جمعہ نامہ : رجوعِ قرآن سے قیامِ فرقان تک

رسول اکرم ﷺ سے اہل ایمان بےحد محبت کرتے ہیں۔ ماہِ ربیع الاول میں جوش و خروش کے ساتھ اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ محبت رسولﷺ فطری جذبہ ہے کیونکہ ارشادِ ربانی ہے:’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے ‘‘۔ ایک عظیم المرتبت نبیؐ سے محبت کیونکر نہ کی جائے کہ جو اپنی امت کی بھلائی کا بےحد آرزو مند ہو اور ملت کی ہرمشقت اس پر گراں گزرتی ہو۔ امتیوں کے لیے نبیٔ مکرم ﷺکی کے لطف وکرم کا سلسلہ دنیا سے آخرت تک جاری و ساری ر ہے گا۔ رب کائنات فرماتا ہے :’’(اے رسولؐ) ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کی ہے‘‘۔اہل ایمان جنت میں جانے سے قبل نبی ﷺ کے دست مبارک سے حوض کوثر پر سیراب ہوں گے۔ ایسا کون سا بدبخت مسلمان ہوگا جو اس سعادت سے مستفید ہونےکا خواہشمند نہ ہو؟

اس کے برعکس قیامت کاوہ دل دہلا دینے والا منظر بھی قابل توجہ ہے کہ جب نہایت شفیق و مہربان رسولؐ بارگاہِ الٰہی میں اپنی امت شکایت کریں گے۔ ارشادِ قرآنی ہے : اور رسولِ (اکرم ﷺ) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ امت مسلمہ کا قرآن حکیم کے کتاب اللہ ہونے پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ کتاب اللہ سے بے پناہ عقیدت اور تلاوت کا لا ثانی اہتمام کیا جاتا ہے لیکن جب اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے تو ملت کنی کاٹنے لگتی ہے۔ اس کتاب کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنے کا موقع آتا ہے تو وہ اسے نہ صرف نظر انداز کردیتی ہےبلکہ اس کو چھوڑ کر دیگر کتابوں (اور نظریات ) کو ترجیح دینے لگتی ہے۔ کیا یہ قرآن کو چھوڑ دینے کے مترادف نہیں ہے؟ اسی ترک تعلق کے خلاف بروزِ قیامت پیغمبراسلام ﷺ اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔ اللہ نہ کرے کہ اس وقت ہم حوض کوثر کے بجائے ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اس لیے کہ اگر ایسا ہوگیا تو ساری عقیدت و محبت خاک میں مل جائے گی ۔

دورِ نبوت میں امت کے اندر کوئی فکر و نظر کا اختلاف نہیں تھا لیکن دیگر اہل کتاب کے اندر اس قدر شدید اختلافات تھے کہ :’’ یہودی کہتے ہیں: عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں عیسائی کہتے ہیں: یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں ۰۰۰‘‘۔ یعنی یہ لوگ اپنے پاس موجود الہامی کتب کو پڑھتے تو ہیں مگر اس میں موجود تعلیمات کو سمجھتے نہیں ہیں۔ وہ اگر ایسا کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ تمام تر تحریفات کے باوجود ان میں بہت کچھ مشترک ہے ۔کتاب الٰہی کو پسِ پشت ڈالنے والوں کا کبر و غرور ان سے یہ کہلوا رہا ہے۔ ان کو آسمانی صحیفے سے اپنا تعلق درست کرنے کی تلقین اس طرح کی گئی ہے کہ :’’صاف کہہ دو "اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ نزول کتاب کا اصل تقاضہ اس قائم کرناہے۔ قیام ِ قرآن کے بغیر رجوع الی القرآن کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔

قرآن مجید کی تلاوت ، غوروتدبر اور اس کی نشرو اشاعت سے آگے بڑھ کر جب زندگی کے تمام شعبوں کو قرآن کا تابع بنانے کے مرحلے میں وہ ہوگا جو اس آیت میں آگے فرمایا گیا :’’ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو ‘‘۔مخالفت کا یہ طوفان اہل ایمان کو نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ ان کے لیے بھی وہی بشارت ہے جو پہلے والوں کے لیے تھی۔ فرمانِ ربانی ہے:’’ کاش انہوں نے توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں ایسا کرتے تو اِن کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا اگرچہ اِن میں کچھ لوگ راست رو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے ‘‘۔ فی زمانہ چونکہ قدیم الہامی کتب میں تحریف ہوچکی ہے اور آخری شریعت قرآن حکیم میں محفوظ و مامون ہے اس لیے اسی کو قائم کرنے میں امت کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا سامان ہے کیونکہ فرمان ربانی ہے :’’ اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ۰۰۰۰‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ رجوع سے قیام تک کے اس سفر کو آسان فرمائے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1234494 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.