مہنگائی

بنیادی ضروریات زندگی آٹا، چاول، دالیں، سبزیوں، حوردنی تیل، گھی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام کومعاشی طور پر پریشانی کا شکار کر رہا ہے۔ ذخیرہ اندوز بھی مصنوعی بحران اور قلت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت مل مالکان ، صنعتکاروں، سرمایہ داروں کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔انتخابات میں کمیشن ، چندے وصول کرنے کے لئے سیاستدان لوٹ مار کو یکسرنظرانداز کر رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم عالمی بحران کے خطرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں قرض بحران، مسلسل اور تیزی سے بڑھتی مہنگائی،سائبر سیکیورٹی اقدامات کے فقدان اور ڈیجیٹل پاور کے ارتکاز کو پاکستان کو درپیش سب سے بڑے اور سنگین خطرات قرار دے رہا ہے۔ گلوبل رسکس 2023رپورٹ کے مطابق پاکستان ان بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں شامل ہے جنہیں ڈیفالٹ کے شدید خطرے کا سامنا ہے، اس خطرے کا سامنا کرنے والے دیگر ممالک میں ارجنٹائن، مصر، گھانا، کینیا، تیونس اور ترکیہ شامل ہیں۔خبردار کیا جا رہا ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی سماجی و سیاسی عدم استحکام کو ہوا دے سکتی ہے۔ خوراک اور قرضوں کا بحران تیونس، گھانا، پاکستان، مصر اور لبنان میں عدم استحکام میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ پانی کا تنازع بڑے پیمانے پر ہے اور عالمی تعاون کے طریقہ کار کے مفلوج ہونے کے ساتھ اس کی کمی کے دوران کچھ حد تک آبی قوم پرستی کی ضرورت پیدا ہوئی ۔بڑھتے انسانی بحرانوں اور ریاستی عدم استحکام کے تناظر میں پانی کے انفراسٹرکچر کو بطور ہتھیار اور ہدف دونوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، یہ صورتحال بھارت، پاکستان اور افغانستان میں ماضی میں پیش آنے والے آبی تنازعات اور دہشت گردی کی عکاسی کرتی ہے۔بھارت نے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی روک دیا ہے یا ان کا رخ موڑا جا رہا ہے۔ ملک میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر زرعی زمین کو تباہ کر دیا جس سے ملک میں اجناس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ ملک پہلے ہی ریکارڈ 27 فیصد مہنگائی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے موجودہ بحران کو درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک کے لاکھوں لوگوں کے لئے بھوک اور پریشانی کے تباہ کن منظر نامے میں بدل سکتی ہے یا توانائی کے بحران کا رخ انسانی بحران کی جانب موڑ سکتی ہے۔ ضروریات زندگی کی لاگت کے بحران کو آئندہ 2 برسوں میں سب سے سنگین عالمی خطرہ قرار دیا گیا۔ورلڈ اکنامک فورم نے بھی سالانہ اجلاس سے قبل جاری کی گئی رپورٹ میں خبر دار کیا کہ اگر دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے اقدامات نہیں کرتی تو آئندہ 10 برسوں میں یہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا۔جب ملکی قیادت بھی بحرانوں کے سہارے چلنے میں یقین رکھے اور جغرافیائی سیاسی دشمنیاں غیر معمولی سطح پر سماجی کشیدگی پیدا کرنے کا باعث بنیں تو صحت، تعلیم اور معاشی ترقی میں سرمایہ کاری ختم ہو جاتی ہے جس سے سماجی ہم آہنگی مزید کم ہو جاتی ہے۔عالمی معاشی مبصرین کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی دشمنیوں کے باعث جیو اکنامک ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ شروع ہونے کا خطرہ ہے بلکہ خاص طور پر نئی ٹیکنالوجیز اور عسکریت پسندی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

اگر موجودہ صورتحال میں تبدیلی نہ ہوئی تو کمزور ممالک مستقل بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس لئے پیداوار میں اضافے کی جانب توجہ دینی ضروری ہو جاتی ہے۔ عالمی بینک نے ملک کی نمو کے تخمینے کو گزشتہ سال جون میں 4 فیصد سے بڑھا کر رواں مالی سال کے لیے 2 فیصد کر دیا ہے، جس کی وجوہات میں غیر معمولی معاشی صورتحال، زرمبادلہ کے کم ذخائر اور بڑے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارا ہے۔ تباہ کن سیلاب نے ملکی معیشت کو مزید خراب کیا۔زرعی پیداوار کو خاصا نقصان پہنچا، جو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 23 فیصد ہے اور 37 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے جی ڈی پی کے تقریباً 4.8 فیصد کے برابر نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔پاکستان کو درپیش مشکل معاشی حالات سیلاب کے اثرات، پالیسی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کا نتیجہ ہیں۔2022 کے آخر میں غیر ملکی ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی چار سال کی کم ترین سطح پر آ گئے۔پاکستانی روپیہ، جس کی قدر جنوری 2022 میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 176 روپے تھی، سال کے اختتام پر 226 روپے پرآ گیا ۔یہ 28 فیصد کمی ہے۔پاکستان نے جنیوا میں ایک بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس کی میزبانی کی جہاں عالمی برادری نے سیلاب سے تباہ ہونے والے ملک کی تعمیر نو میں مدد کے لیے 10 بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے پاکستان کو دیئے گئے 2 ارب ڈالر کے قرض کی مدت میں توسیع کے ساتھ مزید ایک ارب ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا ۔دونوں ممالک نے توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ۔پاکستان اور سعودی عرب نے تیل کی مصنوعات پر مالی اعانت کے لئے ایک ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔

ایک خوشخبری یہ ہے کہ بندرگاہوں پر پھنسے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ 6 ہزار ٹن کینولا اور 7 ہزار ٹن سویابین کے بیجوں کے کنٹینرز کو کلیئر قرار دینے کے بعد مرغی کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ پیاز کے 100 سے زائد کنٹینرز بندرگاہوں پر کھڑے ہونے کے باعث اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ۔ پیاز کے کنٹینرز بندرگاہوں پر ڈیوٹی میں توسیع اور ٹیکس میں چھوٹ کے منتظر ہیں۔ زندہ برائلر چکن کی قیمت 4کم ہونے کی بدولت مارکیٹوں میں اس کی فی کلو قیمت بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔یکم جنوری 2023 سے حکومت نے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس، 3 فیصد اضافی سیلز ٹیکس اور ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا ہے۔حکومت بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں کمی کی جانب توجہ نہیں دے رہی ہے۔سرمایہ دار طبقے پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ایسے ٹیکس نافذ کئے جا رہے ہیں جن سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دار بھی ٹیکس اپنے منافع سمیت عوام پر ڈال رہے ہیں۔ یہ لوگ مہنگائی براہ راست عوام کو منتقل کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں غریبوں پر ڈاکے ڈالنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ملک میں کم آمدنی والے طبقے کو ریلیف دینا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی پالیسیختم کرنے کی جانب خاص توجہ دی گئی تو کسی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487151 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More