امریکہ میں اسلامی تحریک کے خدّوخال

اسلامی تحریک ایک منظّم کوشش کا نام ہے جسکا مقصد اسلامی نظام عدل کا تعارف، اور اسکے قیام کی جدّوجہد ہے ـ اس کام کا اصل مقصد دنیا اور آخرت میں اللہ کی خوشنودی اوراسکی نعمتوں کا حصول ہے ـ اسلامی تحریک کا مشن دنیا میں اسلامی عدل و انصاف کا قیام ہے ـقرآن میں انبیا کی بعثت کا مقصد کچھ اسطرح بیا ن ہوا ہے ـ
لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلۡقِسۡطِ‌ۖ وَأَنزَلۡنَا ٱلۡحَدِيدَ فِيهِ بَأۡسٌ۬ شَدِيدٌ۬ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعۡلَمَ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۥ وَرُسُلَهُ ۥ بِٱلۡغَيۡبِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ۬ (سُوۡرَةُ الحَدید آیت ۲۵)
”ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور میزان بھی بھیجی تاکہ لوگوں کو انصاف پر قائم رکھیں اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اورلوگوں کے فائدے بھی ہیں اور تاکہ الله معلوم کرے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی غائبانہ مدد کرتا ہے بے شک الله بڑا زور آور غالب ہے“ـ
اللّہ عزّوجل نے زمین پرانسانیت کا آغاز اپنے نبئ اول آدم علیہ السّلام سے کیا اور یوں اس مشن کا افتتاح ھوا ـ
رسول ﷲ صلى الله عليه وسلم کے بعد یہ ذمّہ داری امّت مسلمہ کے کاندھوں پرآپڑی ھے ـ
كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنڪَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ‌ۗ وَلَوۡ ءَامَنَ أَهۡلُ ٱلۡڪِتَـٰبِ لَكَانَ خَيۡرً۬ا لَّهُم‌ۚ مِّنۡهُمُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَأَڪۡثَرُهُمُ ٱلۡفَـٰسِقُونَ ( سُوۡرَةُ آل عِمرَان آیت ۱۱۰ )
”تم سب امتوں میں سے بہتر ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں اچھے کاموں کا حکم کرتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور الله پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا کچھ ان میں سے ایماندار ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں“ـ
اسلامی تحریک کسی لگے بندھے تنظیمی ڈھانچے کا نام نہیں ہے۔ یہ ہرمعاشرے کے لئے ایک ہی دستور اور فارمولہ تجویز نہیں کرتی۔ اسلامی تحریک کی نہج one size fits all نہیں۔ یہ ایک سیل رواں ہے جو بدلتے ہوئے حالات میں نئے راستے تلاش کرتی ہے۔ زمینی حقائق کی معرفت اور مقامی افراد کار اس اس جدّوجھد کے اجزاءلاینفک ہیں۔
امریکہ ـ چند حقایق ـ اسلامی تحریک کے تناظر میں
امریکہ میں ایک موثّراسلامی تحریک کے آغاز اور استقرار کے لئے ضروری ھے کہ یہاں کی تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرت کا ادراک کیا جاےٓ ـ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مشن کی تنظیم وقت اور جگہ کے عین مطابق ہو ـ یہاں ہم امریکی معاشرے کے چند عناصر کا ذکرکریں گے جسکی معرفت ضروری ہے ـ
۱۔ مقامی مسلم آبادی
امریکہ مغربی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مقامی مسلمان کمیونٹی چارصدیوں سے موجود ہے ـ 1960 کے عشرے تک امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی امریکی سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی ـ اس موضوع پر بہت سی کتابیں اور مقالے لکّھے جا چکے ہیں۔ مغرب کے دوسرے ممالک میں مسلم اقلّیتوں کی یہ صورتحال نہیں ھےـ برطانیہ ((UK میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کا تعلّق برّصغیر سے ہےـ جرمنی میں ترکی باشندے سرفہرست ہیں ـ فرانسیسی مسلمانوں میں افریقیوں کا تناسب ذیادہ ہےـ مغربی اورمشرقی یورپ میں کہیں بھی بڑی مقامی مسلم آبادی نظرنہیں آتی ھےـ یہ اعزاز صرٖف امریکہ کوحاصل یےـ
امریکہ کے ساحلوں پر سترہویں صدی (بعد از 1619) سے افریقہ سے اغوا کیے ہوئے مردوخواتین غلاموں کی جبری آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک عرصے تک چلتا رہاـ ان مظلوموں میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد تھی ـ ان میں بہت سے لوگوں نے اپنے ایمان کو سلامت رکّھاـ
1970 سے پہلے مقامی امریکی مسلمانوں کی رہنمائ کرتے تھے ـ 1960 کے عشرے میں چلنے والی شہری حقوق (سول رائٹس) کی مہم میں ان لوکل مسلمان رہنماوں کا بڑا کردار تھا ـ مسلمانوں کے مراکز، مساجد، اسلامی مکاتب وغیرہ اندرون شہر(inner cities) ہوا کرتے تھے جہاں سیاہ فام سلمانوں کی اکثریت تھی ـ
افریقی امریکی مسلمانوں نے پچھلے دو سوسالوں میں متعدد اسلامی اور نیم اسلامی تنظیموں اور تحاریک کی داغ بیل ڈالی ـ ان اداروں اور رہنماؤں نے اس سرزمین کے مستکبرین سے کشمکش کو زندہ رکھّا ـ اس پورے دور میں اسلام، عدل کی علامت بن کر ابھرا ـ سیاہ فام امریکیوں نے اسلام کے ساۓ عاطفت میں اپنی مظلومیت کا مداوا اور آزادی کا راستۃ تلاش کیا ـ

۲۔ مسلم اشرافیہ تارکین وطن
1965میں جاری کردہ امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کی منظوری کے بعد مسلم ممالک سے طلبہ اعلی تعلیم کے لئے آنا شروع ہوئےـ انکی اکثریت نے تعلیم کے بعد امریکہ میں ہی رھایش اختیارکرلی ـ امریکی نظام نے انہیں وہ مواقع فراھم کیے جو سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کومیسّرنہیں تھے ـ
مسلم ممالک سے آنیوالے باشندے معاشی اور تعلیمی اعتبار سے بہت بلند تھے ـ 1965کے امیگریشن قانون کی بنیاد میرٹ تھی ـ اسکے نتیجے میں ترقّی پزیر دنیا کے بہترین دماغ امریکہ آئے اور یہیں بس گئےـ اسکے بعد انکے رشتہ داروں کی آمد شروع ہوئی ـ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس مظہر کو چین امیگریشن کہتے ہیں (یہ اور بات کہ موصوف خود بھی اسی زنجیری مہاجرت کا نتیجہ ہیں) ـ
مسلم ممالک سے ہجرت کا سلسلہ 1965 سےآج تک جاری ہے ـ اسکے نتیجے میں مسلم امریکہ کی ساخت تبدیل ھوچکی ہے ـ مقامی مسلمان اپنے غریب محلّوں تک محدود ہیں جبکہ اسلامی تنظیموں ، مساجد دینی اداروں پر دیسی اورعرب تارکین وطن کی مکمّل اجارہ داری قائم ھوچکی ھے ـ
ان نوواردان نے پچھلے 70 سالوں میں کئ قومی اسلامی تنظیمیں اور ادارے قایٔم کۓ ــ انہی کے ذریعے امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں مساجد کا جال بچھادیا گیا ہے ـ ان تنظیموں اور مساجد کے رھنما ، امام اور بورڈ ارکان بالعموم اشرافیہ تارکین وطن ھوتے ہیں ـ یہ ادارے ما لی اعتبا ر سے خودکفیل ہیں اور تارکین آبادی میں انکا ایک مضبوط حلقۂ اثر ہے ــ
۳۔ نسلی تنوّع
امریکہ کی آبادی رنگ و نسل کے اعتبارسے انتہائ متنوع ھے ـ تقریباً ھرزبان بولنے والے یہاں نظر آتے ھیں ـ سفیدفام ، سیاہ فام اور لاطینی تین اکثریتی گروپس ہیں ـ یہاں کی مسلم آبادی بھی بہت سارے رنگوں اور نسلوں پر مشتمل ہے ـ مقامی افریقی امریکی باشندے مسلمانوں کی آبادی کا ۲۵ ٪ ہیں ـ نومسلمین میں ان کا تناسب نصف کے قریب ہے ـ لاطینی آبادی میں بھی آسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ـ ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ہسپانوی مسلمانوں کی مختلف جماعتیں موجود ہیں ـ
بدقسمتی سے یہ تنوّع مسلم تنظیموں اورمساجد کے ذمٓہ داران میں نظرنہیں آتا ہے ـ وہاں کے ارباب بست و کشاد صرف دیسی اور عرب مہاجرین ہیں ـ کہیں کہیں انکی اگلی نسل نظرآرہی ہے ـ
۴۔ نسلی امتیازاورغلامی
غلامی اور نسلی عصبیّت امریکہ کے DNA کا حصّہ ھے ـ اس وحشی نظام کا اغاز مقامی امریکی انڈین باشندوں کی زمینوں پر قبضوں سے ہوا ـ مفت بیگارکے لئے افریقہ سے بے گناہ لوگوں کو اغواء کیا گیا اور غلام بنا کر امریکہ میں فروخت کردیا گیا ـ اس مال مفت اور دل بے رحم کے ساتھ یہ ملک ترقّی کرتا گیا ـ افریقی غلاموں نے امریکی زرعی زمینوں پر کپاس ، تمباکو، کافی ، زیتون ، انگور، گنٓا اور دوسری فصلیں کی کاشت کیں ـ اس غلامی کا سلسلہ کئی صدیوں تک چلتا رھا ـ اس دور کی بربریت پر بےشما ر کتابیں اورفلمیں دیکھی جاسکتی ہیں ـ مشہورزمانہ کوکا کولا مشروب کا اصلی عنصر”کولا نٹ“ بھی یہی غلام افریقہ سے لے کر آۓ تھے ـ اس سفّاک اور دہشت گرد غلامی کے ذریعے سفید برتری (white supremacy) کی ناقابل شکست معیشت تعمیرہوئی ـ
غلامی امریکہ کی شناخت رہی ہے ـ اس نظام میں انسان کو قانوناً خریدا ، بیچا اور ملکیت بنایا جاسکتا تھا ـ امریکہ میں غلامی کے نام بد لتے رہے ہیں ـ 1863میں غلامی کے رسمی خاتمے کے بعد یہ شیطانی نظام سیاہ قانون (Black Codes) اور اسکےبعد جم کروقانون (Jim Crow Law) کے نام سے 1965 تک چلتا رہا ـ اس پورے عرصے میں سیاہ فام آبادی بنیادی حقوق کے بغیر جانوروں کی طرح گذارتی رہی ـ
غلامی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے ـ امریکی دستور کی تیرہویں ترمیم (1865) نے غلامی کا قانونی خاتمہ کیا لیکن اسکی ایک شق نے اسے منطقی طور پر برقرار رکھّا ـ اس شق کے مطابق جرم کی سزا کے طور پر مجرمین کو غلام بنایا جاسکتا ہےـ 1960 کی دھائ میں سول رایٹس مہم کی کامیابی کے بعد بظاہرتمام ظالمانہ قوانین کا خاتمہ ہوگیا ـ منشّیات کے خلاف جنگ (Drug War) کا آغاز 1971 سے ہوا ـ اصل میں یہ سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کی غلامی کا ماڈرن ایدیشن ھےـ اسکے نتیجے میں امریکہ کی جیلیں وسیع پیمانے پرآباد ہوئیں ـ انکی آبادی تمام صنعتی ممالک کی جیلوں سے ذیادہ ہے ـ افریقی امریکی نوجوانوں کا ایک چوتھائ اس وقت پس دیوارزنداں ہےـ
۵۔ معاشی درجہ بندی
اقتصادی درجہ بندی امریکی معاشرے کی ایک اور شناخت ہے ـ یہاں رہایشی محلّوں کا تعیّن ساکنان کی آمدنی سے ہوتا ہے ـ امریکہ میں ہائی سکول (12جماعتوں تک) تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے ـ تعلیمی اخراجات مقامی حکومت کی ذمّہ داری ہے اور مصارف کا بڑا حصّہ مقامی پراپرٹی ٹیکسوں کے ذریعے ادا یا جاتا ہے ـ اسکے نتیجے میں امیر محلّوں کے اسکولز وافر وسایل سے مالامال ہوتے ہیں ـ وہاں کے طلبہ کے لئے تمام آسائشیں موجود ہوتی ہیں ـ ان اسکولوں سے فارغ التّحصیل طلبہ معاشی طور پر بہت جلد بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں دوسری طرف غریب محلّوں کی اسکولز، یتیم خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں ـ واضح رہے کہ ترقّی یافتہ ممالک میں یہ نا انصافی صرف امریکہ میں پائ جاتی ہے ـ یہ تعلیمی نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ غریب خاندانوں (رنگدار محلّوں) کے طلبہ اعلی ملازمتوں سے محروم رہیں اور جرائم کی دنیا میں داخل ہوجایئں ـ اس ظالمانہ تعلیمی نظام کے ذریعے امریکہ کی جیلوں میں مفت بیگار کی سپلائ برقرار رہتی ہے ـ سرکاری مدارس کا یہ نظام معاشرے میں بین النسل معاشی تفاوت کا شرطیہ ضامن ہے ـ
بدقسمتی سے امریکہ کی اسلامی تنظیموں اور مساجد نے آمدنی و اخراجات کے لئے ایسے ہی طریقے کا انتخاب کیا ہے ـ اسکے نتیجے میں مسلم اشرافیہ علاقوں میں عالیشان مساجد جگمگاتی ہیں ، اسلامی مدارس جدید سہولیا ت کے ساتھ موجود ہیں ـ دوسری جانب اندرون شہر(inner cities) کے اسکولز اور مساجد کھنڈرکا منظرپیش کرتے ہیں ـ
1930 سے 1970 کی دھائ تک امریکہ میں تقسیم دولت کا معاملہ بہتر ہورہا تھا ـ مڈل کلاس مستحکم تھی اور ایک معقول معیارزند گی کا حصول بہت مشکل نہیں تھا (غیر افریکی امریکی ابادی کے لۓ ) ـ 1981 میں رونالڈ ریگن نے اقتصادی بحالی ٹیکس ایکٹ پر دستخط کۓ ـ معاشیات کی دنیا میں اسے ”ریگنومکس“ Reagonomics بھی کہا جاتا ہے ـ اسکے ذریعے محصول کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ـ دولتمندوں کے لۓ جئے رہے بھگوان کی ـ یہ لعنت امریکہ میں ارتکاز دولت کی نہ رکنے والی تحریک ثابت ہوئ ـ 1980 سے آج تک دولت چند ہا تھوں ، خاندانوں اور کارپوریشنوں میں مرکوز ہورہی ہےـ
۲۰۱۸ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں امیرترین 0.1٪ کی آمدنی دیگر نوّے فیصد عوام کی آمدنی کا 200 گنا ھے ـ
غریب شہر پر کہ تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
۶۔ ذات پات کا نظام
امریکی معاشرہ ذات پات (Caste) کے معا ملے میں ھندو معاشرے سے بہت مختلف نہیں ہے ـ اسابل ولکرسن کی کتاب
“Caste: The Origins of Our Discontents” اس موضوع پر ایک مفید اور معلوماتی تحقیق ہے ـ امریکہ میں ذات پات کا نظام سترھویں صدی سے شروع ہوا جب افریقی انسانوں کو غلام بناکرلایا گیا ـ بنیادی طور پراس نظام میں اونچی اورنیچی ذاتوں کا تعیّن ہوگیا ـ سیاہ فام غلام اسفل ترین اورسفید فام پلانٹیشن ذمیندارارفع ذات والے قرار پاۓ ـ ان دوانتہاؤں کے درمیان ابتداءً یورپی ملازمین اور دیگرغریب گوروں کا شمارہوتا تھا ـ
ذات پات کا یہ نظام آج بھی بہت مظبوط بنیادوں پر قایٔم ہے ـ بدقسمتی سے امریکہ میں موجود مسلم کمیونٹی کواس موضوع سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے ـ عام طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ ذات پات کی شناخت صرف بھارت تک محدود ہے ـ امریکہ میں ذات کا نظام اور جنگلی سرمایہ داری نے ایک ایسی معاشرت جنم دی ہے جہاں انسان طبقاتی بندھنوں میں جکڑے ھوۓ ہیں ـ
امریکہ کی اسلامی تحریک کے کارکنان اورمرشدین کو اس نظام کی عمیق معرفت ہونی چاہئے ـ اہم سوال یہ ہے کہ امریکی مسلمان اس ذات پات کے نظام میں کہاں کھڑے ہیں
یہاں موجود مسلم تارکین وطن کی اکثریت (جو 60 کے عشرے سے آنا شروع ہوۓ) جنوب ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے آئی ہے ـ ذات کے نظام میں یہ طبقہ امریکی سفید فام برہمن سے قریب ترہے ـ انکے لئےیہ زمین حقیقی معنوں میں سونے کی کان (Land of Opportunity) ثابت ہوئی ہے ـ دوسری طرف امریکی مسلمانوں کی ایک چوتھائی تعداد مقامی سیاہ فام مسلمانوں پر مشتمل ہے جو چار سو سالوں سے انتہائ تلخ زندگی گزاررہے ہیں ـ یہ لوگ حقیقی معنوں میں امریکی دلت ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم امریکہ گندمی برہمن اور سیاہ دلت ذاتوں پرمشتمل ہے۔

امریکی اسلامی تحریک کی صفات/خصوصیات
پچھلے صفحات میں ہم نے امریکی معاشرتی نظام کی چند علاماتی خصوصیات کا ذکر کیا ہے ـ اس خطّے میں برپا ہونیوالی اسلامی تحریک کی صورت گری انہی حقائق کی روشنی میں کی جا نی چاہئے ـ یہاں ہم چند ضروری عناصرکا ذکر کرینگے ـ

۱۔ مقامی تحریک

امریکی اسلامی تحریک کا نصب العین اس معاشرے میں اقامت قسط کی جدّوجھد ہے لیکن اسکی نہج مسلم مملک کی تحاریک سے مختلف ہوگی ـ عالمی اسلای تحریک کے دانشور محترم خرّم مرادؒ اپنے مضمون ”مغرب میں اسلامی تحریک:چند مسایٔل کا تجزیہ“ میں فرماتے ہیں ”ھمیں مغربی دنیا کی آسلامی تحریک کے لۓ ایک مختلف نہج اور اپروچ کی ضرورت ہے جو یہاں کے حالات و عوامل کے ملحوظ نظر ھوّ ـ یہ یقیناً مسلم اکثریتی معاشرے میں رایٔج الوقت انداز سے مختلف ہوگی“ ـ
مذید وضاحت اسطرح کرتے ہیں ـ ” یہ فریم ورک کیسا ھوگا؟ اس نہج کا کلیدی نکتہ مقامی افراد کی شمولیت ہے ـ اس تحریک کا حتمی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا جب تک یہ جدّوجہد مقامی ہا تھوں میں نہ ہوںـ“ دوسرےالفاظ میں اس تحریک کے کارکنان اور قیادت میں مقامی مسلمانوں کا کلیدی کردار ہونا چاہےٓـ
خرّم صاحب کے مطابق جو مقامی نو مسلمیین اس تحریک کی دعوت کو قبول کیں انکی ایک علیحدہ تنظیم بنائی جاۓ ـ جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسے مقامی ضرورتوں اور معیارات کے مطابق چلاسکیں ـ ایک اور دلچسپ نکتہ وہ مقامی اور مہاجرین افراد کے انضمام کے بارے میں لکھتے ہیں . ”میرے تجزیۓ کے مطابق مقامی نومسلموں کو موجودہ اسلامی تنظیموں میں (جہاں غیرملکی مسلمانوں کی اکثریت ہے) داخل کرنا قطعاً فائدہ مند نہیں ہے ـ ایسا ا نضمام کئی مسائل پیدا کرتا ہے ـ“
خرّم صاحب کا یہ آرٹیکل محمّد ممتاز عالم کی مرتّب کردہ کتاب “Modern Islamic Movements” کا آخری باب ہے ـ
اقامت دین و قسط کے لئے مقا می تحریک کا تصوّر کوئی اجنبی بیانیہ نہیں ہے ـ قرآن میں یہ ذکر کئ مقامات پر ہے ـ سُورَةُ إبراهیم آیت 4 میں ارشا د ہوتا ہے ـ ” اور ہم نے ہر رسول کو اُس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں سمجھا سکے ........“۔ اس آیت کی فکر بہت واضح ھے ـ انبیاء و رسل اس جدّوجہد کے لۓ رول ماڈل ہیں اور وہ سب مقامی تھے ـ ﷲ تعالٰی نے اس دنیا میں اقامت دین وقسط کے لئے مقامی انبیأ ورسل کا انتخاب کیاـ وہ رسل اپنی قوم کے لئے دعوت و ہدایت کا مشن لیکراٹھے ، وہ اپنے معاشروں میں پلے بڑھے ، انہیں وہاں کی تہذیب ، ثقافت اور روایات کی گہری معرفت تھی ـ
سُورَةُ الشُّعَرَاء میں نوحؑ کی دعوت کا اسلوب بیان ہوتا ہے ـ ”نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا ، جب ان کے بھائی نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟“ (آیات 105ـ106) ـ یہاں نوحؑ اپنی قوم سے ایک بھائی کی حیثیت سے مخاطب ہیں ـ اگلی آیات میں ھود ، صالح اور لوط علیہم السّلام یہی برادرانہ پیغام اپنی اپنی قوم کو پیش کرتے ہیں ـ کسی معاشرے میں دعوت اور اقامت کی تحریک کے لئے وہ لوگ زیادہ موضوع ہیں جو اس قوم کے بھائ اور اس زمین کے بیٹے ہوں ـ
سُورَةُ هُود کی آیات 84-85 میں شعیبؑ کا ذکراسطرح ھوتا ہے ـ ”اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا کہ اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ........اور اے میری قوم انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگو ں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ“ ـ شعیبؑ یہاں اپنے دعوتی سامعیں کو میری قوم کا عنوان دیتے ہیں ـ اس سورہ میں ھود ، صالح اور نوح علیہم السّلام بھی اسی طرح اپنے سامعین اور ناظرین سے خطاب کرتے ہیں ـ
انہی رسولوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقامی امریکی مسلمانوں پر اپنی توجّہ مرکوز کرے ـ امریکہ میں اسلامی جدّوجہد بلیک مسلمانوں کے بغیرنا مکمّل ہےـ ممتازامریکی مسلمان دانشورشرمن جیکسن اپنی کتابIslam and Blackamerican میں رقم طراز ہیں ”امریکہ میں اسلام افریقی امریکی مسلمانوں کے ذریعے مقامی دین بن سکتا ہے ـ بلیک مومنین کے بغیر امریکہ میں اسلام یتیم ، اجنبی اورصرف ایک غیرملکی مظہر ہے “ـ
۲۔ ایک تسلسل
اسلامی تحریک زمان و مکان سے کلّی آزاد نہیں ہوتی ، یہ ایک جہدمسلسل کا نام ہے۔ ہر تحریک اپنے سے پہلی برپا کی ہوئی جدّوجہد کے ثمرات قبول کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر نئی جہت اور سمت متعیّن کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ”تجدیدواحیائے دین“ میں ہندوستان میں برپا ہونیوالی اسلامی تحریکوں کا بہت تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان میں موجود خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی گئی اوران تجزیوں کو سامنے رکھ کر مولانا نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکّھی ۔ آباد شاہ پوری اپنی کتاب ”سیّد بادشاہ کا قافلہ“ میں تحریک مجاہدین کا تجزیہ کرتے ہیں۔ المیٓہ بالاکوٹ کے بعد یہ تحریک رکی نہیں۔ سیّد احمد شہیدؒ نے اپنے چند مخلص قائدین کو اپنی شہادت سے پہلے شمالی ہندوستان (صادق پور) بھیج دیا تھا۔ ان نفوس قدسیہ نے احیاءدین کے مشن کو تقریباً سو سال تک ذندہ رکّھا اوراس جماعت کی شاخیں متّحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ سیّد احمد شہیدؒ کی شہادت 1831 میں بالاکوٹ میں ہوئ اور 1931 میں حیدرآباد دکن سے مولانا مودودیؒ نے اپنی جدّوجہد کا آغاز کیا۔ آباد شاہ پوری کے مطابق جماعت اسلامی تحریک مجاہدین کا تسلسل ہے۔
امریکہ کی اسلامی تحریک بھی اس سرزمین پر چلنے والی پرانی تحاریک کا تسلسل ہوگی۔ افریقی غلام اس خطّے میں دین کے پہلے علمبردار تھے۔ انہوں نے بد ترین حالات میں دین اسلام کوزندہ رکّھا۔ انکی نسل سے میلکم ایکس اور وارث دین محمّد جیسے رہنما تیّار ہوئے۔ ان تحاریک کا تجزیہ اور انکے ساتھ شراکت امریکی اسلامی تحریک کے لئے ناگزیر ہے۔

۳۔ نسلی ، سماجی اور معاشی تنوّع
رسولﷲؐ کی قائم کردہ اجتماعیّت کی ایک صفت تنوّع تھی۔ اس ٹیم میں مختلف رنگ ونسل کے لوگ موجود تھے۔ معاشی اور سماجی اعتبار سے صحابہؓ مختلف کلاس سے تعلّق رکھتے تھے۔ عبدالرحمٰن ابن عوفؓ جیسے ریئس اور بلال ابن رباحؓ جیسے مسکین ، دونوں کا اس تحریک میں ایک مقام تھا ، شاید بلالؓ کا مرتبہ زیادہ بلند تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مکّہ میں صحابہؓ کی ایک تہائ تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔ اس تحریک میں پہلی شہادت بھی ایک بلیک صحابیہؓ کے حصّے میں آئ۔ سمیّہؓ اس جدوجہد کی پہلی جانی قربانی تھی ۔ امریکی اسلامی تحریک افریقی امریکی خواتین کی بغیر نا مکمّل ہے۔
امریکہ کی اسلامی تحریک نسل، زبان اور معاشی طبقات کے اعتبار سے ایک متنوّع اجتماعیّت ہونی چاہئے ، جہاں سب کے حقوق برابر ہوں۔ امریکی اسلامی اداروں ، تنظیموں اور مساجد کی قیادت مکمّل طورپر اشرافیہ عرب اور دیسی افراد کے کنٹرول میں ہے۔ ان جماعتوں اور اداروں کے بنیادی تنظیمی ڈھانچہ میں تبدیلی کے بغیرکسی پائدار تنوّع کی توقّع ایک خام خیالی ہے۔
امریکی اسلامی تحریک کے دستور میں جامع تنوّع (inclusive diversity) ایک مطلوبہ قدر (desirable value) ہونی چاہئے۔ اسکے نمائندہ اداروں (شورٰی، بورڈ وغیرہ) کے انتخاب میں اس قدر کا لحاظ ہونا چاہئے۔

۴۔ قیام عدل
امریکہ میں خیر کی کوئی بھی تحریک یہاں کی سماجی اور معاشی انصاف کی جدّوجہد سے الگ نہیں ہوسکتی ہے۔ امریکی اسلامی تحریک کے لئے ایک اچّھا ماڈل موسیٰؑ کی جدّوجہد ہے۔ فرعون کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اس نے مصری عوام کو طبقات میں بانٹ دیا تھا۔ پوری آبادی آقا اور غلام کلاس پر مشتمل تھی۔ بنی اسرایئل غلام بنیادی انسانی حقوق کے بغیر ہر ظلم کی چکّی میں بری طرح پس رہے تھے۔
امریکہ میں سفیدفام برتری (white supremacy) عصرحاضر کی فرعونی ترکیب معلوم ہوتی ہے ۔ یہاں فرعون ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظام ہے۔ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ قدامت پسند ریپبلیکن سفید برتری کے پشتیبان ہیں، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں اس امر پر مکمّل اتّفاق رکھتی ہیں۔ امریکی فراعنہ نے عوام کو طبقات میں تقسیم کیا ہوا۔ یہاں کی بستیاں مکینوں کی امدنی کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسکے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب خاک نشین ہوتا جارہا ہے۔
امریکی اسلامی تحریک کی شناخت اس معاشرے میں قیام عدل ہونی چاہئے، اقا مت قسط اورناانصافی کے خلاف جدّوجہد۔ سماجی اور معاشی انصاف کا مطالبہ اسلامی دعوت کا ایک مستند عنصر ہے۔ بنی اسرایئل کی آزادی موسیٰؑ کی دعوت کا حصّہ تھی۔ جب انہوں نے فرعون کو ﷲ اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت دی وہیں بنی اسرایئل کی غلامی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی اسلامی تحریک کو بھی یہی نہج اختیارکرنی چاہئے۔ موجودہ امریکہ میں فرعون اور بنی اسرایئل کے کردار موجود ہیں، بدقسمتی سے موسیٰؑ جیسی قیادت مفقود ہے۔

۵۔ نظامی تعصّب (systemic racism) سے اجتناب
امریکی اسلامی تحریک کی رکنیت ہر رنگ، نسل اور معاشی طبقات کے مسلمانوں کے لئے کھلی ہونی چاہئے۔ بظاہریہ امرآسان لگتا ہے لیکن فی ا لحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اسکی وجہ نظامی تعصّب (systemic racism) ہے۔
نظامی تعصّب کیا ہے؟
اسکی تفہیم کا آسان طریقہ یہ کہ اسکی تعریف (definition) میں الجھنے کے بجائے اسکے مظاہراور اثرات کو سمجھا جائے۔ نظامی نسل پرستی میں افراد متعصّب نہیں ہوتے لیکن ماحول اور نظام غالب نسلی تفوّق کو برقرار رکھتا ہے۔ امریکہ میں بلیک افراد آبادی کا تقریباً ٪۱۳ ہیں مگرقومی دولت میں انکا تناسب ٪۳ ہے۔ ایک سفید فام خاندان کی اوسط دولت 184000 ڈالر جبکہ لاطینی خاندان کی 14000اورسیاہ فام خاندان کی صرف 11000۔ رابرٹ لونگسٹن نے اپنی کتاب Conversation” “Theمیں Fortune 500 کمپنیوں کے قائدین کا تجزیہ کیا ہے ، جسکے مطابق صرف ۵ کمپنی صدور(CEOs) بلیک ہیں ۔ ان اعدادوشمار کا کیا مطلب ہے؟ تمام امریکی کمپنیاں مساوی مواقع (equal opportunity)کی دعویدار ہیں، لیکن نظامی نسل پرستی کی وجہ سے صرف سفید چمڑی والے اعلٰی ترین منصب تک پہنچ پاتے ہیں الّا ماشاء ﷲ۔ اگرہم ایسا ہی تجزیہ امریکی اسلامی اداروں اورتنظیموں کی قیادت کے بارے میں کریں تو یہاں بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ سفیدعفریت جیسا سلوک افریقی امریکیوں سے کرتی ہے مسلم امریکہ ویسا ہی معاملہ بلیک مسلمانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ افریقی امریکی مسلمان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں۔ “We went from the back of the bus to the back of the camel” ۔
نظامی تعصّب کا حل آسان نہیں ہے۔ اسکا سب سے پہلا قدم اس عفریت کی موجودگی کا ادراک ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ ہماری اجتماعیّت میں نظامی تعصّب ہے، اسکے لئے بہت بڑا دل چاہئے۔ اگلے مراحل اس اعتراف کے بعد ہی شروع ہوسکتے ہیں۔

کتابیات
Modern Islamic movements: Models, Problems & Prospects
edited by Mumtaz Ali

The New Jim Crow: Mass Incarceration in the Age of Colorblindness
by Michelle Alexander

Islam and the Blackamerican: Looking Toward the Third Resurrection
by Sherman A. Jackson

The Conversation: How Seeking and Speaking the Truth About Racism Can Radically Transform Individuals and Organizations
by Robert Livingston  

Double Edged Slavery: How African Americans Have Been Colonized Kindle Edition
by Luqman Ahmad

Caste: The Origins of Our Discontents
by Isabel Wilkerson
میرا تعارف :
حسیب ابدالی ریاست ٹیکساس میں سے طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ وہ جامعہ کراچی ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ٹیکساس سدرن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے پروجیکٹ مینیجرہیں ۔
 
Haseeb Abdali
About the Author: Haseeb Abdali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.