مر کے بھی چین نہ پایا

نشتر ہسپتال کی چھت پر کٹی، پھٹی اور نوچی ہوئی لاشیں دیکھیں تو بے ساختہ شیخ ابراہیم ذوق کا شعر زبان پر آگیا کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

سب سے پہلے یہ کارنامہ سر انجام دینے والے وزیراعلی پنجاب کے مشیر طارق زمان گجرکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے انسانی لاشوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا پردہ چاک کیا انکا کہنا ہے کہ نشتر اسپتال کے دورے کے دوران زبردستی سردخانہ اور چھت کھلوائی کیونکہ مجھے ایک شخص نے کہا اگر نیک کام کرنا ہے تو سرد خانے چلیں جہاں بہت ساری لاشیں تھیں اندازے کے مطابق 200لاشیں سرد خانے میں تھیں اور ان لاشوں پرایک کپڑا تک نہیں تھاہسپتال کی چھت پر 3 تازہ لاشیں اور 35 پرانی لاشیں تھیں جنہیں گنتی کیا اور ویڈیو بنوائی میں نے اپنی 50 سالہ عمر میں پہلی بار ایسا دیکھا کہ لاشوں کو گدھ اور کیڑے کھا رہے تھے کچھ لاشیں ایسی لگ رہی تھیں جو دو سال پرانی تھی اس وقعہ پروزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر لاوارث لاشوں کو پھینکنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئیسیکرٹری ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کر لی جبکہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود نے کہا کہ نشتر ہسپتال کی چھت پر لاوارث لاشوں کی تعداد 4 تھی قدرتی طور پر خشک کی گئی لاشیں طلبہ کی پڑھائی کے لیے ہوتی ہیں اور 4 سے 5 سال پرانی لاش طلبہ کو پڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے نشتر ہسپتال کے شعبہ اٹانومی کی ڈاکٹر مریم اشرف کا بھی یہ کہنا ہے کہ 500 یا 5 ہزار لاشوں کا تاثر بالکل غلط ہے غیر شناخت شدہ لاشوں کو ڈی کمپوزیشن کا عمل شروع ہونے کے باعث سرد خانے کے بجائے چھت پر رکھا جاتا ہے خیر یہ تو تھی باتوں کی جنگ مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ پاکستان میں ایک عام انسان کو زندگی میں کوئی سکون کی سانس نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد اسے دو گز زمین میسر ہوتی ہے غربت اس قدر بڑھ چکی ہے جو سر چڑھ کر بول رہی ہے ایک عام انسان کا گذر بسر ناممکن ہوچکا ہے جبکہ اس ملک کے چور اور ڈاکو اربوں روپے لوٹ کر بیرون مملک منتقل کرچکے ہیں ایک طرف مہنگائی کا جن ہے جو عوام کو ہڑپ کررہا ہے تو دوسری طرف عالمی طاقتیں ہیں جو پاکستان کو ہضم کرنا چاہتی ہیں ہمارے قرضے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر نہ اترے تو ہم ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے اسکا مطلب کیا ہے پھر کبھی لکھوں گا ابھی غربت اور لاشیں ہی میرا موضوع ہے کہ ہم پاکستانی کس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ اپنے جیسوں کو مرنے کے بعد بھی اذیت دینے سے باز نہیں آتے اور یہ سب کچھ غربت کی وجہ سے ہے عالمی بینک کی طرف سے پاکستان میں غربت 39.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جس میں نچلی درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 3.2 امریکی ڈالر یومیہ ہے، اور 78.4 فیصد اوپری درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 5.5 امریکی ڈالر یومیہ استعمال کرتے ہوئے جبکہ پچھلے سال ستمبر کی حکومتی رپورٹ کے مطابق ہماری کل آبادی کا 22 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جو نہ زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ایسے افراد یا خاندان کا رہن سہن اور کھانا پینا گندگی کا ڈھیر ہوتے ہیں جہاں سے گلی سڑی چیزیں کھا کر وہیں کہیں سو رہتے ہیں ان کے لیے کوئی صحت کی سہولت اور تعلیم نہیں ہے پاکستان میں غربت میں کمی کا رجحان کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے اور اسے ہم غربت بم بھی کہہ لیں تو ٹھیک ہوگا پاکستان کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) 0.557 ہے اور 189 ممالک میں سے 154 نمبر پر ہے یمن اور افغانستان کے بعد پاکستان کی ایچ ڈی آئی ایشیا میں سب سے کم ہے پاکستان میں دولت کی تقسیم بھی قدرے مختلف ہے جس میں سب سے اوپر 10% آبادی 27.6% کماتی ہے اور نچلے 10% لوگوں کی آمدنی کا صرف 4.1% ہے پاکستان میں تاریخی طور پر غربت دیہی علاقوں میں زیادہ اور شہروں میں کم رہی ہے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کل 40 ملین میں سے 30 ملین دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں دیہی علاقوں میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ملک کے شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان آمدنی میں فرق زیادہ نمایاں ہو گیا اس رجحان کو دیہی اور شہری علاقوں میں معاشی واقعات کے غیر متناسب اثرات سے منسوب کیا گیا ہے پنجاب میں بھی صوبے کے مختلف خطوں کے درمیان غربت میں نمایاں درجہ بندی ہے پاکستان کا خیبرپختونخوا جنوبی ایشیا کے پسماندہ ترین خطوں میں سے ایک تھا اس کے باوجود کئی شعبوں میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے سندھ اور بلوچستان کے حالات سب سے خراب ہیں ایسا لگتا ہے جیسے غربت نے وہاں پر مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہاں کے لوگوں کو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سر درد کے لیے کوئی گولی ملتی ہے پاکستانی معاشرے میں صنفی امتیازی سلوک بھی ملک میں غربت کی تقسیم کو تشکیل دیتا ہے جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں وہاں غربت میں بھی کمی ہے اور خاندان خوشحال بھی ہیں جبکہ ہمارامعاشرہ مردوں کے مقابلے خواتین میں بہت کم سرمایہ کاری کرتا ہیپاکستان میں خواتین زندگی بھر مواقع کی کمی کا شکار رہتی ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی 82.5% کے مقابلے میں 71.8% ہے ہمارے قانون ساز اداروں میں 2002 سے پہلے عام نشستوں پر منتخب ہونے والی مقننہ میں خواتین کی تعداد 3 فیصد سے کم تھی جو 2002 کے انتخابات کے بعد خواتین کے لیے مخصوص نشستیں بحال کر دی گئی ہیں اب خواتین کے لیے پارلیمنٹ میں 20% نشستیں مختص ہیں فی کس آمدنی کے تقابلی سطحوں کے ساتھ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بھی جنوبی ایشیائی سے بھی زیادہ ہے اور اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کا کوئی نومود بچہ انتقال کرجاتا ہے تو لوگ اسے دفنانے کی بجائے کہیں نہ کہیں پھینک جاتے ہیں جو کتے اور بلیوں کا شکار بن جاتا ہے اور ہم گمان کرتے ہیں کہ یہ کسی کی ناجائز اولاد ہو سکتی ہے مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ غربت کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے آپ لاہور ،کراچی،کوئٹہ اور راولپنڈی سمیت بڑے بڑے شہروں کو دیکھیں فٹ پاتھوں پر لاوارث افراد دن رات بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے اور مجال ہے کسی حکومتی ادارے کی جو انہیں اٹھا کر کسی محفوظ مقام تکپہنچا دے ویسے تو ہر شہر میں دارالامان ہے مگر وہاں پر بھی جگہ کم ہونی کی وجہ سے زیادہ افراد نہیں رہ سکتے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مخیر حضرات کے ساتھ ملکر ایسے اولڈ ہوم کھولیں جائیں جہاں لاوارث افراد اپنی زندگی کے آخری ایام سکون سے گذار سکیں بچپن اور جوانی تو محنت مزدوری کرتے گذر ہی جاتا ہے مگر بڑھاپے میں جب انسان کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے تو کتنی مشکل ہوتی ہو گی کیونکہ دن میں تین مرتبہ کھانا ہوتا ہے اور پھر ایسے افراد جب کہیں نہ کہیں لاوارث لاشوں کی صورت میں ملتے ہیں تو پھر ہمارے ادارے انکی لاشوں پر تجربے کرنے کے لیے چھتوں پھر پھینک دیتی ہے جہاں میڈیکل کے طلبہ ان مصیبت ذدہ لاشوں پر اپنی بے حسی کے تجربے کرتے ہیں اور باقی بچ جانے والے ادھورے جسموں کو پرندے نوچ نوچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں ایسے لوگوں کو مر کے بھی چین نہیں ملتا ویسے تو دنیا کی لیبارٹریوں میں بہترین مصنوعی اجسام رکھے ہوئے ہیں تجربات کے لیے جہاں طلبہ سیکھتے ہیں اگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی تو وی سی اسلامیہ یونیورسٹی نے میڈیکل کے طلبہ کے لیے اسکا انتظام کررکھا ہے ان سے رہنمائی لے لیں ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.