے درمیان ڈیجیٹل کنکشن میں اضافہ کے لئے مستقل چیانلس تشکیل دیں جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بات چیت کا اصل موضوع تھا۔ مشترکہ فوجی مشقیں اس کی ایک مثال ہے۔ مصری صدر نے مسٹر مودی سے مصر میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ گرین ہائیڈروجن اور قابل تجدید توانائی Cop27 پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ السیسی کا یہ تیسرا دورۂ ہند ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مصر کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ اور یہ ہندوستان سے ہمیشہ دوستانہ تعلقات کا حامل رہا ہے۔ واضح رہے کہ مصر کو ہمیشہ عالم عرب میں ایک لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 50کی دہائی میں جمال عبدالناصر نے عرب قوم پرستی کی بنیاد ڈالی تھی اور انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ امن کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ عبدالفتاح السیسی اور نریندر مودی 2014ء میں اپنے اپنے ملک کے سربراہ بنے۔ وہ ایسے وقت ہندوستان آئے ہیں جب مصر میں اقتصادی بحران ہے۔ 2021-22 ء میں ہندوستان اور مصر کے درمیان 7.26 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی اور پچاس سے زائد ہندوستانی کمپنیوں نے مصر میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی۔ ہندوستان اور مصر میں اُس وقت تعلقات بہت اچھے تھے جب جواہر لعل نہرو ہندوستان کے وزیر اعظم اور جمال عبدالناصر مصر کے صدر تھے۔ 1956ء میں جب نہر سوئز کا بحران پیدا ہوا تب ہندوستان نے خفیہ طور پر مصر کو اپنی فوج بھی بھیجی اور فوجی سامان بھی۔ ہندوستان اور مصر کے درمیان 2013ء میں السیسی کے دورہ کے بعد سے تبدیلی آئی تھی۔ 2021ء میں کووڈ بحران کے دوران مصر نے ہندوستان کو آکسیجن سیلنڈر کنسنریٹر اور ریمڈسویر دوائیں روانہ کی تھیں اور ہندوستان نے مصر کو 61ہزار 500 ٹن گیہوں بھیجا تھا۔

بلاول بھٹو کو دورۂ ہند کی دعوت
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن SCO کا مئی 2023ء میں ہندوستان میں انعقاد عمل میں آرہا ہے جس میں ہندوستان نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹوزرداری کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ حالانکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی پر نازیبا ریمارکس کئے تھے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ مسٹر جے شنکر کی جانب سے یہ دعوت نامہ مسٹر بلاول بھٹو کو بھیجا گیا ہے۔ اگر اسے قبول کرلیا جاتا ہے تو بھٹو 12سال کے وقفہ کے بعد ہندوستان کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہونگے۔ یوں تو ہند وپاک کے درمیان تقسیم کے بعد سے ہی کشیدگی رہی ہے‘ تاہم 2019ء میں کشمیر کے خود مختار موقف کی برخواستگی کے بعد سے اس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یو اے ای نے 2021ء میں دونوں ممالک کے درمیان مصالحت کی کوشش کی تھی۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ہندوستان سے مدد مانگی تھی۔ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا ہے۔ اس وقت پاکستان غذائی اشیاء کی قلت سے بُری طرح پریشان کن ہے۔دیکھنا ہیکہ اگر بلاول بھٹو زردری شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو حکمراں بی جے پی اراکین انکے خلاف خاموشی اختیار کرتی ہے یا پھر وزیر اعظم کے خلاف کہے جانے والے انکے بیان پر احتجاج کرتی ہے۰۰۰

لبنان فوج اور پولیس کو تنخواہوں کی شکل میں امریکی امداد
امریکہ نے چہارشنبہ کو لبنان کی سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے سات کروڑ 20 لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مذکورہ امداد اقوام متحدہ کے ساتھ مشترکہ پروگرام کے تحت دی جائے گی۔واضح رہے کہ لبنان کی معیشت گذشتہ تین سال مسلسل بحران اور گراوٹ کا شکار ہے جس کے سبب فوجی بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔امریکہ لبنان کی فوج کا کافی عرصے سے سب سے بڑا ڈونر ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ اپنی نوعیت کی پہلی امریکی امداد کی ڈیلیوری کے لیے اشتراک کیا ہے۔یو این ڈی پی اور بیروت میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق پروگرام کے تحت سات کروڑ 20 لاکھ ڈالر لبنان کی سکیورٹی فورسز اور انٹرنیشنل سکیورٹی فورسز کے اہلکارں کی تنخواہوں کے لیے دی جائے گی۔لبنان کی معیشت کا بُرا حال ہونے کی وجہ سے ہر فوجی اور پولیس آفیسر کو امریکی قانون کے مطابق 100ڈالر ماہانہ چھ ماہ تک ادا کئے جائینگے۔ اس وقت لبنان میں کم رینک کے فوجی اہلکار کی تنخواہ 50امریکی ڈالڈر کے برابر ہے جو کہ 2019سے جاری مالی بحران سے قبل 800امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ قطر نے گذشتہ برس بحران کی شکار لبنانی فوج کیلئے چھ کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا تھا۔2019 کے بعد سے اب تک لبنان کی کرنسی کی قدر 95 فیصد تک گر گئی ہے جس کے سبب کئی لبنانی فوجی نوکری چھوڑ چکے ہیں یا پارٹ ٹائم ملازمت کر رہے ہیں۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.