کیا آپ بھی سوشل میڈیا کا استعمال اس انداذ میں کر کے گنہگار تو نہیں ہو رہے؟

"سوشل میڈیا" آج کل ہماری اور آپ کی زندگیوں میں ہوا اور پانی کی سی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ قطع نظر اس کے فوائد کے جو بلا شبہ بے شمار ہیں، میں آج آپ کے سامنے اس کا سب سے بڑا منفی اور حساس پہلو واضح کرنے جا رہی ہوں وہ یہ کہ اس نے ہر ذی شعور انسان کو ایک نئ قسم کی آذادی سے روشناس کروایا ہے، جسے کچھ کچے اور شیطانی سوچ رکھنے والے نہایت غیر ذمہ دارانہ طور پر استعمال کرتے ہوۓ دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرتے ہیں۔ جی ہاں! ایسی آذادی کہ جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کہہ دیتا کوئ وڈیوز کا سہارا لیتا ہے تو کوئ انسٹا گرام یا فیس بک پر پوسٹس بھیج کراپنا مقصد پورا کرتا ہے، اور کوئ Whatsapp messages کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔ کمال بات ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا کوئ بھی platform استعمال کرتے ہوۓ یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ اس ضمن میں ہمیں social responsibility کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیۓ۔

اگر میں غلط نہیں تو میرے ساتھ آپ سب نے بھی یہ نوٹس کیا ہو گا کہ عوام کی اکثریت سوشل میڈیا platforms کو یا تو کسی کو defame (بدنام) کرنے کے لۓ استعمال کرتی ہے یا کسی کی character assassination (کردار کشی) کے لۓ۔ صرف لوگ انہی خرافات میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر رہے بلکہ کہیں لوگ اسی سوشل میڈیا کو rumors (افواہیں) پھیلانے کے لۓ بہترین tool سمجھتے ہیں تو کہیں عوام الناس اسے propaganda کے لۓ استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی نظر آتی ہے۔

ایک نہایت اہم اور غور طلب بات جس سے آپ بھی اتفاق کریں گے وہ یہ ہے کہ جب بھی ہمیں کوئ forwarded message موصول ہوتا ہے تو ہم اسے verify کۓ بغیر آگے بھیجتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چاہے کسی مشہور شخصیت سے متعلق ہو، کوئ آیت، حدیث یا کوئ بھی تاریخی یا اسلامی content۔ ہم اس کی authenticity کی جانچ کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ content درست بھی ہے یا نہیں، حدیث مستند ہے یا آیت کا ترجمہ صحیح کیا گیا ہے یا نہیں۔ باکل اسی طرح کا معاملہ پیش آتا ہے جب ہمیں کوئ مواد social topic پر حاصل ہو یا کسی بھی بیماری یا وباء سے تعلق رکھتا ہو، تو ہم بغیر تحقیق کے اسے genuine جانتے ہوۓ اپنے دوستوں اور جاننے والوں تک پہچانا 'فرض' سمجھتے ہیں اور بلا جھجھک forward کرنا شروع کردیتے ہیں۔

بظاہر معمولی نظر آنے والا ہمارا یہ عمل نہ صرف ہمیں ایک غیر ذمہ دار شہری بناتا ہے بلکہ ہم گناہ کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ حیران ہوں نہ پریشان، میں اس کی وضاحت کے لۓ بڑی ذبردست حدیث پیش کرونگی:
فرمایا رسول کریمؐ نے "کافی ہے آدمی کے گنہگار ہونے کے لۓ یہ کہ وہ بیان کر دے ہر سنی سنائ بات کو۔" (صحیح مسلم، 18:1547)

اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوۓ ذرا اپنی زندگیوں اور معمولات کا محاسبہ کرنے کی ہمت و سعی تو کیجیۓ، ہم سب ہی اپنے آپ کو اس سنگین گناہ کا ارتکاب کرتا پائیں گے۔

اس سارے scenario میں بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے ہم پرسب سے اہم ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کریں مگر نہایت سوچ سمجھ کر۔ میں اپنے تمام معزز، باشعور قارئین سے گذارش کرنا چاہونگی کہ جب کبھی آپ کے پاس کوئ forwarded message آۓ تو اسے شیئر کرنے سے پہلے مہربانی فرما کر اسکی جانچ و تحقیق کر لیں کہ جو معلومات آپ اپنے پیاروں کو بتانا یا پہنچانا چاہ رہے ہیں وہ کس قدر درست ہے۔ اگر وقت کی کمی یا مصروفیات کے باعث آپ یہ محنت طلب کام نہ کر پائیں تو پلیز شیئر یا forward کرنے سے ہی گریز کر لیں تاکہ ہم اپنے آپ کو ایک بڑے گناہ سے بچا سکیں۔
 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 36 Articles with 30438 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More