اوما بھارتی کی صاف گوئی : گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

مدھیہ پردیش کے بدنامِ زمانہ سخت گیر وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اپنے ایک ٹویٹ میں ایم پی کے اندر کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ کے اختلاف کا ذکر کرکے ’نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان ‘ کا تمسخر اڑایا۔ سیاسی رہنماوں کے درمیان چپقلش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسی کشیدگی تو خود نروتم مشرا اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کے درمیان بھی موجود ہے ۔ ویسے کمل ناتھ اور دگ وجئے سنگھ کے بیچ اختلافات منظر عام پر نہیں آئے مگر اوما بھارتی نے سرِ عام بی جے پی کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ۔ نروتم مشرا چونکہ نہیں جانتے تھے کہ چند دن بعد بی جے پی کی سابق وزیر اعلیٰ اوما بھارتی کیا کہنے والی ہیں اس لیے انہوں نے کانگریسی اختلافات پر طنز کیا۔ اوما بھارتی نے اپنے لودھ سماج کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وہ باتیں کہہ دیں جس کا تصور بھی نروتم مشرا نے نہیں کیا ہوگا۔ وہ ریاست کے وزیر داخلہ ہیں ۔ ان کے اندر اگر ہمت ہے تو اوما بھارتی کے خلاف یو اے پی اے لگائیں ۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم پارٹی سے نکالنے کی کارروائی کرکے دکھائیں ۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو تردید ہی کردیں لیکن بے شرم رنگ پر ہنگامہ کھڑا کرنے والے زعفرانی وزیر داخلہ سے یہ توقع کرنا بھی فضول ہے ۔
اوما بھارتی نےاپنے خطاب میں کہا کہ وہ پارٹی کے اسٹیج پر آکر لوگوں سے ووٹ مانگیں گی کہ سب بی جے پی کو ووٹ دیں کیونکہ وہ تو پارٹی کی وفادار سپاہی ہیں اس لیے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے کہیں گی اس کے بعد انہوں نے یہ دھماکہ کیا کہ میں آپ سے نہیں کہتی کہ آپ پارٹی کے اطاعت گزار سپاہی رہو۔ آپ کو اپنا مفاد دیکھنا ہے ۔ہم پیار کے بندھن میں بندھے ہیں لیکن سیاست کے بندھن سے آپ آزاد ہیں۔ میرے ووڑ مانگنے کے باوجود اسی کو ووٹ دیں جس نے آپ کا احترام کیا اور مناسب مقام دیا ہو ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو لازم ووٹ نہ دیں بلکہ اپنی عقل کا استعمال کرکے ضمیر کی آواز پر جس کو چاہیں اپنی رائے دیں نیز چونکہ بی جے پی نے اوما بھارتی کو مناسب مقام نہیں دیا اس لیے اسے سبق سکھائیں ۔

اوما بھارتی نے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ مجھے فون کرکے تشہیر سے منع نہ کریں کیونکہ مجھے سب جگہ جانا پڑتا ہے لیکن تقریر سننے کے بعد آپ نے طے کرنا ہے کہ ووٹ دینا ہے یا نہیں؟ میں آپ کو پہلے بھی آزاد کرچکی ہوں اس لیے میری تصویر دیکھ کر یا تقریر سن کر ووٹ نہیں دیں ۔ میں آپ کو رہن نہیں رکھ سکتی میرے جلسہ کے بعد آپ کو پٹہّ پر لکھ دیا گیا ہے یہ میں نہیں کہہ سکتی ۔ میں نے آپ کی کسی کو رجسٹری نہیں کی ہے۔ آپ کو کامیاب ہونے کی حکمت عملی اختیار کرنی ہے تا کہ مقام و احترام کا تحفظ ہو۔ اوما کے مطابق مدھیہ پردیش 50 میں سے تقریباً 27 ایسی نشستیں ہیں جن پر لودھ سماج جسے چاہیں کامیاب کرسکتے ہیں۔ اتر پردیش میں ایسی 70 سیٹیں اور راجستان ، ایم پی و یوپی کی30-40 لوک سبھا سیٹ پر لودھ سماج کا دبدبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ویسے تو ان کی تصویر نہیں دکھائی جاتی مگر انتخاب کے وقت جب کلیان سنگھ کے ساتھ اوما بھارتی کا فوٹو نظر آتا ہے آپ کا دل آجاتا ہے کہ ہمارا رہنما جہاں ہو وہیں ہمیں بھی ہونا چاہیے۔ جی نہیں آپ کو اپنے حقوق اور شان کے لیے لڑنا ہے۔

بی جے پی کی داخلی سیاست کا پول کھولتے ہوئے اوما بھارتی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے پارٹی کو چھوڑا نہیں تھا بلکہ انہیں طے شدہ منصوبے کے تحت نکالا گیا تھاکہ پہلے اس سے سرکار بنوالو پھر نکال باہر کرو۔ اوما بھارتی نے جس وقت کانگریس کو ہرایا اس دور کی حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے زیادہ تر رہنما اس وقت وزیر اعلیٰ کی قدم بوسی کرتے تھے ۔ ان میں سے کسی میں سرکار بنانے کی اوقات نہیں تھی۔اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے وہ بولیں کہ ایک معمولی کسان خاندان سے آکر انہوں نے راج محل کے لوگوں کو دھول چٹا دی لیکن پھر ان کی اپنی پارٹی نے کیا سلوک کیا۔ اوما کے مطابق انہیں رام کا نام لینے سے منع کیا گیا اور شمالی ہند کا سب سے بڑا رہنما بنانے کا وعدہ کیا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا۔ یہ سب بی جے پی کے اندر ہوا۔ اپنی پارٹی کی ابن الوقتی کا پردہ فاش کرتے ہوئے وہ بولیں کہ انتخاب کے وقت لودھیوں کو ایسے تلاش کیا جاتا ہے جیسے چیونٹیاں شکر ڈھونڈتی ہیں اور یہ سوچا جاتا ہے کہ اوما بھارتی کی شکل دکھا دو تو ووٹ مل جائیں ۔

یہ تو خیر سیاسی باتیں تھیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ رام اور ہنومان پر بی جے پی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ان کا بھگت کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ رام اور ہنومان بی جے پی کے کارکن نہیں ہیں۔ مغلیہ اور انگریزوں کے زمانے میں بھی جب بی جے پی نہیں تھی رام اور ہنومان تھے۔ بی جے پی والوں نے یہ بھرم پال لیا ہے انہوں نے آنکھ کھولی تو سورج چاند نکل آئے۔ بی جے پی کی خوش فہمیوں کی اس سے بہتر مثال کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے اس رحجان کو پارٹی کے لیے تباہ کن بتایا۔ یہ ہندوتوا کا وہ کریہہ چہرا ہے جسے ایک سنیاسی سیاست داں نے بے نقاب کردیا۔ اس بیان کے بعد ایک سیاسی طوفان برپا ہوگیا اور اس کو سنبھالنے کی خاطر بی جے پی کے میڈیا ترجمان لوکیندر پراشر نے کہا کہ اوما بھارتی پارٹی کی بنیاد ی ستون ہیں۔ ان کے جذبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اوما جی ہماری طاقت ہیں ۔ سماکی سطح پر لودھی سماج کی وہ قدآور رہنما ہیں۔ وہ بی جے پی کا نقصان ک سوچ بھی نہیں سکتیں ۔ یہ بات اگر درست ہے تو کہنا پڑے گا کہ بغیر سوچے سمجھے اوما بھارتی نے بی جے پی کا بہت بڑا نقصان کردیا ۔

پراشرنے لیپا پوتی تو خوب کی مگروہ کسی کام نہیں آئی اوما بھارتی جب اعتراضات کی بھر مار ہوگئی اور طرح طرح کے سوالات ہونے لگے تو انہوں نے ٹویٹ کے ذریعہ اپنا موقف واضح کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ 25؍دسمبر کو لودھی سماج کے پروگرام میں انہوں نے جو بیان دیا اس کے کچھ حصے سوشیل میڈیا پر گردش کررہے ہیں اور اخبارات میں بھی چھپ رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ وہ اس کے تردید کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کیونکہ انہوں نے وہی بات کہی ہے۔ اس ٹویٹ کا مقصد تقریر سے پہلے کچھ جملے بتانا ہے۔ ۔ اس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ نے لکھا ۔ ’’میں نے کہا کہ 2018 کے مدھیہ پردیش ریاستی انتخاب کے وقت کچھ حلقوں سے ان کی جلسہ سے قبل کچھ فون دفتر میں آئے۔اس میں کہا گیا کہ آپ اپنا پروگرام رد کردیں کیونکہ ہم یہاں بی جے پی امیدوار سے ناراض ہیں۔ اس کے جواب میں وہ بات کہی گئی ہے۔ یہ بات عوامی سطح پر پہلی بار نہیں کہی گئی۔ پچھلا ریاستی انتخاب ہم ہار گئے اور پھر کانگریس کے باغیوں کو توڑ ان کے سہارے سرکار بنائی ۔ اس وقت بھی میں نے کھلے عام کہا تھا کہ اس وزارت میں ذات پات اور علاقہ کا توازن بگڑا ہوا ہے۔ کاش کے نروتم مشرا کو خود ان کے اپنے صوبے اور پارٹی میں ایسا شدید اختلاف نظر آجاتا تو دوسروں پر تنقید سے گریز کرتے۔

بی جے پی اآپسی سرپھٹول کا بازار راجستھان میں بھی گرم ہے۔ وہاں پر سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور ہائی کمان کی لڑائی سے ہرکوئی واقف ہے۔سندھیا کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر بی جے پی کی مرکزی قیادت نے سینئررہنما اوم ماتھر کو میدان میں اتارا لیکن انہوں نےتو اپنی بڑائی بگھارتے ہوئے مودی جی کو ہی جھٹک دیا۔ اوم ماتھر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’میں نے کھونٹا گاڑ دیا تو پی ایم مودی بھی نہیں ہلا سکتے۔ میرے آدمی کا ٹکٹ وزیر اعظم بھی نہیں کاٹ سکتے۔‘‘ اس بیان کی ویڈیو کے تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے سبب بی جے پی کے اندر تنازعہ کھڑا ہو گیااور بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ۔ پی ایم مودی کی تضحیک نے بی جے پی کارکنان میں غم غصہ پیدا کر دیا کیونکہ اوم ماتھر نے اجمیر کے قریب ’جن آکروش ریلی‘ میں وسندھرا راجے اور ان کو حواریوں کو ڈرانے کے لیے کہہ دیا کہ ’’چاہے لسٹ جئے پور سے جائے یا دہلی سے، میرے کھونٹا گاڑنے کے بعد اسے کوئی نہیں ہلا سکتا۔ کوئی غلط فہمی مت پالنا۔ اب تو میں مرکزی انتخابی کمیٹی کا رکن ہوں ‘‘ ۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ عوام کے غم و غصے کو ووٹ میں بدل کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر نکالی جانے والی جن آکروش ریلی میں بی جے پی کے نگراں اوم ماتھر خود اپنے ہی لوگوں کو ناراض کربیٹھے۔ اس بیان کے بعد ان کی الٹی گنتی کا شروع ہونا لازم ہے کیونکہ بی جے پی کے اندر ویسے بھی اختلاف رائے گنجائش نہیں ہے اور وزیر اعظم پر نگاہ غلط تو ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس لیے اب وہ کتنے دن اپنے عہدے پر قائم ر ہیں گے یہ تو کوئی نہیں جانتا ۔ مودی راج کے جبر و استبداد میں کوئی فرد بی جے پی کے اندر رہتے ہوئے اس سے زیادہ نہیں بول سکتا لیکن اوما بھارتی اور اوم ماتھر کے تیور فی الحال بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ جیسے جیسے انتخاب قریب آرہے ان میں شدت پیدا ہورہی ہے اور وہ کہاں تک پہنچیں گے کو ئی نہیں جانتا ؟ ویسے اوما بھارتی اور اوم ماتھر نے نروتم مشرا کے دونوں گال پر جو چانٹا جڑا ہے اس کی گونج دور تک اور دیرتک سنائی دے گی ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237660 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.