حجاز ہسپتال ایک نعمت غیر مترقبہ

جناب سہیل اقبال کی قیادت میں حجاز ہسپتال ہزاروں کی تعداد میں دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے
آرتھوپیڈک سپیشلسٹ ڈاکٹر آفاق صاحب نے اپنے بہترین طریقہ علاج سے میری بیگم کو نئی زندگی عطا کی
جناب راجہ افتخار اور جناب امیر بھٹی (وارڈ بوائے)حجاز ہسپتال کے بہترین سفیرہیں

حضرت موسی علیہ السلام نے خالق کائنات سے سوال کیا۔ اے میرے پروردگاراگر میں آپ سے دعا مانگوں تو کیا مانگوں ۔ رب کائنات نے فرمایا" اے موسی علیہ السلام صحت کی دعا مانگا کرو، کیونکہ صحت ہی سب سے بڑی دولت ہے ۔" انسان کو جب کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تب ہی صحت کی قدر کا احساس ہوتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بیماری آنے سے پہلے صحت کی قدر کرو ، غربت آنے سے پہلے خوشحالی کی قدر کرو، موت آنے سے پہلے زندگی کی قدر کرو ۔ ان باتوں کی سمجھ انسان کو اس وقت آتی ہے جب انسان کو خود ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے ۔یہ ستمبر کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ میری بیگم ( عابدہ اسلم ) صوفے سے اٹھ کر چلنے لگی تو یکدم چکر آیا اور وہ دائیں پہلو کی جانب زمین پر جاگری ۔جسم کا سارا بوجھ دائیں بازو پر پڑاتو بیگم کو اتنی تکلیف ہوئی کہ وہ چیختی چلاتی میرے پاس دوڑی ۔اس کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا کہ میرا بازو ٹوٹ گیا ۔ میرا بازو ٹوٹ گیا۔حسن اتفاق سے میں خود بھی انہی دنوں لوزموشن کی وجہ سے بیمار تھا ۔ چلنے پھرنے سے مجھے چکر آرہے تھے ،اس لیے نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جانا بھی میرے لیے محال ہو چکا تھا۔ایک طرف مجھ پر نقاہت کا عالم طاری تھا تو دوسری جانب بیگم صاحبہ کی حالت ہر لمحے بگڑتی جارہی ہے ۔بیگم کی تکلیف نے میری پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ۔ میرے دونوں بیٹے اپنے اپنے دفتر جا چکے تھے، وہ بے خبر تھے کہ ان کے والدین پر کیا گزر رہی تھی ۔میرے گھر کے قریب ہی ایک دوست راجہ معظم اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ، میں کسی نہ کسی طرح ان کے گھر تک پہنچا جب وہ میری دستک پر آنکھیں ملتے ہوا گھر سے باہر آیا تو میں نے انہیں بتایا کہ جلدی سے گاڑی نکالو میری بیگم کو کسی معالج کے پاس لے کرجانا ہے ۔

بہت مشکل سے بیگم کو سیڑھیاں اتار کرگاڑی تک پہنچایا۔ جب راجہ معظم صاحب نے گاڑی کا رخ صدر کی طرف موڑا تو میں نے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں ، راجہ معظم نے بتایا کہ صدر بازار میں ہڈیوں کا علاج کرنے والے کافی پہلوان موجود ہیں ،وہ مستند اور تجربہ کار بھی ہیں۔ وہاں سے یقینا بہتر علاج ہو سکے گا ۔ میں نے رضامندی کا اظہار کردیا۔ گاڑی تیز رفتاری سے سرور روڈ سے ہوتی ہوئی مال روڈ کراس کررہی تھی ، اسی اثناء میں نے اپنے چھوٹے بیٹے زاہد لودھی کو موبائل پر کال کرکے بتا دیا کہ تمہاری والدہ کو چوٹ لگی ہے ،اسے لیکر ہم صدر بازار آرہے ہیں ۔ چونکہ زاہد بیٹا بھی بنک آف پنجاب کی صدر برانچ میں ہی تعینات ہے۔ اس لیے وہ بھی یہ خبر سنتے ہی پریشان ہوگیا۔جیسے ہی ہم اسلامیہ ہائی سکول لاہور کینٹ کے ساتھ والی سٹرک پر مڑے تو پہلوانوں کی ایک لمبی قطار دیکھی ۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون اصلی ہے اور کون نقلی ۔ سب نے ہی اپنی دوکانوں پر کرمانوالہ کے بورڈ لگا رکھے تھے ۔ چلتے چلتے ہم ایک دوکان پر رکے تو اتنی دیر میں بیٹا زاہد بھی وہیں آپہنچا ۔ہمیں پریشان دیکھ کر اس کی بھی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔ ایسا کیوں نہ ہوتا ۔ ماں اور باپ کی محبت ہر بچے کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے ۔پیدائش سے بچپن تک اور لڑکپن سے جوانی تک ماں باپ ہی بچے کی نشو ونما کرکے اسے پروان چڑھاتے ہیں اس کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھ کر اس وقت تک سکون سے نہیں سوتے جب تک بچہ صحت یاب نہیں ہو جاتا ۔

پہلوان نے بیگم کے بازو کو بغور دیکھا اور فرمایا کہ ہڈی بچ گئی ہے لیکن جسم کا بوجھ پڑنے سے دب آگئی ہے ۔چند پٹیاں لگوائیں گے تو ان شاء اﷲ صحت یاب ہو جائیں گی ۔پہلوان نے پٹی تو کردی لیکن درد مسلسل پریشان کیے جا رہا تھا ۔میرے ایک دوست ڈاکٹر نے درد کو ختم کرنے والی ادویات لکھ دیں ،جسے فوری طورپر میڈیکل سٹور سے منگوا لیا گیا ۔حیرت کی بات تو یہ ہے درد ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ رات اور دن بے سکونی میں گزرے ۔ تیسرے دن پھر ہم راجہ معظم کی کار میں سوار ہوکر اسی پہلوان کے پاس پہنچے تو اس نے دوبارہ پٹی کرکے کہا اﷲ نے چاہا تو درد جلد ختم ہو جائے گا ۔ لیکن درد بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی ۔کا معاملہ چلتا ہی رہا۔

سچی بات تو یہ ہے ہم ڈاکٹروں سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ وہ چیک کرنے کے ہزاروں روپے مانگ لیتے ہیں اور کئی کئی مہینوں کے لیے پلستر چڑھا کر انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتے ۔جب میں بنک میں ملازمت کرتا تھا تو یہ سہولت حاصل تھی کہ مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر اور ہسپتال میں بھی علاج کروا سکتے تھے بلکہ میرے پانچ آپریشن ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے نیشنل ہسپتال اور کیولری ہسپتال میں ہوئے تھے ۔آپریشن کے تمام اخراجات بنک ادا کرتا رہا۔ جب سے ریٹائر ہوا ہوں اور اولڈ سیٹزن کا لیبل ہمارے ماتھے پر چسپاں ہوا ہے کوئی ہمیں سہولت دینے کو تیار نہیں ۔ افسو س تو اس بات کا ہے کہ میرے کتنے ہی دوست جو سرکاری اداروں سے ریٹائر ہوئے ہیں ان کو ریٹائرمنٹ پر لاکھوں روپے یکمشت مل بھی گئے اور کل تنخواہ کا پچھتر فیصد ماہانہ پنشن کی شکل میں تاحیات مل رہا ہے ۔کسی کو ایک لاکھ روپے پنشن مل رہی ہے تو کسی کو ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے ۔اس کے برعکس مجھے ریٹائر منٹ پر صرف میری ہی جمع شدہ گرایچویٹی اور پراوڈنٹ فنڈ ہی ملا ۔جبکہ پنشن کا نام و نشان نہ تھا ۔ 2014ء سے آج تک بغیر پنشن کے ہی گزار کررہا ہوں اور کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں ہے۔ہمارے ملک میں یہ بندر بانٹ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کسی کو تو سونے کے چمچے سے کھانا میسر ہے اور کوئی اپنی ادویات کو خریدنے کے لیے بھی اولاد کی منت سماجت پر مجبور ہے ۔

بہرکیف دو تین پٹیاں لگوانے کے بعد بھی درد کی شدت کم نہ ہوئی تو مجبورا ہم اپنے فیملی ڈاکٹر ذکااﷲ گھمن کے پاس گئے ۔انہوں نے وقتی طور پر درد میں کمی کی دوائی تو دے دی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ کسی ہڈی والے ڈاکٹر کو چیک کروانا بہت ضروری ہے ۔اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کریں ۔ ہڈی والے ڈاکٹر تو تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود ہیں لیکن ان کی فیس چار سے پانچ ہزار روپے ہے ۔اتنے پیسے ہم کہاں سے لائیں گئے ۔ بیٹے تو بمشکل گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ۔ جب بجلی کا بل آتا ہے کئی کئی دن تک لڑائی جھگڑا چلتا رہتا ہے کہ بل کون ادا کرے گا۔

بہت سوچ بچار کے بعد ہمیں یاد آیا کہ لاہور میں ایک ہسپتال ایسا بھی ہے جہاں دو سو روپے کی پرچی کے بعد تمام سپیشلسٹ ڈاکٹر مریضوں کو خود چیک کرتے ہیں اور بیشتر ادویات بھی اسی ہسپتال سے ملتی ہیں ۔دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے اس ہسپتال کا نام حجاز ہسپتال ہے اور یہ حفیظ سنٹر کے بالمقابل گلبرگ تھرڈ لاہور میں واقع ہے ۔ہم دونوں میاں بیوی بائیک پر سوار ہوکر حجاز ہسپتال جا پہنچے ۔راجہ افتخار صاحب جو ہسپتال کے ذمہ دار افسر ہیں جب بھی میں نے ان سے بات کی وہ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری بیگم کو ہڈیوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروانا ہے، اس کا طریقہ کار کیا ہے ۔ وہ اپنی نشست سے اٹھے اور ہمیں ساتھ لیکر اس کمرے میں جا پہنچے جہاں ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر (جن کا نام ڈاکٹر آفاق ہے )بیٹھتے ہیں ۔ ڈاکٹر آفاق ابھی تشریف نہیں لائے تھے لیکن وہاں موجود وارڈ بوائے امیر بھٹی نے ہمیں یہ کہتے ہوئے بیٹھنے کی ہدایت کی کہ ڈاکٹر آفاق گیا رہ بجے تشریف لائیں گے آپ کو ان کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ اس کمرے میں جو چھوٹے ڈاکٹر موجود تھے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیونکہ بیگم کے دائیں بازو پر نہ صرف سوجن کافی تھی بلکہ کچھ گہرے نشان بھی ابھرے ہوئے تھے۔ اس لیے چھوٹے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ چوٹ گوشت پر آئی ہے یا ہڈی پربھی کوئی مسئلہ ہوا ہے ۔ہم کمرے کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر ڈاکٹر آفاق کا انتظار کرنے لگے جو ٹھیک گیارہ بجے تشریف لے آئے ۔انہوں نے ایکسرا بھی دیکھا اور بیگم سے چند سوالات کیے اور نتیجہ یہ اخذ کیا کہ الحمد ﷲ ہڈی محفوظ ہے ۔جو بازو پر نشان ابھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہ اس میڈیسن کی وجہ سے ہیں جو مریضہ روٹین میں کھاتی ہیں ۔انہوں نے کچھ ادویات تجویز کردی ہیں اورایک ہفتے کے بعد دوبارہ چیک کرانے کی ہدایت کردی ۔200روپے کی پرچی بنوانے کے بعد ہمیں ادویات بھی حجاز ہسپتال سے ہی مل گئیں ۔

اس تشخیص کے بعد دلی طور پر ایک بات کا اطمینان تو ہوا کہ بازو کی ہڈی سلامت ہے ۔ادویات کے استعمال سے درد اور سوجن میں کچھ بہتری محسوس ہوئی ۔اس بات کا تو ہر شادی شدہ انسان کو علم ہے کہ اگر بیوی کی طبیعت خراب ہو تو میاں کیسے سکون سے رہ سکتا ہے اور اگر شوہر کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو بیوی کو چوق و چابند نرس کا کردار رات دن ادا کرنا پڑتا ہے ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹ تو بیگم کے دائیں بازو پر لگی تھی لیکن رات کو سوتے وقت خراٹوں میں کمی میری جانب سے ہوگئی ۔ہر لمحے یہی خدشہ لگا رہتا تھا کہ بیگم کو اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف نہ ہو رہی ہے ۔ حالانکہ تندرستی کے عالم میں وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ میری ذمہ داریاں بھی خوب نبھاتی تھیں لیکن بازو کی چوٹ نے اٹھنے بیٹھنے میں خاصی دقت پیدا کر دی ۔ایک ہفتے کے بعد ہم پھر حجاز ہسپتال گئے اور ڈاکٹر آفاق صاحب نے بازو کو چیک کرکے ایکسرے کو دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا کہ دو تین وزٹ اور کرنے پڑیں گے اﷲ نے چاہا تو بازو بالکل ٹھیک ہو جائے گا اس کے ساتھ ہی انہوں نے فیزوتھراپی کرانے کا حکم دیا ۔ میں نے پوچھا یہ فیز تھراپی کہاں سے کرانی پڑے گی ۔ وارڈ بوائے امیر بھٹی نے نہایت محبت سے بتایا کہ دوسری فلور پر یہ سہولت بھی موجود ہے ۔چنانچہ سات دن مسلسل فیزو تھراپی کرانے کے بعد میری بیگم کا بازو پہلے کی طرح حرکت بھی کرنے لگا اور چھوٹی موٹی چیز اٹھانے کی صلاحیت بھی اس میں پیدا ہوگئی ۔

یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کی غرض سے جاتے تو ہزاروں روپے کا بل بن چکا ہوتا جس کی ادائیگی ہمارے لیے ممکن ہی نہیں تھی ۔ حجاز ہسپتال کے بانی حاجی انعام الہی اثر مرحوم ہیں ۔ان کا تعلق تو چنیوٹ شہر سے تھا لیکن کاروبار کے لیے انہوں نے کلکتہ ، کراچی سمیت کتنے ہی شہروں کا سفر کیا ۔1953ء میں انہوں نے لاہور میں ہارڈ ویئر کا کاروبار شروع کیا ۔1968ء میں ان کا ذہنی میلان خدمت انسانی کی طرف راغب ہوا تو انہوں نے ہمت کرکے 3600گز زمین گلبرگ میں خریدی اور یہیں پر مسجد اور ڈسپنسری کی تعمیر شروع کردی ۔انسان جب نیکی کے لیے ایک قدم اٹھاتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دوست بھی شریک ہوجاتے ہیں ۔اس طرح وہی ڈسپنسری آج جدید ترین اور بہترین طبی سہولتوں سے آراستہ حجاز ہسپتال کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ جہاں ہرشعبے کے سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں جو صرف 200روپے کی پرچی پر ہر مریض کو نہ صرف خود دیکھتے ہیں بلکہ اسی ہسپتال سے ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں ۔یہاں جدید ترین لیبارٹریز ، الٹراساؤنڈ ،ڈیجیٹل ایکسرے کا انتظام بھی موجود ہے ۔اس حجاز ہسپتال کے بانی حاجی انعام الہی اور ان کے دست راست حاجی عبدالوحید بھی اس دنیا سے جسمانی طور رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کی رحلت کے بعد ان کے جانثار ساتھیوں نے جناب سہیل اقبال کی قیادت میں ہسپتال کا انتظام و انصرام بہت خوب سنبھال رکھا ہے ۔جناب محبوب اقبال ٹاٹا ،جناب عطا الرحمان ،ایس ایم اشفاق اور بیگم اور فرزند عبدالوحید کا گرانقدر مالی تعاون اس کثیر الامقاصد ہسپتال کو ہر لمحے حاصل ہے ۔اس کے علاوہ مختلف شخصیات کے ایصال ثواب کے لیے اس ہسپتال میں وارڈ بھی مخصوص کیے گئے ۔بظاہر تو اس ہسپتال کا عملہ اپنے اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری سے انجام دیتا ہے لیکن میں یہاں راجہ افتخار صاحب اور وارڈ بوائے امیربھٹی کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں جنہوں نے ہر مشکل میں نہ صرف مجھے حوصلہ دیا بلکہ اس کا عملی اظہار بھی کیا ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ دونوں اصحاب حجاز ہسپتال کے بہترین سفیر ہیں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 664458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.