گمراہی کے بڑھتے راستے۔۔علماء آگے آئیں

اپنوں سے توہم دورہوچکے ہیں اب آہستہ آہستہ ہم دین سے بھی دورہوتے جارہے ہیں۔آج ہمارے ایک دونہیں اکثرطورطریقے اسلامی تعلیمات اورخدائی احکامات سے بھی باالکل متصادم ہیں لیکن پھربھی ہم انہیں ایسے سرانجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی فرض یاواجب ہوں۔پہلے توایسانہیں ہوتاتھا۔معلوم نہیں اب ہمیں کیاہوگیاہے۔؟کہ ہم اس قدرسرپھرے ہوگئے ہیں۔پہلے توماتم والے گھرمٹن،چکن اوربریانی پراس طرح دانت گرم نہیں کئے جاتے تھے پتہ نہیں ہماری بھوک بڑھ گئی ہے یاپھرہم انسانیت سے عاری و خالی ہوگئے ہیں۔ان ہی گاؤں اوردیہات میں یہ ماتم توپہلے بھی ہوتے تھے لیکن ماتم والے گھر،گاؤں اوردیہات میں شادی والے یہ مناظرتوپہلے کبھی نہ تھے۔پہلے جس گھرمیں ماتم ہوتاتھااس گھرمیں پھررونے،دھونے،چیخنے اورچلانے کے سواکوئی دوسراکام ہی نہیں ہوتاتھالیکن اب۔؟آج دعوت کس کی ہے۔؟کھانے میں انہوں نے کیاپکایاہے۔؟بریانی کہاں ہے۔؟ساتھ روسٹ اورکباب ہے کہ نہیں۔؟فروٹ اورکوک کی بوتلیں کدھر ہیں۔؟واﷲ ماتم والے گھروں میں یہ حرکتیں دیکھ کردل پھٹنے لگتاہے۔پیٹ کوسرپررکھ کرپھرنے والوں کوکیااس چیزکابھی کوئی احساس نہیں کہ ماتم والے گھرکسی ماں،کسی بہن،کسی بیٹی،کسی باپ،کسی بھائی اورکسی شوہرکاانتقال ہوگیاہے۔کیا۔؟جس کی ماں،بہن،بیٹی،شوہر،باپ یاکوئی بھائی فوت ہواہوان کے حلق سے روٹی کاایک نوالہ بھی پھر نیچے اترتاہے۔؟جن کے منہ میں خون ہی خون اورآنکھوں میں آنسوہی آنسوہوں ان کوکیاروٹی کی کوئی پرواہ ہوتی ہے۔؟جن کے غم،دکھ اوردردکی خاطرماتم والے گھرآگ وچولہاجلانے سے منع کیاگیاان کے غم ،دکھ اوردردکی توکسی کوکوئی فکراورپرواہ نہیں ہوتی لیکن اپنے پیٹ کے جہنم کوبھرنے کے لئے ہرکوئی سرگرداں رہتاہے۔جنازے ،کفن دفن کااتناخیال نہیں ہوتاجتنی دیگ اورہانڈیوں پرنظریں ہوتی ہیں۔کسی نے ٹھیک ہی تو کہاکہ آج کے دورمیں ماتم والے گھرسے میت کندھوں پہ بعد میں اٹھتی ہے دیگ میں چمچے پہلے کھڑک جاتے ہیں۔لواحقین کی دھاڑیں کم نہیں ہوتیں کہ ''مصالحہ پھڑا اوئے'' کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں۔غم والم میں ڈوبنے والوں کی آنکھوں میں آنسو خشک نہیں ہو پاتے کہ عزیز و اقارب کے لہجے یہ کہتے ہوئے کہ چاولوں میں بوٹیاں بہت کم ہیں پہلے ہی خشک ہو جاتے ہیں۔قبر پر پھول سجتے نہیں کہ کھانے کے برتن سج جاتے ہیں ۔ فلاں نے روٹی دی تھی تو کیا غریب تھے جو دو کلو گوشت اور ڈال دیتے۔'' مرنے والا تو چلا جاتا ہے لیکن یہ کیسا رواج ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لئے آنے والے اس کی یاد میں بوٹیوں کو چَک مارتے دیگی کھانے کی لذت کے منتظر ہوتے ہیں۔؟ یہ کیا طریقہ ہے کہ جنازے پر بھی جاؤ تو ''روٹی کھا کے آنا؟'' قرب و جوار کی تو بات ہی نہ کریں۔ دور سے آئے ہوؤں کو بھی چاہیے کہ زیادہ بھوک لگی ہے تو کسی ہوٹل سے کھا لیا کریں۔ماتم والے گھرجانے والے جنازے پرجاتے ہیں کسی شادی یاختم وخیرات پرنہیں کہ انہیں وہاں مٹن،چکن اوربریانی سے لازمی اپنے دانتوں کوگرم کرناپڑے گا۔پہلے زمانے میں مرنے والے لواحقین کوچپکے سے کسی قریبی گھرمیں لے جاکرزورزبردستی انہیں کھاناکھلادیاجاتاتھالیکن اب۔؟میت اٹھتے ہی اسی ماتم والے گھرمیں دسترخوان بچھاکریہ اعلان کردیاجاتاہے کہ جس جس نے کھانانہیں کھایاوہ دسترخوان پرآجائیں۔یہ کونساطریقہ اورکہاں کی انسانیت ہے کہ سامنے مرنے والے کے لواحقین غم والم کی چادراوڑھے آنسوپونجھ رہے ہوتے ہیں اورپاس ان کے دکھ ،درداورغم کوبانٹنے کے لئے آنے والے مٹن،چکن،بریانی،روسٹ،کباب،گرم وٹھنڈاسے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ماتم والے گھروں میں دعوتی کھانوں کے ذریعے اپنے جہنم بھرنے والوں نے کیایہ کبھی سوچاہے کہ دکھ،درداور غم کے دریامیں سرسے پاؤں تک ڈوبے مرنے والے کے جن لواحقین کے سامنے یہ روسٹ،کباب اورفروٹ سے کھیل رہے ہیں ان کے اس کھیل کودیکھ کران لواحقین پراس وقت کیاگزررہی ہوگی۔؟ماناکہ کھاناپیناایک انسانی ضرورت ہے۔یہ بھی ماناکہ اس کے بغیرکوئی چارہ اورسہارانہیں لیکن یہ کونسی انسانیت ہے کہ سامنے ایک شخص اپنی ماں،باپ،بہن،بیوی،شوہر،بیٹی اوربھائی کے غم میں خون کے آنسوبہارہاہواورآپ اس کے سامنے مٹن،چکن اوربوٹیوں سے کھیلیں۔یہ کھاناتواپنے گھرمیں بھی کھایاجاسکتاہے،کسی رشتہ دارکے گھربھی تواپنے اس جہنم کوبھراجاسکتاہے۔کیاماتم والے گھریامرنے والے کے لواحقین کے سامنے پیٹ بھرکرکھانایہ کوئی فرض یاقرض ہے۔؟اگرفرض ہے توپھرآپ ایک نہیں ہزاربارکھائیں لیکن اگرکوئی قرض ہے توخداراآج سے اس قرض کومعاف کردیں۔یہ نہ کوئی اسلام ہے اورنہ ہی کوئی انسانیت۔آپ اگرکسی کے غم کوہلکانہیں کرسکتے توخداکے لئے اس غم کوبھاری بنانے کاباعث بھی نہ بنیں۔شہرہوں ،گاؤں یادیہات۔ماتم پراب ہم نے یہ جوطورطریقے پکڑے ہیں یہ کسی بھی طورپرہمارے شایان شان نہیں۔ہم نہ صرف انسان بلکہ مسلمان بھی ہیں اورمسلمان کاکام کسی کے زخموں پرنمک چھڑکنانہیں بلکہ ان زخموں پرمرہم رکھناہوتاہے۔ماتم والے گھردسترخوان بچھاکراس پرہزارقسم کے کھانے سجانایہ غم بانٹنانہیں،کسی کے دکھ،درداورغم میں شریک ہونایہ ہے کہ آپ اس کونہ صرف گلے بلکہ دل سے لگائیں،اس کے غم کواپنے دل میں ایسامحسوس کریں کہ جیسے اس کانہیں آپ کاکوئی بچھڑگیاہو ۔ آپ گھنٹوں تک بوٹیوں سے کھیلنے کی بجائے پانچ دس منٹ کے لئے اگراس کے پاس بیٹھ کراس کے غم میں شریک ہوجائیں تواس سے نہ صرف ان کاغم کچھ ہلکاہوگابلکہ آپ کواس کاجروثواب بھی ملے گا۔پہلے یہ ساری باتیں علمائے کرام بتایاکرتے تھے ۔گاؤں ودیہات کاتونظام ہی مولوی صاحب کے مشوروں اوراشاروں پرچلتاتھالیکن اب لگتاہے کہ ہمارے علمائے کرام کے مشورے اوراشارے بھی کہیں صرف نمازاورروزوں تک محدودہوکررہ گئے ہیں ورنہ گاؤں اوردیہات کاکم ازکم یہ حال تو نہ ہوتا۔رسم ورواج یہ کوئی سنت ہے اورنہ کوئی فرض ۔پھررسم پررسموں کوجنم دینایہ توگناہ سے بھی بڑاگناہ ہے۔جوبھی چیزاسلامی تعلیمات اورخدائی احکامات سے متصادم ہوں چاہے وہ کوئی رسم ورواج ہی کیوں نہ ہواسے چھوڑنامسلمانوں پرفرض ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارا معاشرتی نظام ہی ان فضول قسم کی رسم ورواجوں کی لپیٹ میں آ جائے ہمیں ابھی سے ان کے خاتمے کے لئے آگے بڑھناہوگا،اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری ہمارے علمائے کرام،آئمہ مساجداورخطباء کی بنتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات واحکامات کے مطابق عوام میں شعورپیداکرکے معاشرے کواس طرح کی فضول رسموں اوررواج سے پاک کرنے کے لئے اپناکلیدی کرداراداکریں۔جوکام گاؤں اوردیہات کاایک امام اورخطیب صاحب کرسکتاہے وہ کوئی اورنہیں کرسکتا ۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ معاشرے کے سدھارنے میں ایک مولوی کاجوکردارہے وہ کسی اورکانہیں ہوسکتا۔ہمارے علمائے کرام اگرآنکھیں بندکرکے مساجدکے کونوں میں صرف اﷲ اﷲ کرکے بیٹھیں گے توپھراس ملک اورمعاشرے کواس قسم کی فضول رسموں اورخودساختہ رواجوں سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔اس لئے عوام کودنیاوآخرت دونوں کی تباہی اوربربادی سے بچانے کے لئے ہمارے علماء کوآگے آناہوگاتاکہ معاشرے کواس طرح کی حرکتوں،رسم رواج سے پاک کیاجاسکے ۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 211 Articles with 134221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.