عالمی مسائل کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عالمی مسائل کی نشاندہی جب مغرب کے نظر سے کی جاتی ہے تو اس میں کرپٹ سرمایہ دار اشرافیہ کے اثرات نظر آتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ انہیں تیسری دنیا کے مسائل کا علم نہیں یا ادراک نہیں رکھتے بلکہ دیدہ و دانستہ حقیقی مسائل سے انحراف پیدا کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کے انسان اس کرپٹ اشرافیہ کے انسان سوز جرائم سے آگاہ نہ ہوسکے۔

مندجہ ذیل میں حوالے کے ساتھ مغرب کی نظر سے دیکھے گئے مسائل کی فہرست ہے پھر اس پر تبصرہ ہے:

#1. Poverty. #2. Climate change, #3. Food insecurity, #4. Refugee rights, #5. COVID-19, #6. Future pandemic preparation and response, #7. Healthcare, #8. Mental health, #9. Disability rights, #10. LGBTQ+ rights, #11. Reproductive justice, #12. Children’s rights, #13. Gender equality, #14. Cybersecurity, #15. Disinformation, #16. Freedom of the press, #17. Debt crises, #18. Corruption, #19. Authoritarianism, #20. Global cooperation

کیونکہ جب معاشی ناہمواری اور اقتصادی رکود کو مسئلہ گردانا جائے گا اور اس کے علل و اسباب کی طرف توجہ کی جائے گی تو لامحالہ مغربی طاقتوں کے جبر، دھونس والی سیاست سامنے آتی ہے۔ عالمی جہالت ، انسانی اقدار اور اخلاق کو جب مسئلہ گردانا جائے گا تو اس سیاست کے مقاصد مزید واضح ہوں گے جس کے حصول کیلئے استکباری طاقتیں اپنے مفادات کیلئے تعلیم، میڈیا کو استعمال کرتی ہیں۔جب عالمی اتحاد کے نہ ہونے کو مسئلہ سمجھا جائے گا تو اس کرپٹ سرمایہ دار کی سیاست یوں کھلتی ہے کہ انسانوں کو ہم فکر او رہم آہنگ نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں اس مجرم کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے عالمی سماج متحد نہ ہوجائے۔تعلیم ، سیاست اور میڈیا کے ذریعے جس diversity, pluralism وغیرہ کو فروغ دیا جارہا ہے اس کی وجہ اس کرپٹ اشرافیہ کا یہی خوف ہے۔اسلام سے عالمی سماج کو بدظن کرنے کیلئے جس پروپیگنڈے کو شروع کیا گیا ہے وہ بھی اسی سبب سے ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مکتب ہے جو اس اشرافیہ کی چوریوں، جھوٹ، دھوکہ و فریب، جبر، زبردستی اور دھونس کو اپنے فروعی اصول "جہاد" کے ذریعے رو ک سکتا ہے، اسی باعث جہاد اور مقاومت کی طرف سے انسانوں کے ذہنوں کو میلا کیا جارہا ہے اور پھر جب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے تو اس کے مقابلے پر پلورازم اور ڈائیورسٹی کو فروغ دیا جارہا ہے تاکہ آئندہ نسلیں فکری اور عملی بانجھ ہوجائیں اور جہاد کے عنوان سے کوئی تحریک نہ چل سکے۔عوام کے بیشتر مسائل جو سچے ہیں ان کی جب نشاندہی کی جاتی ہے تو ایک طرف اس طریقے سے خود کو عوامی درد کا چارہ گر کے عنوان سے پیش کرنا مقصود ہوتا ہے مگر جب حل کی بات کی جاتی ہے تو وہ ا س قدر پیچیدہ اور خود اس کرپٹ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے جس کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور ظاہر بظاہر چمکتے دمکتے مسحور کن الفاظ اور جملوں کو سہارا لے کر مظلوموں کے جذبات کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ عالمی بھوک اور غربت کا مسئلہ بتا کر بیماریوں اور موسمی آفات کے ذریعے depopulize کرنا اس مسئلہ کا ایک حل ہے جو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ یہ کہتے ہیں پناہ گزینوں کا مسئلہ بہت سنگین ہے مگر پناہ گزین خود اس عالمی اشرافیہ کی کرپٹ حکومتوں کے پیدا کردہ مسائل سے نہیں پید ا ہورہے؟ یہ طاقتیں کس بل اور بنیاد پر عالمی معاشروں پر جنگیں اور مسائل مسلط کرتی ہیں ۔ اگر یہ اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسرے معاشروں میں دخل اندازی بند کردیں تو پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ ہجرتوں کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اگر یہ عالمی معاشروں میں موجود طبیعی وسائل پر قبضہ کرنا یا انسان کو صارف سمجھنے جیسے تفکر سے باز آجائیں۔ دوسرے ممالک کی معیشتوں کو خود کنٹرول کرنے کیلئے جتنے بھی ہتھکنڈے یہ استعمال کرتے ہیں اگر اس سے باز آجائیں تو دنیا کے 70 فیصد مسائل خود بخود ختم ہوجائیں۔ صحت کے مسائل ذہنی امراض کے مسائل بھی اسی سامراجی فکر سے منسلک ہیں جس میں پروسسڈ فوڈ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ غذائیں ان کی صنعت اور فیکٹری میں بنیں تو اس میں مضر صحت کیمیکلز کی آمیزش کرنا تاکہ ممکنہ ایسے معاشرے جہاں سے اس ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت کا خدشہ ہے ان کی نسلوں تک کو بانجھ کردینا اور پروسسڈ فود اور صحت کے نام پر ایسی ویکسینز یا ادویات بنا کر فراہم کرنا ہے جس سے ذہن اور صحت مفلوج ہوجائے اور بغاوت کا خطرہ ٹلا رہے۔نام نہاد مسائل جو خود مسئلہ نہیں ہیں بلکہ دوسرے بنیادی مسائل پیدا ہونے کے سبب پید ا ہوئے ہیں جیسے کہ LGBT RIGHTS, REPRODUCTIVE RIGHTS, CHILDREN’S RIGHTS, GENDER EQUALITY ایسے مسائل ہیں جو مذہب سے دوری اور خود کو خدا سمجھنے سے پیدا ہوئے ہیں، اخلاقی اقدار کو کچرا سمجھنے کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ کہتے ہیں کہ "غلط اطلاعات" مسئلہ ہے، میڈیا آزاد نہیں ہے یہ ایک مسئلہ ہے، مگر یہ تو خود یہ سب کررہے ہیں۔ اس وقت پورے کرہ ارض پر 98 فیصد میڈیا (الیکٹرونک، پرنٹ، سوشل ایپس وغیرہ) سب انہی کرپٹ سرمایہ داروں کے قبضے میں ہیں تو یہ کس سے اس مسئلہ کو حل کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ اصل بات یہی ہے کہ آہستہ آہستہ یہ فکر پیدا کی گئی کہ مذہب بے کار ہے پھر مقدسات کی توہین کا سلسلہ شروع کیا گیا، مقدس عقائد اور منطقی افکار کو سبوتاژ کیا گیا اور پھر نعرہ دیا گیا کہ میڈیا کی آزادی کے آڑ میں یہ سب کرنا ہے۔ مگر کیا میڈیا کی آزادی میں ظلم ، دھوکہ ، فریب، جبرو دھونس وغیرہ کے خلاف بولنے پر یہ ایسے اینکرز اور چینلز اور اخبارات کو بند نہیں کرادیتے؟! چونکہ اس طرح کی آزاد بحث و تنقید جب ان پر کی جاتی ہے تو انہیں ہضم نہیں ہوتی اور فطری طور پر مدافعانہ جذبے کے تحت سخت ایکشن لیتے ہیں مگر مذہب، انسانی اقدار، مذہبی مقدسات کی توہین ہوتی رہے تو اس آزادی کو یہ بہت پسند کرتےہیں۔ایک مسئلہ ممالک کے مقروض ہونے کو گردانتے ہیں یہ بھی سچا مسئلہ ہے مگر اس کا حل اس طرح بتاتے ہیں کہ جب ان سرمایہ داروں، بینکاروں کے مفادات سے ہم آہنگی ہوجائے تو پھر قرضہ بھی معاف کردیا جاتا ہے اور امداد کے نام پر اربوں ڈالر بھی دیئے جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اس کام کیلئے ان کے نمائندے کو طور پر کام کرتے ہیں۔ مگر یہ قرض ان قوموں پر سے کبھی نہیں اترتا جو اپنا ایک ورلڈ ویو رکھتی ہے اور خود مختاری کے ساتھ اپنے وسائل کو استعمال کرنا چاہتی ہے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی ہے۔ ایسی اقوام اگر اپنے نظریات اپنے فلسفے اپنی تہذیب و ثقافت وغیرہ کے ابلاغ کیلئے کام کرتے ہیں تو انہیں باغی کہا جاتا ہے ان کو آرتھوڈوکس کہا جاتا ہے وغیرہ۔ اور اسی اقوام سے مقابلہ کیا جاتا ہے اور یہ پریس کی آزادی اور غلط اطلاعات کے پھیلنے کو مسئلہ بتانے والے خود ایسی خود مختار اقوام کے خلاف غلط و بے بنیاد خبریں پھیلاتےہیں اور ناظرین اور سامعین کو مغالطہ میں مبتلا کرتےہیں۔ اپنے مفادات کے حصول کیلئے وطن فروش قسم کے لوگوں کو رشوتیں دیتے ہیں اور ملک کی اعلی ٰ قیادتوں اور فوج و عدلیہ میڈیا سمیت سب کو اپنی ڈالرانہ رشوتوں سے کرپشن کو فروغ دیتےہیں۔ اگر ان کا فلسفہ اور تفکر اور ہدف اتنا ہی خوبصورت اور ہمہ گیر اور فائدے مند ہے تو اس کیلئے تو ببانگ دہل عمل کرنا چاہیے، رشوتوں کے ذریعے کون سے ایسے اہداف حاصل کرنا مقصود ہے جس کو انسان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا مگر اس کی وطن پرستی کو خریدنا درست سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف آمریت کو عالمی معاشروں کیلئے مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اسے اس ملک کی فوج سے وابستہ قرار دیتےہیں مگر کیا سرمائے سے بڑی آمریت بھی ہے کوئی؟ جس کو یہ ہر لمحہ ہر گھڑی تیار رکھتے ہیں اور جو کسی لالچ میں نہ آئے اسے اگلی دنیا بھیج دیا جاتا ہے۔ ان مغربی تسلط پسند طاقتوں سے زیادہ آمریت کس کے پاس ہے؟ پوری ایک تاریخ ہے جس میں ان کی آمریت رقم ہے۔ دوسری طرف عالمی روابط نہ ہونے کو یہ مسئلہ قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی معاشرے ان جابروں کی پالیسز سے اتفاق نہیں کرتے لہذا عالمی روابط بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ سب اقوام UN اور دیگر عالمی ادارے جو ان مستکبر طاقتوں کے فنڈز سے چلتے ہیں ان کی پالیسز سے اتفاق کریں اور جو نہ کرے اسے راستے سے ہٹا دیا جائے۔ کبھی اس ملک پر جنگ مسلط کرکے، کبھی بیماریاں پھیلا کر، کبھی موسمی آفات پھیلا کر اور اگر اعلیٰ قیادت مان جائے مگر اس معاشرے کی پر اثر شخصیات نہ مانیں تو ان کی مرغوب رشوت پیش کی جائے تب بھی نہ مانیں تو اقرباء کے اغواء یا موت سے خوفزدہ کیاجائے وغیرہ کسی نہ کسی طرح اپنے مفادات پر جبرا یا کراہ لایا جائے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو مغرب کی نظر سے نہیں دیکھے گئے مگر مظلوم اقوام کی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔ مغرب کے پیش کردہ عالمی مسائل اور ان کے پوشیدہ اوصاف اس سے کہیں زیادہ گہرے اور وقیع ہیں۔

خدا ہم سب کو اپنے دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دینداروں کو پیشواء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھلبیت علیہم السلام کی سیرتوں پر عمل کرنے کے ذریعے ہم کو ہمارے مولا حضرت بقیۃ اللہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت کیلئے تیار فرمائے۔ دنیا کو عدل و عدالت سے بھر دے، ظالموں کو اگر ہدایت کے قابل نہیں تو نیست و نابود فرمادے اور تمام حق پرستوں کو منزل مقصود پر پہنچا دے۔ آمین یا رب العالمین
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.