ہلدوانی کی درد انگیز کہانی

ہلدوانی کی غفور بستی کا معاملہ 3؍جنوری 2023کو پھر ایک بار سپریم کورٹ پہنچ گیا اور اس نے دو دن بعد یعنی (5 جنوری) کو سماعت کی تاریخ دے دی ۔ یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ پچھلے دنوں ہائی کورٹ نےایک عجیب و غرین فیصلہ سنادیا ۔ اس میں اسے ریلوے کی زمین قرار دے کر ‘غیر مجاز قابضین’ کووہاں سے بے دخل کرنے کا حکم دے دیاگیا ۔ اس فیصلے سے تقریباً 4365 خاندانوں کے گھروں پر بلڈوزر کی تلوار لٹکنے لگی ۔ اس درد انگیز خبر کی تہہ میں جاننے کے لیے جامعہ کے نوجوان صحافی علم اللہ نے متاثرہ بستی کا دورہ کیا تو چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔ ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جن کے پاس 1920 سے ضروری دستاویزوں کی فائل موجود ہے۔وہ لوگ 1940 سے ٹیکس کی ادائیگی کر رہے ہیں ۔ یہ رسیدیں سوال کرتی ہیں کہ نام نہاد غیر قانونی قابضین سے ٹیکس وصول کرنا کیسے قانونی ہوگیا اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والی سرکار کو سزا کون دے گا؟ کیا ٹیکس کی رقم لوٹائی جائے گی؟ حکومت ہند نے عوامی مقامات سے غیر قانونی قابضین کو ہٹانے کی خاطر 1971 میں ایک قانون بنایا تھا مگر چونکہ یہ لوگ وہاں پہلے سے آباد ہیں اس لیے ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ان میں سے کئی لوگوں نے سرکاری نیلامی میں وہ زمین خریدی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ریلوے کی زمین ہے تو اس کو ہلدوانی میونسپل کارپوریشن نے فروخت کرنے کا جرم کیوں کیا؟

اس رہائشی علاقہ میں اگر خدا نخواستہ بلڈوزر چل جائے تو مکانات کے علاوہ دو انٹر کالج ، دس مساجد، دو مندر ، پانچ مدرسے، دو بینک، چار سرکاری اسکول اور دس سے بارہ پرائیویٹ اسکول بھی زد میں آجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ اسے بچانے کی خاطر لڑنے اور جان کی بازی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔یہ تنازع خاصہ قدیم ہے۔ 2007 میں پہلی بار ریلوے حکام نے اس زمین پر اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔ اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ریلوے والے خاموش ہوگئے لیکن ان کے ذریعہ نوٹس جاری کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے علاوہ ان کی حرص و ہوس میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ ایک مقامی وکیل ایم یوسف نے علم اللہ کو بتایا کہ 2006 میں ریلوے نے چھ ایکڑ زمین کے بارے میں مقدمہ کیا تھا لیکن دس سال بعد 2016 میں یہ دعویٰ بڑھ کر 29 ایکڑ ہوگیا اور اب تو 78 ایکڑ تک پہنچ گیا ہے۔ ان کے مطابق اس پورے معاملہ میں ابھی تک یہی واضح نہیں ہے کہ کل زمین میں سے ریلوے کی کتنی ہے اور نزولی یعنی میونسپل کارپوریشن کا کتنے پر حق ہے؟ اس کے باوجود ہائی کورٹ دوسری بار ریلوے کےحق میں عوام مخالف فیصلہ سنادیا ہے جبکہ زمین کے 900 معاملات کورٹ میں التوا کا شکار ہیں ۔ وکیل ایم یوسف نے اس معاملے میں کورٹ کا رویہ کو افسوس ناک بتایا۔

اس سے قبل 9نومبر 2016کوہائی کورٹ نے اسی طرح کا فیصلہ سنایا تھا ۔ صوبائی حکومت نے ہلدوانی کی غفور بستی سے 10/فروری تک مکمل تجاوزات کو ہٹانے کے احکامات پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی مگر ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا تھا ۔ عدالتِ عالیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر 10/فروری تک تجاوزات نہیں ہٹائے گئے تو یہ ریاستی حکومت کی ناکامی سمجھی جائے گی۔ایسی صورت حال میں ریلوے مرکزی فورسز کی مدد لے سکتی ہے۔اس کے بعد یہ قضیہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ گیا تھا۔ 18/جنوری2017کو اس معاملے کی سماعت ہوئی تو سپریم کورٹ نےغفور بستی میں رہائش پذیر 50ہزار لوگوں کو راحت دینے کا کام کیا تھا ۔عدالتِ عظمیٰ نے وہاں کے مکانوں کی انہدامی کاروائی پر روک لگا کر نینی تال ہائی کورٹ کے فیصلے پر قدغن لگا دی تھی ۔ عدالت عظمی کی دلیل یہ تھی کہ ہائی کورٹ نے رہائش پذیر لوگوں کا موقف سنے بغیر ہی انہدامی کاروائی کرنے اور ریلوے کو زمین کا قبضہ میں لینے کی ہدایت دےدی نیزریلوے حکام نے بغیر کسی کا نام لکھے ہی زمین کو خالی کرنے کا نوٹس جاری کردیا اور اسے متعلقہ افراد تک پہنچانے کی زحمت بھی نہیں کی ۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا تھا کہ سبھی درخواست گزار 13/فروری تک اپنی عرضی ہائی کورٹ میں داخل کریں۔ اس کے بعد ہائی کورٹ ان لوگوں کے موقف کی سماعت کرکے تین مہینے میں اپنا فیصلہ سنائے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس راجیو شرما اور جسٹس آلوک سنگھ نے ہلدوانی کے رہائشی روی شنکر جوشی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو فیصلے کے تناظر میں کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنے سے منع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بستی کے متاثرہ رائے دہندگان کو پولنگ کے لیے اور سیکنڈری ایجوکیشن کونسل سے بورڈ کے بچوں کے لیے خصوصی انتظام کرنے کی ہدایت دی تھی ۔عوام دشمنی میں ریلوے کے علاوہ دیگر سماجی عناصر بشمول صحافی بھی پیش پیش ہیں ۔2018 میں ایک صحافی نےہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی ایک عرضی میں ہلدوانی میونسپل کارپوریشن کو شہر کے سارے غیر قانونی تجاوازت کو منہدم کرنے کا حکم دینے کی درخواست کردی۔

اس بابت متوقع مصیبت سے بچنے کی خاطر ریاستی سرکار نے پیش بندی کے طور پر اتراکھنڈ شہری اداروں اور حکام کے لیے ایک خصوصی ضابطہ کو قانونی شکل دی۔ اس کے تحت کچی بستیوں کی منصوبہ بند اور مستقل ترقی پر کام کرنا پیش نظر تھا اور دو سال پرانے قانون میں ترمیم کرکے آئندہ تین سالوں تک توڑ پھوڑ کی کارروائی پر روک لگائی گئی تھی۔ اس طرح غریب لوگوں کی عارضی راحت کا سامان ہوگیا تھا۔ تین سال بعد ریلوے حکام پھر سے جاگ گئے اور انہوں نے 27 جولائی 2021 کو بنبھول پورہ کے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو انخلاء کا نوٹس دے کر پندرہ دن میں نکل جانے کا فرمان جاری کر دیا۔ اس سے قبل 500 لوگوں کو اپریل اور 1,581 لوگوں کو جنوری میں ایسے نوٹس دئیے گئے تھے۔ مقامی لوگوں کا اس پر اعتراض یہ تھا کہ انہیں بلا وجہ ہراساں کیا جارہا ہے اور ایسا کرنا عدالتی احکامات کے خلاف ہے لیکن ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے نے وہ رکاوٹ بھی دور کردی ۔ اتنے طویل عرصے تک اس تنازع کے جاری رہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پر عارضی راحت تو مل جاتی ہے لیکن مستقل تصفیہ نہیں ہوتا ۔

اس علاقہ میں رہنے والے باشندوں کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ متنازع اراضی کی حد بندی کی جائے یعنی اس میں ریلوے کی کتنی اور ہلدوانی میونسپل کارپوریشن کا کتنا حصہ ہے یہ طے کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ریلوے اور میونسپل کارپوریشن دونوں کا مشترکہ سروے عمل میں آئے تاکہ ہائی کورٹ کا یہ حکم ان لوگوں پر لاگو ہی نہ ہو جو ریلوے کی زمین پر آباد نہیں ہیں۔ مقامی لوگوں کے خیال میں 75فیصد اراضی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت ہے اور ریلوے کے دعویٰ میں بتدریج اضافہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کواپنے گھروں اور اداروں مثلاً اسپتال یا اسکول وغیرہ کا حق ملکیت دیا جائے۔ ریلوے بھی انسانی بنیادوں پر برسوں سے وہاں رہنے والوں کا انخلا نہ کرائے اور اگر ناگزیر ہو تو نوٹس جاری کرنے سے پہلے منتقل ہونے والوں کی باز آبادکاری کا معقول انتظام کرے ۔ ان مطالبات میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے مسترد کیا جائے بشرطیکہ حکام کے ارادے نیک ہوں اور اس کے پسِ پشت کو سیاسی مقصد کارفرما نہ ہو۔

ریلوے کا محکمہ اس بستی کو اپنے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ مانتا ہے۔ اس کے خیال میں تجاوزات ہٹانے سے ہلدوانی اسٹیشن پر مسافروں کو سہولت فراہم کرنے میں آسانی ہوگی لیکن کیا اس کے لیے پچاس ہزار لوگوں کے گھروں کو اجاڑ دیا جائے گا؟ اور ان کے لیے کوئی معقول متبادل انتظام نہیں کیا جائے گا؟ یہ کون سا انصاف ہے؟ وزیر اعظم اپنے ڈریم پروجکٹ بولیٹ ٹرین کے لیے بھی اس طرح بستیاں نہیں اجاڑتے تو ریلوے حکام کو آخر ہلدوانی کے ریلوے اسٹیشن سے اس قدر محبت کیوں ہے؟ وزیر اعظم نے تین چار سال قبل اپنی ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ 15؍اگست 2022 تک ملک کے سارے لوگوں کو مکانات فراہم کیے جائیں گے۔ اس میں دیواریں اور چھت سب کچھ پکےّ ہوں گے۔ ان گھروں میں پانی ، بجلی اور گیس کا کنکشن ہوگا۔ وہ گھر ایل ای ڈی کے قمقموں سے جگمگا رہے ہوں گے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں اس طرح کے خواب دیکھتے دیکھتے لوگ اوب چکے ہیں ۔ کسی کو ان کی باتوں پر یقین نہیں ہوتا اس لیے مایوسی بھی نہیں ہوتی۔ عوام تو اب یہ کہہ رہے ہیں کہ مودی جی نیا خوابوں کا گھر نہیں بناتے تو نہ بنائیں لیکن پرانی پھوس کی جھونپڑی پر تو کم ازکم بلڈوزر نہ چلائیں کیونکہ بقول بشیر بدر؎
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1235248 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.