نصیحت کیا ہے؟

سال دو ہزار سولہ میں دنیا بھر کے اخبارات میں جاپان میں بننے والی مصنوعات پر ایک بحث جاری تھی۔ اس بحث کا سبب جاپانی کی ایک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹویوٹا کا یہ اعلان تھا کہ وہ دنیا بھر سے چودہ لاکھ تیس ہزار گاڑیاں واپس منگوا رہی ہے اور خود کمپنی نے بتایا کہ ان گاڑیوں مین نصب ائر بیگ کمتر معیار کے ہیں۔

جنگ کے بعد جب جاپان نے عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات فروخت کے لیے پیش کیں تو یورپ اور امریکہ میں ان مصنوعات کے متعلق عام آدمی کا تصور یہ تھا کہ جاپانی مصنوعات ناقابل اعتبار کھلونے ہیں۔ بلکہ یورپ میں اچھے سٹور جاپانی مصنوعات اپنی دوکانوں میں رکھ نا اپنی دوکان کی توہین خیال کرتے تھے۔

انیس سو پینتالیس تک پوری دنیا کی سڑکوں پر امریکی گاڑیوں کا راج تھا۔ جنرل موٹرز کے دفتر پر لگا جھنڈا ایک گھمنڈ کے ساتھ لہراتا تھا۔ پھر یورپ میدان میں اترا۔اور تیس سالوں میں دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں سولہ ملین ووکس ویگن سڑکوں پر دوڑا دیں ۔ ٹویوٹا موجود تھی مگر غیر معروف تھی۔
انیس سو چون میں جاپان کی بڑی مصنوعات بنانے والی ایک سو چالیس کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو اور تین سو سے زائد مینیجرز نے جاپان کے سائنسدانوں کی یونین کے ساتھ مل کر ایک سیمنیار منعقد کیا۔ جو دو ہفتے سے زائد عرصہ تک چلا۔ اس سیمینار میں مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے پر غور کیا گیا اور کچھ فیصلے کیے گئے۔ان فیصلوں میں پہلا فیصلہ یہ اعتراف تھا کہ ان کی مصنوعات کا معیار ناقص ہے۔ اعتراف ایسا عمل ہے جو آگے بڑہنے کی راہ کھولتا ہے۔ ایسے اعتراف کی ہر تہذیب و تمدن، معاشرہ اور مذہب حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اعتراف میں فرد ہو کہ کمپنی، معاشرہ ہو کہ ملک اپنی غلط ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں اس عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔ جاپانیوں نے توبہ کی اور ہر کمپنی اور ادارے میں معیاریا کوالٹی کنٹرول کے شعبے قائم کیے۔ اور اس شعبوں کے معیار کو بہتر کرتے رہنے کا انتظام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاند پر جانے والے Apollo 11 میں الیکٹرونکس سرکٹ کا پچھتر فیصد حصہ جاپان نے تیار کیا تھا۔ اپالو کی چاند پر لینڈنگ کے دوران اس کے جسم سے ایک چھوٹا سا پرزہ ٹوٹ کر چاند کی سطح پر گر گیا تو ناسا کے مرکز میں سوال اٹھا کہ بلین ڈالر ز کے پرجیکٹ کو اس پرزے کی علیحدگی کے بعد سٹارٹ کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ چاند پر کی سطح پر موجود دو اور چاند کے مدار میں چکر لگاتے تیسرے خلاباز کی زندگی پر سوال اٹھنا شروع ہوئے تو مرکز میں موجود جاپانی مطمن رہے انھیں معلوم تھا۔ اس پرزے کے گر کر علیحدہ ہو جانے کے باوجود اپالو کو دوبارہ سٹارٹ کر لیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اپالو کے کامیاب مشن نے جاپان کی الیکٹرانک سرکٹ والی مصنوعات کو دنیا بھر میں ایسی مقبولیت ملی کہ الیکٹرنک سرکٹ اور معیا ر جاپان کے نام کے ساتھ نتھی ہو گئے۔

جاپانیوں کی کامیابی کی کہانی ہر شعبے میں ایسی ہی رہی۔ انھوں نے معیار کی جانچ کو کنٹرول کرنے والے شعبے کی زبردست نگہداشت کی اور دنیا نے دیکھا جنرل موٹرز کے ہیڈ کوارٹر پر جاپان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ یہ وہی جاپان تھا جو جنگ کے دوران اپنے دو شہروں کو ایٹم بم کی موت سلا چکا تھا۔ فوج ہار چکی تھی۔ عوام مایوس تھی۔ شکست کا معاہدہ ان کے گلے کا ہار بن چکا تھا۔ مگر انھوں نے اپنی تمام ناکامیوں کا اعتراف کیا۔ اور نئی نسل کو تعلیم دی۔ تعلیم کا معیار اتنا بلد کر دیا کہ پرائمری سکول میں ہی جاپانی بچہ زندگی گذارنے کا اخلاق سیکھ لیتا ہے۔ ایک امریکی William Ouchi کے مطابق جاپانیوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کا معیار کرنے کے لیے پرائمری سکول کے استاد کا وظیفہ اور معاشرتی اعزازیونیورسٹی کے پروفیسروں والا کر دیا تھا۔ یوں جاپان کا اعلی ترین دماغ بچوں کا استاد بن گیا۔ جب تعلیم میں معیار آیا تو سوچ بھی معیاری ہو گئی۔ معیاری سوچ ہی معیاری مصنوعات پیدا کرتی ہے۔ پست ذہن اعلی اخلاقی کا مظاہرہ کر سکتا ہے نہ معیاری مصنوعات پیدا کر سکتا ہے۔ آج جاپان اعلی کوالٹی کی اونچی سیڑہی پر براجمان ہو چکا ہے تو اس کا سبب معاشرے کے اعلی اخلاق ہیں۔ اخلاق تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ معیاری تعلیم صرف اعلی دماغ دے سکتا ہے ۔ جاپان میں تعلیم میں معیار بلند کرنے والا شعبہ آج بھی متحرک ہے اور ہو لمحہ معیار کو برقار رکھنے میں نہیں بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

اللہ تعالی کی دنیا وسیع ہے۔ ہر فرد، قوم اور معاشرے کے اپنے تجربات ہوتے ہیں۔ کچھ افراد اور معاشرے پڑھ کر سبق حاصل کرتے ہیں۔ کچھ دیکھ کر نصیحت پکڑتے ہیں۔ کچھ اپنے ہی تجربات سے سبق پاتے ہیں۔ مگر وہ معاشرہ بد بخت ہو جاتا ہے۔ جو اعتراف نہیں کرتا اور توبہ سے تائب رہتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان کا مفہوم ہے کہ انسان کے لیے اتنی ہی کامیابی ہے جتنی وہ کوشش کرے گا۔




 
Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 150574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.