رام لیلا میدان پر رام بھگت کسانوں کا رام راجیہ کے خلاف احتجاج

2022کے اواخر میں دہلی کے اندر سب سے بڑا احتجاج آر ایس ایس کی کسان تنظیم بھارتیہ کسان سنگھ نے کیا ۔ بی کے ایس ہندوستان کی سب سے بڑی کسان تنظیم ہے۔ کانگریس کے زمانے میں یعنی 2013 کے اندراس نے دہلی میں زبردست مظاہرہ کیا تھا لیکن مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی یہ تنظیم کوما میں چلی گئی۔ آٹھ سال بعد پہلی بار بھارتیہ کسان سنگھ نے مودی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کی ۔ دو سال قبل جب بھارتیہ کسان سمیتی کے پرچم تلے کسانوں نے ایک زبردست تحریک شروع کی تو اس کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر کاٹھ کے ان گھوڑوں کو میدان میں لایا گیا لیکن وہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ کسانوں کی عظیم تحریک کے دباو میں سرکاری ریموٹ کنٹرول کا کنکشن فیل ہوگیا اور جب حکومت کے سارے حربے ناکام ہوگئے تو اس نے ناک رگڑ کر نیا قانون واپس لے لیا۔ سنیوکت کسان مورچہ اس پر بھی نہیں مانا مگر جب حکومت نے لکھ کر وعدے کیے تو وہ تحریک واپس ہوئی ۔ اس وعدہ وعید کو ایک سال کا وقفہ گزرگیا مگر عملدرآمدہنوز ندارد ہے ۔ اس لیے بی کے ایس کو ملک کے600 ضلعوں سے تقریباً ایک لاکھ کسانوں کے ساتھ رام لیلا میدان آنا پڑا۔
دہلی کے اندر کسان گرجنا ریلی میں حکومت سے قرضوں کی معافی ، زرعی پیداوار کی مناسب قیمت اور فصلوں کی تباہی کے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ایک سال قبل مودی حکومت اس کا وعدہ کرکے بھول چکی ہے۔ اس کی یاد دہانی کے لیے ان کسانوں کو دہلی آنے کی زحمت کرنی پڑی ۔ اس موقع پر بی کے ایس کی مرکزی مجلسِ انتظامیہ کے رکن نانا آکھرے نے بتایا کہ زرعی پیداوار کی مناسب اجرت نہیں ملنے کے سبب کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں لیکن جس حکومت میں وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ اجئے مشرا کا بیٹا آشیش مشرا دن دہاڑے کسانوں پر گاڑی چڑھا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور اس کے باوجود باپ اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کی دہائی دیتا ہے مگر اسے ہٹایا نہیں جاتا۔ اس قتل عام کے باوجود وہ انتخابی کامیابی بھی درج کروادیتا ہے تو ایسے میں کسانوں کا احتجاج بے معنیٰ اور سرکار کی نظر میں ان کا مظاہرہ بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے ؟ مودی اور شاہ کی جوڑی کو اس طرح کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ان کے لیے تو بس اڈانی اور امبانی کی خوشنودی و خوشحالی کافی ہیں۔

بھارتیہ کسان سنگھ کی ریلی میں نیلے کرتے اور جیکٹ میں ملبوس موہنی مشرا کے تیور تو کچھ زیادہ ہی تیز تھے۔ انہوں نے کہا’ کیا وزیر اعظم سن رہے ہیں ۔ ہمیں اپنی آواز تیز کرنی ہوگی تاکہ وہ سن سکیں۔ وزیر اعظم آپ کی وزارت تجارت کسانوں کی جانی دشمن معلوم ہوتی ہے۔جیسے ہی ہماری فصل اچھی ہوتی ہے وہ برآمد پر پابندی لگا کر درآمد کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس لیے کسانوں کی آمدنی نہیں ہوتی۔ کیا آپ کو ریاضی آتی ہے؟ اگر نہیں آتی تو کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم بی کے ایس سے پوچھیں۔آج ہم لوگ یہ سمجھانے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ کسانوں کو بہتر قیمت کیسے ملتی ہے؟ہمیں پیداوار کے خرچ کی بنیاد پر مناسب قیمت چاہیے ۔ ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں‘۔ مشرا جی نے جی ایم بیج کی بابت بتایا کہ اس کی وجہ سے کینسر ہوتا ہے۔وہ تمام ادویاتی پودوں کو مار ڈالتا ہے۔وزیر اعظم حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کی بات کرتے ہیں جبکہ وزارتِ ماحولیات اسے تباہ کرنے انتظام کرتا ہے۔ یہ نہیں چلے گا وزیر اعظم، ہمیں زہر نہیں بلکہ نامیاتی (بیج) چاہیے ۔ مشرا جی نے ’ہر کھیت میں پانی‘ والے نعرے کی بھی دھجیاں ادھیڑ دیں ۔ منڈیوں کے اندر بدعنوانی اور کسانوں کی آمدنی کے دوگنا کرنے میں ناکامی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کی تقریر پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
جس جس کو بھی تھی ضبط کی خو بول پڑا ہے
سب بولنے والوں کا گرو بول پڑا ہے

اس مظاہرے کے دوران جب آوٹ لوک کے نامہ نگار نے بی کے ایس کے جنرل سیکریٹری موہنی مشرا سے پوچھا کہ کیا خطوط اور داخلی گفت و شنید ناکام ہوگئی جو طاقت کے مظاہرے کی ضرورت پیش آئی؟ اس پر وہ بولے حکومت تو حکومت ہے ۔ ہم ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہیں۔ سرکار کا کام پالیسی بنانا ہے اور اس پر اپنی رائے ظاہر کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس حق کو گزشتہ آٹھ سال کے عرصے میں استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بی کے ایس سے زرعی مسائل پر مشورہ نہیں کیا جاتا ؟ موہنی مشرا نے جواب دیاہم سے رائے مشورہ ہوا ۔ ہم نے وزیر ماحولیات اور سرکاری کمیٹی کے سامنے اپنا موقف واضح بھی کیا لیکن ایک لابی نے اسے منسوخ کروادیا۔ اب ہم پالیسی کے فیصلوں کو متاثر کرنے والی لابی کو بے نقاب کریں گے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے۔بیج ، کھاد اورزرعی مصنوعات بنانے والی امریکی اور غیر ملکی کمپنیاں اس میں ملوث ہیں ۔ وہ حکومت کو غلط مشورے دیتی ہیں اور غلط فیصلے نافذ کرواتی ہیں ۔ یعنی اب معاملہ اڈانی اور امبانی جیسے سودیشی دھناّ سیٹھوں سے آگے بڑھ کر عالمی سرمایہ داروں تک پہنچ گیا ہے اور مودی حکومت ان کا بھی آلۂ کار بن گئی ہے ۔

موہنی مشرا نے جو سنگین الزامات لگائے ہیں اگر وہ راہل گاندھی یا کسان یونین لگاتی تو انہیں قوم دشمن غیر ملکی دلائل قرار دے دیا جاتا لیکن ان سنگھیوں کے ساتھ بی جے پی یہ بھی نہیں کرسکتی ۔ ان سرکاری دامادوں پر یو اے پی اے بھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ انتخاب کے دوران عوام کو ورغلانے میں یہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مودی سرکار پر ان الزامات کا ثبوت طلب کیے جانے پریہ چونکانے والاانکشاف سامنے آیا کہ بی کے ایس کے ذریعہ لکھے جانے والے خطوط کا جعلی و فرسودہ اعدادو شمارکی مدد سے غلط جواب دیا جاتا ہے ۔ وہ لوگ وزارت سے سوال کرتے ہیں تو غیر متعلق لوگوں سے بے معنی ٰ جواب موصول ہوتا ہے۔ اس رویہ سے تنگ آکر بی کے ایس جی ایم مسٹرڈ کے خلاف مظاہرے کے بعد عدالت میں مفادِ عامہ کا مقدمہ کرنے والی ہے۔ بی کے ایس کے مطابق دنیا کے کسی حصے میں بھی اس بیج سے بہتر پیداوار نہیں ہوئی ہے۔ اس کواجازت دینے کے لیے جس دیپک پینل کی سفارش کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کی مہارت مشکوک تھی۔ کسان سنگھ کا الزام ہے کہ اس نظام میں کئی سائنسدانوں کی نیلامی ہوچکی ہے۔ جی ایم کو مسئلہ کا حل بتایا جاتاہے جبکہ کاشتکار اس کاحل ہے۔ ہندوستانی کسانوں کو تین سال کا وقت اور مالی ترغیب ملے تو ملک کو تلہن کے معاملے میں خود کفیل بنایا جاسکتا ہے۔ ان تمام سنگین اعتراضات کے باوجود سرکار انہیں سنجیدگی سے نہیں لے گی کیونکہ اسے پتہ ہے انتخاب کے وقت یہ لوگ چاہیں نہ چاہیں مہر تو کمل پر ہی لگائیں گے ۔

موجودہ سیاسی نظام میں جس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ اس کا ثبوت حالیہ دہلی کے بلدیاتی انتخاب میں سامنے آیا۔ بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے لیے دہلی کے مسلمان آنکھ موند کر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا کرتے تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کیجریوال نے انہیں مجبور ِ محض سمجھ کر نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ پہلے تو شاہین باغ کے احتجاج سے آنکھیں موند لیں اور پھر یکے بعد دیگرے دو فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں سے اپنی طوطا چشمی نظریں پھیر لیں ۔ اس بار مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے نہ صرف اوکھلا اور شاہین باغ بلکہ شمالی دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں بھی عآپ کا جھاڑو پھینک کا ہاتھ کا ساتھ دے دیا۔ اس طرح پرانی دہلی کے علاوہ دیگر مسلم علاقوں سے جھاڑو کا صفایہ ہوگیا۔ اس کے بعد کیجریوال سمجھ گئے کہ اگلی بار پرانی دہلی میں سپڑا صاف ہوجائے گا ۔

اس معرفت کے سبب عام آدمی پارٹی نے اس بار شیلی اوبرائے کو میئراور آلِ محمد اقبال کو ڈپٹی میئر عہدے کے امیدوار بنا دیا ۔ مسلمان اگر کیجریوال کو سبق نہیں سکھاتےتو پھر سےنظر انداز کردیئےجاتے ۔ بی جے پی کا سنگھ کی تنظیموں کے ساتھ وہی رویہ ہےجو سیکولر جماعتوں کا مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔سبھی کے لیے’ گھرکی مرغی دال برابر‘ اور’ غیر کی دال مرغی جیسی لذیذ ‘ہوتی ہے۔ اس لیے بی کے ایس کو بھی مودی سرکار کے ساتھ وہی معاملہ کرنا ہوگا جو مسلمانوں نے کیجریوال کے ساتھ کیا ہے۔ 2022کے اس سیاسی سبق کو اگر بھارتیہ کسان سنگھ نے گرہ سے باندھ لیا تو وہ باقی رہے گی ورنہ مودی سرکار کے ساتھ فنا کے گھاٹ اتر جائے گی ۔ بی کے ایس کے ایک جانب کسانوں کے سنگین مسائل ہیں اور دوسری طرف سرکارکی وفاداری ہے۔ ایسے اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ ’وہ اِدھر جائے یا اُدھر جائے؟‘ اس کی حالت پر یہ ترمیم شدہ شعر صادق آتا ہے؎
آنکھوں میں نمی آئی چہرے پہ ملال آیا
اے سنگھ کی مجبوری جب تیرا خیال آیا

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237933 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.