فضول اور ناجائز رسم و رواج ہماری تباہی کا باعث

بدقسمتی سے ہم دن بدن معاشرتی مسائل میں دھنستے جا رہے ہیں اور ان سے باہر نکلنے کا کبھی سوچتے بھی نہیں ہیں ہمارے اندر اخلاقی برائیاں اتنا زیادہ گھر کر چکی ہیں کہ ہم ان کو کم کرنے کے بجائے روز بروز ان میں اضافے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں صرف ایک فوتگی ہی کو لے لیجیے فوتگی ہمارے ناک و نموش کی وجہ سے اتنی زیادہ مشکل بن گئی ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو گھر والے فوتگی کے دکھ کو بھول جاتے ہیں ان کو ایک نئے دکھ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے کہ تعزیت کیلیئے آئے ہوئے مہمانوں کو کیسے سنبھالنا ہے ان کے کھانے پینے کا انتظام کیسے کرنا ہے لوگ ان کے گھر پر قنضہ جما لیتے ہیں اور گھر والے کوئی ایسا شخص ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں کہ کوئی ان کی کسی طرح مدد کرے اور وہ مہمانوں کیلیئے کھانے کا بندوبست کریں ان کو پورا دن کھانا وغیرہ تیار کروانے میں گزر جاتا ہے ادھر میت کو غسل دینا ہوتا ہے جنازے کا انتظام کرنا ہوتا ہے جب وہ یہ سارے انتطامات کر کے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو صرف تھوڑی دیر کیلیئے اپنے میت کے پاس جانا نصیب ہوتا ہے جنازہ اٹھایا جاتاہے مر دحضرات جنازے کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور گھر کی عورتیں مہمان عورتوں کو کھانا کھلانے میں مصروف ہو جاتی ہیں ایک تو گھر کا بندہ مر گیا ہے دوسرا نا جائز اخراجات ہو گے ایک نہیں بلکہ دو پریشانیاں بن جاتی ہیں ہم بلکل یہ خیال نہیں کرتے ہیں کہ یار ہم روز اپنے گھر سے کھاتے ہیں آج بھی گھر سے کھا لیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوتا ہے ہم خوب مزے سے کھانا کھاتے ہیں لیکن ان کی توتعریف پھر بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کھانے میں سے بھی نقائص نکلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ بہت زیادتی والی بات ہے حالانکہ غم کے اس موقع پر قریبی رشتہ داروں اور تعلق داروں کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ فوتگی والے گھر میں اپنی طرف سے کھاناوغیرہ بھیجیں جب جنازہ پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں تو لوگ میت کے گھر والوں کو ایک مرتبہ پھر گھیر لیتے ہیں ان کو اپنے میت کا منہ تک دیکھنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے حتی کہ ان کو چارپائی تک اٹھانے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے سب اپنی حاضری کے چکر میں اس کے گلے ضرور لگتے ہیں حتی کے گاؤں کے لوگ میت والی چارپائی اٹھا کر قبرستان پر پہنچ جاتے ہیں اور میت کے قریبی افراد وہاں پر ہی مبور ہو جاتے ہیں خاص طور پر اپنے گاؤں والے قریبی لوگ زیادہ تنگ کرتے ہیں یہ کوئی نہیں سوچتا کہ باہر سے آئے مہمانوں کو پہلے موقع دیا جائے ہم تو یہیں پر ہی ہیں بعد میں حاضری لگ جائے گی لیکن ہم کبھی اس بری عادت سے باز نہیں آ سکتے ہیں اس کے بعد اگلا مرحلہ دفنانے کے عمل کا شروع ہو جاتا ہے حق تو یہ بنتا ہے کہ میت کے قریب ترین افراد کو دفنانے کا موقع دیا جائے جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے لیکن وہاں پر بھی حاضری کے چکر میں گھر والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کوئی ان کو نزدیک تک بھٹکنے نہیں دیتا ہے وہاں پر دوسرے ہاتھ دکھا جاتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے جنازے و دفنانے سے فارغ ہو کر سب آستہ آستہ سائیڈ پر ہو جاتے ہیں اور میت کے گھر والوں سے اتنا بھی نہیں پوچھتے کہ یار آپ کو کوئی روپے پیسے کی تو ضرورت نہیں ہے اتنا سارے انتظامات کہاں سے کیئے ہیں سب غائب ہو جاتے ہیں کہ یہ کچھ مانگ نہ بیٹھے اس کے بعد اگلا مرحلہ تعزیت کا شروع ہو جاتا ہے ہم بغیر کوئی وقت دیکھے جب اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں تو تعزیت کیلیئے چلے جاتے ہیں اور گھنٹوں تک گھر والوں کے سر پر بیٹھ جاتے ہیں نہ کوئی وقت دیکھا نہ گھر والوں کی کسی تکلیف کو محسوس کیا بس اپنی گپ شپ جاری رہتی ہے میت کے گھر والوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کو پانی پینے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے وہ بیچارے ایک مہینے کیلیئے مصیبت میں پڑ جاتے ہیں ہم شادی ولیموں پر ہزاروں لاکھوں اڑا دیتے ہیں لیکن فوتگی والے گھر کے افراد کی تھوڑی مدد کرنا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں تعزیت کیلیئے زیادہ سے زیادہ 3دن ہونے چاہئیں لیکن ہم اس گھر کو ایک ماہ کا قیدی بنا لیتے ہیں یہ بہت بری رسمیں ہیں جن کی وجہ سے ہم بہت پیچھے چلے جاتے ہیں علماے کرام کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے وہ لوگوں کو شعور دیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں یہ سب کچھ بلکل غلط ہیں سماجی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے اپنی کاوشیں تیز کرنی چائیں وہ لوگوں کو آگاہی فراہم کریں لیکن کوئی بھی ان ناجائز رسموں کی طرف دھیان نہیں دے رہا ہے جس وجہ سے ایک فوتگی کسی بڑے حادثہ سے کم نہیں ہے مقامی برادریاں بھی مل بیٹھ کر ان رسموں کو ختم کر سکتی ہیں شادی پر تو ہم بھانجیاں دیتے ہیں لیکن فوتگی پر بھی ایسا ضرور ہونا چاہیئے اس موقع پر تو زیادہ مجبوریاں درپیش ہوتی ہیں کیوں کہ شادی تو باقاعدہ ایک پلان کے تحت کی جاتی ہے جبکہ فوتگی اچانک ہوتی ہے اور اچانک جو مصیبت سر پر اان پڑے تو لواحقین کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ہمیں بغیر وقت ضائع کیئے ان فضول رسموں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 145200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.