جمعہ نامہ: گردشِ شمس و قمر میں امنِ عالم کا درسِ عبرت

قرآن حکیم کے نزول سے قبل اور بعد میں ایک طویل عرصہ تک عوام وخواص کے نزدیک چاند اور سورج میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔ ان دونوں کو روشنی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے گلیلیو نے جب یہ دعویٰ کیا کہ ایک زمین کے گرد گردش کرتا اور دوسرے کے گرد زمین گردش کرتی ہے تو ہنگامہ ہوگیا۔ چرچ کے ذریعہ اس سائنسی حقیقت کی مخالفت کی اور اس کے ردعمل میں جنم لینے والی مذہبی بیزاری تاریخ کا حصہ ہے۔ قرآن حکیم نے گردشِ آفتاب و ماہتاب کو دن اور رات سے جوڑ کر فرمایا:’’ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘۔ یعنی لیل و نہار کا سلسلہ ان کے اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے کےسبب جاری و ساری ہے ۔اس سے آگے بڑھ کر کتابِ حق عالمِ انسانیت سے سوال کرتی ہے: ’’ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے۔ اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟‘‘۔

آفتاب و ماہتا ب کے لیے استعمال ہونے والی یہ مختلف اصطلاحات اپنے اندر معنیٰ و مفہوم کا ایک سمندر رکھتی ہیں۔ شمس و قمر کے درمیان محض ان کے مدار کا فرق نہیں بلکہ ان کی ساخت بھی یکسر مختلف ہے۔ ایک محض روشنی اور دوسرا روشن چراغ ہے۔ یہاں سورج کے لیے ”سراج“ یعنی چراغ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاند کو صرف روشن بتایا گیا ہے۔ سائنسی ایجادات نے آگے چل کر یہ انکشاف کیا کہ سورج کے اندر جلنے یا تحریق combustion کا عمل جاری ہے ۔اس کے سبب اس میں توانائی پیدا ہوتی ہے یعنی وہ روشنی کے ساتھ ساتھ حرارت کا منبع بھی ہے۔ارشادِ حق ہے:’’ اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایا‘‘۔

سورج اور چاند میں یہ فرق ہے کہ اوالذکر کی روشنی سے نباتات کاربن ڈائی آکسائڈ سے اپنے لیے غذا بناتے ہیں اور انسانوں کے سانس لینے کی خاطر آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ چاند کی روشنی میں یہ عمل ساکت ہوجاتا ہے اور پیڑ پودے بھی انسانوں کی مانند آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑنے لگتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں سورج کے ساتھ اس کی تمازت کی قسم کھاکر اسے گواہ بنایا گیا ہے جبکہ چاند کو اس کے پیچھے طلوع ہونے والا بتانے پر اکتفاء کیا گیا۔ ماہرین فلکیات اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چاند محض سورج کی روشنی کے انعطاف reflection کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے اور اس میں کسی قسم کا عمل تحریق نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید کے اندر ان دونوں کے لیے مختلف اور منفرد الفاظ کا استعمال اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

شمس و قمر کی گردش سے جنم لینے والے لیل و نہار کو بھی اللہ کی کتاب انسانی ہدایت کی خاطر ایک آیت کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ فرمانِ ربانی ہے:’’ اِن کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اُس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو اِن پر اندھیرا چھا جاتا ہے‘‘۔ یہ کتاب الٰہی کی فصاحت و بلاغت ہے کہ دن کے ہٹنے کو رات کا آنا نہیں کہا گیا بلکہ اس کی آمد سے اجالے کےاندھیرے میں بدل جانے کا ذکر فرمایا گیا ۔ آگے گردشِ شمس و قمر کی نہایت خوبصورت منظر نگاری کے بعد فرمایا ’’نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘۔ کائناتِ ہستی میں صدیوں سے جاری و ساری اس سفر کے باوجود کوئی ٹکراو یا حادثہ نہیں ہوتا کیونکہ چاند اور سورج اپنے حدود سےکبھی انحراف نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس انسانی سماج میں اللہ کی قائم کردہ حدود کو پامال کرنے والے لوگ دوسروں کے مدار میں داخل ہوکرمعاشرے کا امن و امان غارت کردیتے ہیں۔ ملک و ملت کے اندر ٹکراو سے بچنے کی تدابیر کو ٹریفک کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
سڑک پر حادثات کو روکنے کی خاطرراستے کی مرمت ، ساری گاڑیوں کی یکسانیت یا سارے ڈرائیوروں یکساں مہارت ضروری نہیں ہے ۔ا ن امور میں اختلاف کے باوجود اگر ہرکوئی اپنے حدود کی پابندی کرتے ہوئے ٹریفک کے قوانین پر عمل کرے تو حادثے ٹل سکتےہیں ۔ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اگر دوسروں کے حقوق کا پاس و لحاظ کریں تو سکھ چین کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ انسانی زندگی حقوق اور ذمہ داریوں کے پہیوں پر چلتی ہے۔ اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجانا قابلِ تعریف عمل ہے۔ یہ ایثار و قربانی مخلص اہل ایمان کے لیے باعثِ اجر و ثواب بھی ہے لیکن دوسروں کی حق تلفی یا اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی قابلِ گرفت ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف سماجی سطح پر امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے بلکہ انسان دوسروں کاسکون غارت کرکے اپنا چین بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ اس لیے امن عالم کے قیام کی خاطر ہر فرد کا حدوداللہ کے اندر رہنا شرطِ اول ہے اور اگر کوئی اس کو پامال کرے تو اس کو روکنا اہم ترین ذمہ داری ہے ۔ اس کے بغیر یہ دنیا امن کا گہوار ہ نہیں بن سکتی ۔ گردشِ شمس و قمر میں یہ درسِ عبرت بھی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228862 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.