جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اکثر مسلمانوں کا یہ شکوہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اچھی قیادت نہیں ہے،جو قائدین ہیں وہ مسلمانوں کی مناسب قیادت کرنے میں ناکام ہیں اور ان کے پاس ملّی وقومی جذبہ نہیں ہوتا۔عام طو ر پر یہ سوچ مسلمانوں کے سیاسی قیادت کو لیکر ہے،لیکن اس کے علاوہ مسلمانوں کی قیادت کی بات کی جائے تو سب سے پہلے قیادت مسلمانوں کے اپنے اداروں،تنظیموں، انجمنوں اور مسجدوں سے شروع ہوتی ہے،جہاں پر مسلمانوں کی قیادت کرنےو الے لوگوں کی حرکتیں ہی مشکو ک اور ناقابل قبول ہیں۔عام طو رپر ان اداروں ،انجمنوں کی بات کی جائے توآپ وہاں دیکھیں گے کہ بیشتر اور اکثر لوگ قیادت کرنے کےلائق نہیں ہوتے،نہ ان میں دور اندریشی ہوتی ہے اورنہ ہی ایمانداری،نہ یہ لوگ عصری تعلیم میں ماہرہوتے ہیں نہ ہی انہیں دینی تعلیم کی بنیادیں معلوم ہوتی ہیں۔اگر ان میں ہوتی ہے تو صرف مکاری،عیاری،چاپلوسی،داداگیری اور سب سے بڑھ کر بے ایمانی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں،جبکہ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ ،ایماندار ،باصلاحیت اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی،لیکن یہ لوگ ان مکاروں ،جاہلوں اوربے ایمانوں کے درمیان جا کر قیادت کرنا نہیں چاہتے،کیونکہ انہیں اس بات کاڈر ہوتاہے کہ کہیں باطل راہ پر چلنےوالے لوگ انہیں پریشان نہ کردیں اور بدنام نہ کردیں۔

کسی بھی تنظیم یا مسجدکی کمیٹیوں پر نگاہ دوڑائیں،آپ کو ان میں نہ کوئی ڈاکٹر دکھائی دیتاہےنہ ہی کوئی استاد اس میں موجودرہتاہے۔علماء کی کمیٹیوں سے علماء غائب ،مسجدوں کی کمیٹیوں سے مصلی غائب،تنظیموں میں سے نوجوان غائب۔اگر ہوتے ہیں تو صرف اور صرف عہدے اور اقتدار حاصل کرنے والے پوجاری ہوتے ہیں اور لوگ ان کو ہی اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔جب مسلمان اپنے مسجدوں اور تنظیموں میں سے اچھے نمائندے منتخب نہیں کرسکتے ہیں تو کیسے وہ اپنے لئے ایم ایل اے،ایم پی یا کارپوریٹر کا انتخاب کرینگے؟۔حالانکہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر صلاحیتوں کی بنیادپر لوگوں کا انتخاب کیاجاتاہے،مگر افسوس صدافسوس کہ بہت سے اداروں اور مسجدوں میں ایسے لوگوں کا انتخاب کیاجاتاہے جوپولیس کی چاپلوسی کرنے والے ہوں،ایسی ویسی کمائی کرنے والے ہوں،سیاستدانوں کی جی حضوری کرنے والے ہوں یا پھر ہر بات پر آستین چڑھاکر ماں بہنوں کی گالیاں دینے والے ہوں،ایسے لوگوں کو مسلمان اپنی نمائندگی کا موقع دیتے ہیں اور اُن کی ہر غلطی کو چپ چاپ سہتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں ہی برابرہیں۔مگر مسلمانوں میں قائد نما چند ایک ظالم ہیں،لیکن ظلم سہنے والے ہزاروں لاکھوں میں ہیں۔اس سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ مسلمان جب تک ظلم سہتے رہیں گے اُس وقت تک ان کا بول بالانہ ہوگا اور ان میں سے ایم پی تو کیا اچھے کائونسلر یا کارپوریٹربھی نہیں بن پائینگے۔آخرمسلمان اس بات سے کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں کہ چاپلوس یامکار کو اہمیت نہ دیاجائے تو وہ لوگ ہمیں کام کرنے نہیں دینگے،کام کرنے کیلئے اُن سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ہر ایک انسان کے پاس سوچنے کی صلاحیت ہوتی ہے،کام کرنےکی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ اپنے صلاحیتوں کی بنیادپر طاقت بناسکتے ہیں۔اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے جب اسلام کی تبلیغ شروع کی،دین پھیلانا شروع کیا،اُس وقت ان کے اہل وعیال اور چند رشتہ داروں کے سارا مکہ ان کے خلاف تھا،ابوجہل،ابولہب جیسے طاقتور اور مخالفین ان کے سامنے کھڑے تھے،مکہ کے بڑے بڑے طاقتور اللہ کے رسولﷺ کو توڑنے کی کوشش کرتے رہے اور اسلام کو ختم کرنے کی سازشیں کرتے رہے،مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اللہ کے رسول ﷺنے حق کا دامن نہیں چھوڑا نہ ہی صحابہ نے ابوجہل اور ابولہب سے جیسے لوگوں کو دیکھ کر اپنے قدم پیچھے ہٹائے جبکہ ابوجہل اور ابولہب جیسے لوگوں کی پشت پناہی کرنے کیلئے نہ صرف مکہ کے لوگ کھڑےتھے بلکہ عرب کے مختلف بادشاہوں اور سلطانوں نے ان لوگوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیاتھا۔مگر اس وقت مسلمانوں کے سامنے چند کھوکھلے لوگوں کی پشت پناہی کرنے کیلئے چندہی لوگ موجودہیں،تو کیونکر مسلمان اچھے لوگوں کو اپنی قیادت کیلئے منتخب نہیں کررہے۔آخرکب تک ایسے ہی لوگوں کو اپنا قائد بناتے رہیں گے اور ایسے لوگوں کو مسجدوں،تنظیموں ،اداروں اور انجمنوں کی ذمہ داریاں دیتے رہیں گے۔ذرا اپنے ذہنوں کو حرکت دیں اور بدلائو دیکھیں۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 176868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.