اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے، سب مل کر اﷲ کی رسّی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اﷲ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نکالا، اﷲ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہے، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو(سورہآلِ عمران102-103)اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرادیا کرو (سورۃ الحجرات:10)یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس کہ اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرموجودہ دور میں اتحادوقت کی اہم ترین ضرورت ہے قرآن مقدس اور سنت رسول اﷲ ﷺ نے جا بجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، آج پوری دنیا اختلاف وانتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے،آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جارہی ہے اس جدید دور میں سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنادیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی،پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئے جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، دین اسلام میں اختلاف رائے جہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ’’اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ، اور تمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو بیشک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ،ان آیات سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے ہمیں کس اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہوجانا اور ان کی اس طاقت کا جو اتحاد امت کی وجہ سے تھی ختم ہوجانا ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشار اور تفرقہ بازی، اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول اداکرتے ہیں ، چنانچہ قر آن و سنت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق واتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئی، امت مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں ، چنانچہ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا’’میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ایک اﷲ کی کتاب اور دوسری میری سنت ،بیشک اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی و اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخروی کیلئے بہت اہم اور ضروری ہے، یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم، رسول اکرم ﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بیحد احساس رہتا تھا،اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان،خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے،دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا،اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے،عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا،نبی کریمﷺنے سخت ا لفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں،اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو‘ جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضاء بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘‘( صحیح بخاری ، صحیح مسلم )امت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضور ﷺ نے ایک عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا،ترجمہ ’’یعنی ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا‘‘معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقا کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔اﷲ تعالی ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی وسیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطاء فرماے، خدا کرے کہ ہمارا کھویا ہوا شاندار ماضی ہم کو دوبارہ مل جائے اور ہم پھر سے ایک بار سربلندی وسرخروی سے اس دنیا میں جیئیں اور جب اس دنیا سے جائیں تو اخروی کامیابی بھی ملی،اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین
 
Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.