رحم اور نرم دل

جج قلم نہیں توڑے گا تو کیا اپنا سر پھوڑے گا۔

ذعلب یمنی نے حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا تھا کہ کیا آُ پ نے خدا کو دیکھا ہے۔حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب میں خدا کی صفات گناتے ہوئے فرمایا تھا کہ "وہ رحم کرنےوالا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا

پاکستان کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بنچ کے ایک ممبر جج نے ملزم (عمران خان) بارے کہا کہ ہو سکتا ہے ہمارا حکم ان تک پہنچا ہی نہ ہو۔ یہ رحم ہے مگر جب خطبہ جمعہ کے دوران ایک پھٹے لباس والا پردیسی مسجد میں آکر بیٹھنے لگے اور اسے کہا جائے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کر لو اور خطبہ بھی روک دیا جائے تو تمام نمازیوں کی نظرین لامحالہ اس کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرنے والے پر ہی ہوں گی۔ نمازکے خاتمے پر کئی افراداسے لباس لا کر پیش کریں تو واعظ کا عمل نرم دلی اور لباس لا کر دینے والوں کا عمل رحم دلی ہے۔ نرم دلی کا تعلق احسان سے ہے۔ جبکہ رحم کا تعلق انصاف سے ہے۔

اللہ تعالی بہترین منصف ہے۔ بہترین اس لیے کہ وہ انصاف کرتے وقت رحم کو اپنے دائیں ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اپنے لخت جگر کو ماں ڈانٹتی اور سزا بھی دیتی ہے مگرسزا پر مامتا غالب رہتی ہے۔ اللہ تعالی جب اپنے ہی بندے کی سرکشی پر اس کا محاسبہ کرتا ہے تو اسے پکر کر جہنم (جیل) میں نہیں ڈال دیتا۔ انصاف کے لیے جو عدالت سجاتا ہے اس کا آخری فیصلہ خود کرتا ہے۔ گواہوں کو سنتا ہے۔ کہہ مکرنیوں کو تسلیم کرتا ہے۔

قاضی یحیی بن اکثم بن قطن المزروی ((775-857 جو اپنے وقت کے نامی گرامی چیف جسٹس تھے۔کے بارے میں کئی کتب میں درج ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بخشش کا معاملہ الجھ گیا تو انھوں نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ میں نے زندگی میں عبد الرزاق بن حسام سے سنا تھا اور انھوں نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ابن شہاب زہری، انھوں نے انس بن مالک، انھوں نے آپ کے نبی سے اور انھوں نے جبریل سے سنا کہ آپ کا حکم ہے کہ میرا وہ بندہ جسے اسلام میں بڑھاپا آجائے اسے عذاب دیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ میں دنیا میں اسی سال گذار کر آیا ہوں۔ اللہ نے کرم کیا اور مجھے جنت میں لے جانے کی حکم صادر فرما دیا۔۔

حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدو نے پوچھا یا رسول اللہ قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون لے گا اسے بتایا گیا کہ اللہ تعالی تو بدو نے قسم کھا کرکہا پھر تو ہم نجات پا گئے۔

دنیا بھر میں عدالتیں ملزم کو شک کا فائدہ دیتی ہیں۔چھوٹے منصف (مجسٹریٹ) بعض اوقات کسی نوجوان گناہ گار کو معاف کر کے اسے سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔ سیشن جج ثبوت مہیا ہو جانے پر قاتل کی سزا اتنے بھاری دل سے لکھتا ہے کہ اس کا قلم ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ جج نے ایک بار مجھے بتایا تھا مجرم اپنے خلاف اتنے قوی ثبوت چھوڑ جائے کہ جج پھانسی چڑھانے پر ایسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ انصاف سے جڑا رحم والا عنصر بھی لاگو نہ کر سکے تو جج قلم نہیں توڑے گا تو کیا اپنا سر پھوڑے گا۔بے شک اللہ تعالی رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔


 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 150536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.