وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی توجہ کے لیے

بیشک ریلوے جادونگری توہے ہی۔ لیکن عملے کی رشوت ستانی نے اسے اندھیر نگری بنا رکھا ہے
ریلوے کا عملہ، مرنے والوں کے کفن بھی اتارنے سے باز نہیں آتا
ریلوے ایسا محکمہ ہے جہاں بیوؤں کی پنشن بھی ہڑپ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا
سالانہ کارکردگی رپورٹ کو اس لیے اردو میں شائع نہیں کیا جاتا کہ کوئی عام آدمی پڑھ نہ لے

ہمارے چار شہرہ آفاق کتابوں کے دوست جناب سعید جاوید نے ریلوے کے حوالے سے "ریل کی جادو نگری " کے نام سے ایک کتا ب لکھی ۔یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی ہے کہ انتہائی کم عرصے میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے۔تمام تر کوشش کے باوجود میں یہ کتاب ریلوے منسٹر تک نہیں پہنچا سکا ۔اس میں کیا مصلحت ہے اس کے بارے میں تو رب ہی جانتا ہے ۔میں تو بارہا کوشش کرکے دیکھ چکا ہوں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جناب سعید جاوید صاحب نے یہ کتاب لکھ کر ریل کی پوری کائنات کو کوزے میں بند کردیا ہے ۔بیشک سعید جاوید کا تعلق ریلوے سے نہیں رہا لیکن انہوں نے اپنے بچپن ماں کی آغوش میں جو لوریاں سن رکھی ہیں، وہ ریلوے کے سفید وردی والے (گارڈ)باؤ کے بارے میں ہیں ۔ کچھ یہی کیفیت میری بھی ہے ۔

میرا براہ راست تعلق تو ریلوے سے نہیں رہا اور میں شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ والد صاحب کی تمام تر کوشش کے باوجود میں ریلوے کا باؤ نہیں بن سکا لیکن میری تین پشتوں کے خون میں ریل سے محبت رچی بسی ہے ۔میرے دادا( خیردین خان لودھی ) مشترکہ ہندوستان میں فیروز پور چھاونی میں کیبن مین کی حیثیت سے ریلوے میں ملازم تھے ،قیام پاکستان کے بعد ان کا تبادلہ قصورشہر ہوگیا ،باقی زندگی انہوں قصور شہر ہی میں بطور کیبن میں گزاری ۔میری والدہ ( ہدایت بیگم ) کے نانا نور خان گڑگاؤں کے ریلوے اسٹیشن پر پھاٹک والے کی حیثیت سے ملازم تھے اور وہیں ریٹائر ہوکر ابدی نیند سو گئے۔

میرے والد ( محمد دلشاد خان لودھی ) کو میری پیدائش کے دن یعنی25 دسمبر 1954ء کو ریلوے میں بطور کانٹے والا ملازمت ملی ۔ اس اعتبار سے مجھے والدین کے لیے خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے،میرے والد پریم نگر، قلعہ ستار شاہ اور واں رادھا رام (حبیب آباد ) سے ہوتے ہوئے 1964ء میں لاہور چھاونی آبسے ۔ کانٹے والے سے ترقی کرکے وہ شنٹنگ پورٹر بنے پھر کچھ عرصہ بعد انہیں کیبن بنادیا گیا۔ ریٹائرمنٹ سے چند سال پہلے انہیں یارڈ فورمین کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔میرا سب سے بڑا بھائی ( محمد رمضان خان لودھی ) ٹربل شوٹر کی حیثیت سے پہلے ریل کار شیڈ میں، بعد میں انہیں الیکٹرک انجن شیڈ میں تعینات کردیا گیا ۔ میرے چچا ( رحمت خاں لودھی ) کی ساری زندگی ریلوے میں کانٹے والا اور کیبن مین کی حیثیت سے گزری ۔ریٹائر ہوتے ہی وہ بھی ساہیوال سے ملتان کو جانے والی ریلوے لائن کے قریب واقع قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔میرے چھوٹے بھائی (محمد ارشد خان لودھی ) نے ریلوے میں پھاٹک والے کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا لیکن فالج کی بنا پر وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لی ۔مجھ سے بڑے بھائی ( محمد اکرم خان لودھی ) گرمیوں کے موسم میں کچے پانی والے کی حیثیت سے ریلوے میں ملازم ہوئے ۔لیکن چند دنوں بعد ہی انہیں ٹائیفائیڈ بخار نے آ گھیرا اوران کی جگہ والدین نے لاہور چھاونی ریلوے اسٹیشن پر رکنے والی ٹرینوں کے مسافروں کو پانی پلانے کا فریضہ مجھے سونپ دیا ۔اس زمانے میں بذریعہ ٹرین دور دور سے لاہور میں دودھ فروخت کرنے کے لیے بذریعہ ٹرین لاہور چھاونی آیا کرتے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر اور اے ایس ایم کے لیے دودھیوں سے مفت دودھ لینا اور ان کے گھر پہنچانے کی ذمہ داری بھی میری تھی ۔بلکہ ریلوے افسران کے لیے دودھی جتنا دودھ مجھے دیتے ، اتنا ہی پانی اپنے دودھ میں ڈال لیتے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پانی ملا دودھ ہی لاہور کے تمام ہوٹلوں میں ہر جگہ فروخت کردیا جاتاتھا ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے خاندان کے خون میں ریل سے محبت رچی بسی ہے ۔ہمارے خاندان کے زندہ افراد کے گھر ریلوے لائن سے اتنے ہی دور ہیں، جہاں چلتی ہوئی ٹرین کی مدھر آواز آسانی سے سنی جاسکتی ہو اور انجن کا ہارن ( بطور خاص اسٹیم انجن کی کوک) سننے کا اپنا ہی نشہ ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ریلوے پہلے تو واقعی جادو نگری تھی لیکن اب اندھیر نگری کا روپ دھار چکی ہے ۔میرے والد نے ایک مرتبہ محکمہ ریلوے سے قرض کی درخواست کی ۔ چونکہ اس وقت ان کی ماہانہ تنخواہ صرف 80روپے تھی اس لیے ان کے لیے 500روپے بطور قرض منظور کیے گئے ۔جب قرض ملنے کی نوبت آئی تو پانچ سو کی بجائے تین سو روپے کی ادائیگی ہوئی ۔ باقی رقم ڈی ایس لاہور کے رشوت خور کلرکوں نے آپس میں بانٹ لی۔ ریلوے پر "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والا مقولہ صادق آتا ہے۔ جس محکمے میں مرنے والے ملازمین کے بقایا جات میں سے بھی بے رحمی سے کٹوتی کرلی جاتی ہے اس محکمے سے نیکی اور اچھے برتاؤ کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔

ایک واقعہ میں یہاں ضرور درج کرنا چاہتا ہوں اس واقعے کا گواہ میں خود ہوں ۔ غالبا یہ 1987ء کی بات ہے میرے والد کو اچانک فالج کا موذی مرض لاحق ہو گیا چونکہ ان دنوں وہ یارڈ فورمین کی حیثیت سے لاہور اسٹیشن پر تعینات تھے، اس لیے انہیں لاہور یارڈ میں چل پھر کر ٹرینوں کے ساتھ بوگیوں کو لگانے اور اتارنے کے کام کی نگرانی کرنی تھی ۔جب تک وہ صحت مند رہے ،یہ فریضہ انجام دیتے رہے لیکن جیسے ہی بیماری نے بے حال کردیا تو وہ چارپائی سے اٹھ کر چلنے سے بھی عاجز ہوگئے ۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی چھٹی کی درخواست مجھے دے کر کہا بیٹا تم اے ٹی او یارڈ کے آفس جاؤ اور وہاں تمہیں جمال دین صاحب ملیں گے۔ ان کو میرا سلام کہنا اور بتانا کہ والد صاحب کو فالج ہو گیا ہے ۔اس لیے مہربانی کرکے انہیں دو چار دن کی چھٹی دے دیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھے نصیحت آمیز لہجے میں کہا کہ اگر اے ٹی او صاحب چھٹی کی درخواست کو قبول نہ کریں تو کچھ دیر بعد گولڈ لیف سگریٹوں کی ڈبی ان کے سامنے رکھ دینا ۔ امید ہے چھٹی منظور کرلیں گے ۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ اے ٹی او جمال صاحب لاہورچھاونی کے ریلوے کوارٹروں میں رہتے تھے، جہاں ہم بھی رہتے تھے ۔اس لیے بالمشافہ طور پر بھی میں ان سے واقف تھا بلکہ جب وہ کوارٹروں کے اکلوتے نلکے سے پانی بھرنے کے لیے آتے تھے تو میں بھی وہاں بالٹی پکڑ کے کھڑا ہوتا ۔اس لیے روز نہیں تو دوسرے دن ان سے ملاقات یقینی ہو جاتی تھی ۔

بہرحال میں درخواست لے کر میں اسسٹنٹ ٹریفک آفیسر کے دفتر جا پہنچا اورسلام کر کے سامنے بینچ پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ کے والد صاحب آج ڈیوٹی پر کیوں نہیں آئے؟ میں نے درخواست دیتے ہوئے کہا انکل وہ بیمار ہیں ،ان پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے۔ اس لیے انہوں نے چھٹی کی درخواست بھیجی ہے ۔اے ٹی او جمال دین صاحب نے عینک اتار کر میری جانب غصے سے دیکھا اور درخواست مجھے واپس کرتے ہوئے فرمایا چھٹی نہیں مل سکتی ۔وہ خود یہاں آئیں ۔ میں نے کہا انکل اگر وہ یہاں تک آنے کے قابل ہوتے تو ڈیوٹی پر ہی کیوں نہ آ جاتے ۔میری اس بات پر بھی وہ راضی نہ ہوئے ۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے اپنی جیب گولڈ لیف سگریٹ کی ڈبی نکالی اور اے ٹی او جمال دین صاحب کے سامنے رکھ کر کہا انکل والد صاحب نے یہ سگریٹ آپ کے لیے بھیجے تھے ۔سگریٹ کی ڈبی دیکھتے ہی ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے انہوں مسکراتے ہوئے کہا خاں صاحب نے یہ تکلف کیوں کیا ۔اس کے ساتھ ہی درخواست چھٹی کی درخواست میرے ہاتھ سے لے کر دستخط کردیئے اور چھٹی منظور کرلی ۔

ایسا ہی واقعہ چند دن بعد مجھے میڈیکل آفیسر کے ساتھ پیش آیا ۔ میڈیکل آفیسر کا اصرار تھا کہ اگر میڈیکل چھٹی لینی ہے تو اپنے والد کو اپنے ساتھ لے کر آئیں ۔میں نے کہا سر وہ موٹرسائیکل پر بیٹھ نہیں سکتے ، فالج کی وجہ سے ایک جانب جھک جاتے ہیں ،ان کا علاج ہو رہا ہے۔ جیسے ہی وہ بائیک پر بیٹھنے کے قابل ہوئے، میں انہیں آپ کے پاس لے آؤں گا ۔بہت مشکل سے انہوں میڈیکل چھٹی دی ۔ چھٹی کے ساتھ ساتھ ان کی ملازمت کا مقررہ وقت بھی پورا ہو چکا تھا اور وہ ہمیشہ کے لیے ریلوے کو خیرباد کہہ کر اپنے گھر تک محدود ہوگئے ۔1994ء میں ان کا انتقال ہوا لیکن ریلوے کے کلرکوں اور افسران کے سوقیانہ رویے نے ان کے دل پر گہرے زخم لگے جو کبھی مندمل نہ ہو سکے ۔

ایک اور واقعہ میری والدہ کی پنشن کے حوالے سے ہے ۔والد صاحب کی وفات کے بعد میری والدہ کو چھ سو روپے پنشن ملتی تھی ۔یہ چھ سو روپے ہی ان کی زندگی کا بہترین اثاثہ تھے۔ بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ پنشنروں کی پنشن میں بھی اضافے کا اعلان کیا گیا ۔جو یقینا میری والدہ کے لیے بڑی خوش خبری تھی ۔ میری والدہ کو پنشن لاہور کینٹ اسٹیشن سے ملتی تھی ۔ایک شام میں حسب معمول اپنے دفتر سے واپسی پر والدہ کے گھر جاپہنچا تو والدہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تومجھ پر سکتہ طاری ہوگیا ۔خدا خیرکرے کوئی مسئلہ ضرور ہے جس نے میری والدہ کو غمگین کررکھا ہے۔گھر کے برآمدے میں رکھے ہوئے صوفے پر والدہ بیٹھی ہوئی تھیں ، میں بھی سلام کرکے ان کے قریب بیٹھ گیا اور پریشانی کی وجہ پوچھی ۔ انہوں نے کہا بیٹا جتنے پنشرز لاہور کینٹ کے اسٹیشن ماسٹر سے پنشن لیتے ہیں ان کی پنشن میں سو روپے کا اضافہ ہوگیا ہے جس کا حکومت نے بجٹ کے موقع پر اعلان کیا تھا لیکن مجھے اتنے ہی پیسے ملے ہیں جتنے پہلے ملتے تھے ۔ میں نے اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر والدہ کے ہاتھ میں رکھا اور کہا ماں جی یہی سمجھیں یہ سو روپے آپ کے پنشن والے ہیں ۔آپ اپنے آنسوپونچھیں ۔ جب تک میں زندہ ہوں آپ کو سو روپے کا اضافہ مزید دیتا رہوں گا۔والدہ نے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کیے اور کہا بیٹا سو روپے کی بات نہیں ہے ۔جب دوسرے پنشرز کی پنشن میں اضافہ ہوگیا ہے تو میری پنشن میں کیوں اضافہ نہیں ہوا ۔مجھے اس بات کا غم ہے ۔میں نے کہا امی جان آپ فکر نہ کریں میں کل چھٹی لیکر ڈی ایس آفس جاؤں گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی پنشن کی رقم میں بھی اضافی روپے شامل ہو جائیں گے ۔قصہ مختصر میں دوسرے دن ڈی ایس آفس جا پہنچا ۔وہاں سنیئراکاؤنٹس آفیسر سے ملا اور اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔میں نے کہا ہمارے دفتروں میں تو حکومتی اضافہ خود بخود تنخواہوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ ریلوے واحد محکمہ ہے جہاں ان پنشروں کی ماہانہ پنشن میں حکومتی اضافہ شامل نہیں کیا جاتا بلکہ اتنی ہی رقم بطور رشوت طلب کی جاتی ہے۔ میری والدہ اس حوالے سے سخت پریشان ہے ۔اکاؤنٹس آفیسر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ کلرک کو بلانے کے لیے اپنا چپڑاسی بھیجا۔ کچھ دیر بعد وہ یہ پیغام لے کر واپس آیا کہ وہ کلرک چھٹی پر ہے ۔اکاؤنٹس آفیسر نے مجھے دوسرے دن آنے کے لیے کہا ۔ جب میں دوسرے دن وہاں پہنچا تواکاونٹس آفیسر نے متعلقہ کلرک کو بلا کر ڈانٹ ڈپٹ کی اور فوری طور پر پنشن میں اضافے کا لیٹرتیار کرکے لانے کے لیے کہا ۔آدھے پونے گھنٹے بعد پنشن میں اضافے کا لیٹرتیار ہوکر دستخطوں کے لیے آگیا ۔ اکاؤنٹس آفیسر نے اس لیٹر پر دستخط کیے اور خط مجھے دے دیا۔ میں خوشی خوشی والدہ کے گھر پہنچا اور انہیں فخریہ انداز میں بتایا کہ امی جان آپ کی پنشن میں بھی حکومتی اضافہ لگ گیا ہے ۔یہ اس کا لیٹر آپ کے سامنے ہے ۔ امی جان خوش تو بہت ہوئیں لیکن انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا بیٹا بغیر رشوت کے تم لیٹر کیسے لے آئے ہو ، میں نے کہا امی جان میں اکاونٹس افیسر سے ملا تھا اور اسے کہا تھا کہ سو روپے اپنی میں جیب سے دیتا ہوں لیکن میری والدہ کو پریشان نہ کیا جائے ۔اکاونٹس افیسر نے مجھ سے سو روپے لینے سے انکا ر کردیا۔دوسرے دن میرا چھوٹا بھائی وہ لیٹر لے کر لاہور کینٹ کے اسٹیشن ماسٹر شیر علی کے پاس پہنچا اور وہ لیٹر ان کے سامنے رکھ کر میری والدہ کی پنشن میں اگلے مہینے اضافہ کردیں ۔لیٹر پڑھنے اور الٹ پلٹ کرکے دیکھنے کے بعد شیرعلی نے کہا اس پر ایک امپوز( ابھری ہوئی مہر) بھی لگی ہوتی ہے وہ نہیں لگی ۔جب تک وہ نہ لگے ۔پنشن میں اضافہ نہیں ہوسکتا ۔شام ڈھلے میں پھر والدہ کے گھر پہنچا تو والدہ نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ ڈی ایس آفس کے کلرک رشوت کے بغیر پنشن میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے ۔تم جو لیٹر لیکر آئے ہو اس پر امپوز مہر ہی نہیں لگی ہوئی ۔وہ لیٹر لیکر میں اپنے گھر آگیا اور ساری رات سوچتا رہا کہ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ ریلوے اندھیر نگر ی ہے ۔اس کی دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں ۔اگلی صبح میں پھر ڈی ایس آفس جا پہنچا اور اکاونٹس آفیسر کو مہرلگانے کی درخواست کی ۔ اس نے گھنٹی بجائی تو چپڑاسی یہ پیغام لے کر واپس آیا کہ متعلقہ کلرک اپنی سیٹ پر موجود نہیں ،کہیں باہر نکلا ہوا ہے ۔اکاونٹس افیسر نے کہا اس کے دراز سے امپوز مہرنکال کر لاؤ ۔چپڑاسی نے آکر بتایا سر دراز کو تالا لگا ہوا ہے ۔میں نے اکاونٹس آفیسر کو مخاطب کرکے کہا سر آپ نے دیکھا کہ آپ کا ماتحت عملہ کس قدر خود غرض اور رشوت خور ہے ۔یہ لوگ بیوہ عورت کی پنشن میں بھی رشوت لیے بغیر حکومتی اضافہ نہیں لگاتے ۔اکاونٹس آفیسر کو غصہ آیا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر کلرک کے کمرے میں جا پہنچا،وہاں عجیب ہی منظر نظر آیا وہاں دو تین اور افراد موجود تھے، سب نے اپنی ٹانگیں میز پر رکھ کر نیم غنودگی کی حالت میں سو رہے تھے ۔اکاونٹس افیسر کو دیکھ کر سب احتراما کھڑے ہوگئے ۔اکاونٹس افیسر نے پوچھا مہر کہا ں ہے ۔انہوں نے بتایا سر اس دراز میں بند ہے ۔اکاونٹس افیسر نے کہا دراز کو توڑ کر مہر نکالو ۔جب مہر نکل آئی تب لیٹر لگا دی گئی ۔اکاونٹس آفیسر نے مجھ سے معذرت کی کہ آپ کو اس وجہ سے زحمت اٹھانا پڑی ۔میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا سر یہ ساری صورت حال آپ کے سامنے ہے ۔ڈی ایس آفس کے کلرک حقیقت میں بادشاہ ہیں ، جو مرنے والے کا کفن بھی اتارنے سے باز نہیں آتے۔

واقعات تو بیشمار ہیں ، اس وقت انہی پر میں اکتفا کرتا ہوں ۔میں ریلوے کے ہر دلعزیز وزیر خواجہ سعد رفیق صاحب کے یہ تمام باتیں اس لیے گوش گزار کررہا ہوں کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ محکمے سے رشوت اور بے انصافی ختم کرسکتے ہیں ۔انہیں اپنی نگرانی میں ایک ایسا ادارہ بنانا پڑے گا جہاں ریلوے کے رشوت خور کلرکوں کے ستائے ہوئے ملازمین داد رسی کے لیے درخواست دے سکیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 671221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.