مسائل کا حل ۔۔ کیسے ممکن ہے؟

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کی لعنت سے نبرد آزما ہے، 2014 میں دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ایک بہترین ہم آہنگی دیکھنے میں آئی جب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کیلئے یک زبان ہوکر نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا۔

سیاسی قیادت کی تائید کے بعد عسکری قیادت نے ملک میں رد الفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشنز کا آغاز کیا جس کے بہترین نتائج بھی سامنے آئے جس کو ناصرف پاکستان میں بلکہ بین اقوامی طور پر بھی پذیرائی ملی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نیکٹا کو نیشنل ایکشن پلان کی روح کے مطابق طاقت نہیں بخشی گئی۔

میں یہاں آپ کو امریکا کی مثال دینا چاہوں گا کہ امریکا میں بھی نائن الیون سے قبل رابطوں کے مربوط نظام کا فقدان تھا لیکن سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا نے اپنے بین الاداریاتی رابطوں کے نظام کو مضبوط بنایا جس کے بعد دوبارہ امریکا میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوسکا۔

پاکستان میں 2014 میں نیکٹا کو فعال اور مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا لیکن یہ عزم صرف دعوؤں کی حد تک محدود رہا عملی طور پر ماسوائے عسکری آپریشن کے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ نیکٹا کے حوالے سے سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم خود نیکٹا کے سربراہ ہیں لیکن اس ادارے کے وقت پر اجلاس تک نہیں ہوتے۔

نیکٹا کے نکات میں مذہبی انتہاپسندوں سے نمٹنے، فاٹا میں اصلاحات، افغان مہاجرین کی واپسی اور دیگر امور شامل ہیں لیکن ہم نے نیکٹا کو صرف کاغذوں تک محدود رکھا اور اب ایک بار پھر دہشت گردی کا معاملہ شدت اختیار کرنے کے بعد ہمیں دوبارہ ہوش آیا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے جو فیصلے ہوئے ہیں ان پر عمل کرنا انتہائی کٹھن ہوگا کیونکہ ہمارا خزانہ خالی پڑا ہے۔

نظام مملکت چلانے کیلئے اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 5 اعشاریہ 82 بلین ڈالر ہیں جبکہ دیگر بینکوں کے پاس 5 اعشاریہ 88 بلین ڈالر ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 2022/23 کے باقی ماندہ مالی سال کے 6 ماہ میں 26 بلین ڈالر ہمیں مختلف ادائیگیاں کرنی ہیں۔

ان تمام اعداد و شمار سے پاکستان کی مخدوش صورتحال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، ایسے میں دہشت گردی کیخلاف اقدامات کیلئے فنڈز کہاں سے آئینگے؟۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں ذاتی اختلافات اور سیاست کو بالائے طاق رکھ کر صرف مملکت کے بارے میں سنجیدگی اختیار کریں  کیونکہ ہمارا ڈیولپمنٹ بجٹ بھی ایک چوتھائی سے کم کردیا گیا ہے لیکن اگر باقی ماندہ بجٹ بھی خرچ کردیتے ہیں تب بھی ہمارے مسائل ختم نہیں  ہونگے۔

معاملات کو چلانے کیلئے سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے، کابینہ میں اضافے سے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے، مسائل سے چھٹکارے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے اور اپنے شاہانہ اخراجات کو لگام دینا ہوگی۔

ملکی حالات میں یہ شعر صادق آتا ہے:
کوششیں بے سود ہوکر رہ گئیں 
مشعلیں بے دود ہوکر رہ گئیں 
رہبروں کے دائرے بڑھتے گئے
منزلیں مقفود ہوکر رہ گئیں

ہمارے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں کہ رہبروں کے دائرے بڑھتے جارہے ہیں اور منزلیں مقفود ہوتی جارہی ہیں لیکن مسائل کے حل کیلئے عملی کاوشیں  ناپید ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس بار ہم نے فوری اور عملی اقدامات نہ اٹھائے تو شائد پاکستان مسائل کی ایسی دلدل میں پھنس جائیگا کہ ہمارے لئے نکلنا مشکل ہوجائیگا کیونکہ اس وقت جغرافیائی اور معروضی حالات بھی زیادہ سازگار نہیں ہیں۔ ہمیں پاکستان کے معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے داخلی اور خارجی دونوں پہلوؤں پر فوری اور عملی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بار معاملہ زیادہ گمبھیر ہے۔

کالعدم تحریک طالبان کو اس وقت اپنی طاقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ جنگ بندی سے پہلے ہمارا ان سے رویہ کیا تھا ۔ سیز فائر ختم ہونے کے بعد صورتحال تیزی سے بگڑتی جارہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور میں دہشت گردی کے 218 واقعات ہوئے اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان واقعات کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔

اس وقت قوم پر اپنی بقاء کیلئے لازم ہے کہ دامے درمے سخنے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں کود پڑیں۔ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33734 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More