بھرت پور کی مہابھارت - پہلی قسط

جگو کمہار کی آنکھ کھلی تو وہ اداس تھا اس کی آنکھیں چار پائی پر پڑے پڑے آسمان پر بادلوں کو تلاش کر رہی تھیں ۔ جگو کی چھت میں کئی ایسے چھوٹے بڑے سوراخ تھے جن کے اندر سے وہ وسیع و عریض فلک کا نظارہ کر سکتا تھا اکثر وہ آسمان پر تاروں کی مدد سے بننے والے نت نئے ڈیزائن دیکھتا اور انہیں اپنے برتنوں پر سجا دیتا ۔ جگو کے برتن ان اچھوتے نقوش کے باعث سارے علاقے میں مشہور تھے لوگ انہیں اپنے گھروں میں آرائش و زیبائش کیلئے بھی استعمال کرتے تھے لیکن گزشتہ رات اس کے گدھے کی موت کے بعد یہ سارے مناظر بے معنی ہو چکے تھے ۔ اس کے گدھے نے پیاس سے دم توڑ دیا تھا۔اس حادثے کے بعد وہ ایک گھڑا لے کر رات کے اندھیرے میں راج محل میں سارے حفاظتی عملے سے نظر چرا کر داخل ہو گیا تاکہ اپنے روتے بلکتے بچوں کے لئے پانی لا سکے لیکن جب وہ گھڑا بھر کر لوٹ رہا تھا تو ایک سپاہی نے اسے دیکھ لیا اور آواز لگائی اوئے کون ہے تو؟ اس وقت یہاں کیا کر رہا ہے ؟

جگوڈر گیا۔ وہ ان بے معنیٰ سوالات کا جواب دینے کے بجائے دروازے کی جانب تیز تیز چلنے لگا۔پھر سے وہی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ رک جاورنہ میرا تیرسینے میں پیوست ہو جائے گا ۔ میں راج سرکشا کا اہلکار ہوں میرے لئے سات خون معاف ہیں مجھ سے آٹھویں کی وجہ پوچھی جاتی ہے اور میرے ہر جواز کو من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔جگو پر اس دھمکی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اس کی نظریں محل کےصدر دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ جلد از جلد اسے پار کرلینا چاہتا تھا اسے یقین تھا یہ سرکاری پلاّ محل کے باہر نہ بھونک سکتا ہے اور نہ کاٹ سکتا ہے ۔ اس کے کانوں میں پھر ایکبار وہی آوازگونجی رک جا مورکھ[ بے وقوف] یہ تیرے لئے آخری تنبیہ اور خوب جان لے کہ میرا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتالیکن یہ آخری انتباہ بھی بے اثر ہو گیا جگو اپنی جان سے بے پرواہ چلا جارہا تھا اور جیسے ہی اس نے باہر کی دہلیز پر قدم رکھنے کیلئے پیر اٹھایا تیر کی سنسناہٹ اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ نشانہ چوک گیاپانی کا گھڑا پھوٹ گیا۔جگو نے افسوس کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کاش کہ یہ نشانہ خطا نہ ہوتااور اپنے معصوم روتے بلکتے بچوں کو پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھنے کے کرب سے بچ جاتا۔سپاہی کے ہونٹوں پرایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی وہ پانی کے ایک گمنام چور کو اپنے گھناؤنے مقصد میں کامیاب ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔

جگو واپس آکر سوگیا تو اس نے خواب میں اس کہانی کو دیکھا جو اسکی دادی نے اسے بچپن میں اس وقت سنایا تھاجب اس نے پوچھا تھا کہ اس کا نام جگت پرشاد اپادھیائے کیوں ہے ؟کمہاروں کے اس محلے میں کوئی بھی اس قدر لمبے چوڑے نام نہیں رکھتا ۔ گاؤں والوں کی پرمپرا یہ تھی کہ جب کسی کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے لیکر مندر میں راج پروہت کے چرنوں میں لے جاکر رکھ دیتے راج پروہت اس بچے کا اسکی ذات برادری کےلحاظ سے کوئی نام تجویز کر دیتا اور وہ اسے دکشنا دے کر خوشی خوشی لوٹ جاتےلیکن جگو کے پریوار والے اس روایت کی اتباع نہیں کرتے تھے ۔وہ خود ہی اپنے بچوں کے نام رکھ لیتے تھے یہ اور بات ہے وقت کے ساتھ جگت پرساد جگو ہوجاتا اور بھگت پرسادکو لوگ بھکو کہہ کرپکارنے لگے تھے اس لئے کہ کمہاروں ،دھوبیوں اور موچیوں جیسےعام لوگوں کو طول طویل ناموں سے پکارنے کی نہ کسی کو فرصت تھی اور نہ ضرورت۔

جگو نے خواب میں راج محل کو دیکھا تھا جہاں اس کے پر دادا کمل پرشاد اپادھیائے پر راج پروہت یہ الزام لگا رہا تھا کہ انہوں راج پردھان کو اسکی غلطی پر ببانگ دہل ٹوک کر سارے راج دربار کا اپمان کیا ہے؟

میں نے کسی کا اپمان نہیں کیا ۔ میری راج پروہت مہودئے سے ونتی(گزارش )ہے کہ مجھے یہ بتلائیں کہ کیا راج پردھان نے اپنے محل کے وستار [توسیع] کیلئے بلا اجازت و بیع منگلو کمہار کی زمین استعمال نہیں کی یا نہیں؟ منگلو کا الزام درست ہے یا نہیں ؟ دھرم شاستر کے انوسار وہ غلطی ہے یا نہیں جس پر میں نے راج پردھان کو ٹوکا ہے؟

راج پر دھان صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا لیکن اس سے پہلے یہ تصفیہ ضروری ہے کہ تمہیں ان کو ٹوکنے کا ادھیکار پراپت (حاصل) ہے یا نہیں ؟اور دھرم شاستر کا مارگ درشن یہ ہے کہ راج پردھان کو تم نہیں ٹوک سکتے۔

اگر وہ غلطی کرے تب بھی؟

جی ہاں ہمارا دھرم شاستر یہی کہتا ہے کہ اگر وہ غلطی کرے تب بھی کوئی راج درباری یا شہری ان پر انگشت نمائی نہیں کر سکتے ۔

اگر ایسا ہے تو ان کی نا انصافیوں کی تدارک کیونکر ممکن ہے؟

راج پردھان کی اصلاح کا ادھیکار صرف راج گھرانے کے سدسیوں (ارکان) کو ہے۔

لیکن راج گھرانے کے سدسیہ اگر اس کی اصلاح کرنے میں سکشم (اہل) نہ ہوں تو؟

تو آپ اپنی بات ان سے کہیں ممکن ہے وہ آپ کے مشورے سے اتفاق کریں گے تو اقدام بھی کریں گے۔

لیکن اگر وہ نہیں ہو تے تب؟کمل پرشاد سوال پر سوال کئے جارہے تھے ۔راج درباریوں اور مہاراج کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا جارہا تھا لیکن کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ راج پروہت کی بات کو کاٹے اس لئے سارے لوگ صبر کا دامن تھامے ہوئے تھے۔

تب پھر تمہیں راج گھرانے میں جنم لینا ہوگا اسکے بغیر تمہیں یہ ادھیکار پراپت [حاصل] نہیں ہوسکتا۔

لیکن یہ تو اسمبھو ہے گرودیو ۔ میں تو جنم لےچکا ہوں اب میں دوبارہ کیسے پیدا ہو سکتا ہوں؟

ہم لوگ پونرجنم میں وشواس کرنے والے لوگ ہیں ۔ ممکن ہے تمہارا اگلا جنم شاہی خاندان کے اندر ہو۔

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ ہو؟ لیکن سوال یہ ہے کہ بھویشیہ [مستقبل] میں جو ہوگا سو ہوگا اس وقت تک میں کیا کروں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں؟

تب تک تمہارے لئے صبر کر لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔راج پروہت نے کہا۔

اور اگر ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہ ہو تو؟کملپرشاد نے سوال کیا۔

نہ ہوتب بھی تم کر ہی کیا سکتے ہو؟ راج پروہت نے مسکرا کر کہا ۔

کیا کر سکتا ہوں؟ عوام میں جا سکتا ہوں۔آندولن چلا سکتا ہوں۔

آندولن کا لفظ سارے دربار پر بجلی بن کر گرا ۔ راج پروہت بھی اسے سننے کے بعد اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے انہوں نے چیخ کر کہا ۔ کیسی بات کرتے ہو کمل پرشاد اپادھیائے ۔ میں تو تمہیں پڑھا لکھا اور مہذب آدمی سمجھتا تھا ۔ تمہارے مکھ پر یہ شبد شوبھا نہیں دیتے۔کیا تمہیں آندولن کا مطلب معلوم ہے؟

آندولن کا مطلب تو ایک جاہل گنوار بھی جانتا ہے گرودیو۔

کمل۔ آندولن کا مطلب تو سبھی جانتے ہیں لیکن جو اس کے انجام سے واقف ہوتے ہیں وہ اس لفظ کو سوچ سمجھ کر اپنی زبان پر لاتے ہیں ۔

میں نہ تو آندولن کا انجام جانتا ہوں اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتا ہوں۔ کمل پرشاد نے ڈھٹائی سے جواب دیا

ہمارے اس نظام میں آندولن چلانے کا مطلب بغاوت ہے بغاوت اور بغاوت کا انجام _ _ _ _راج پروہت کی زبان گنگ ہوگئی اس لئے کمل پرشاد ان کا سب سے چہیتاششیہ[ شاگرد] تھا۔

کمل بولا گرودیوآندولن سے آخر ہم لوگ اس قدر گھبراتے کیوں ہیں؟

اس لئے کہ اسکی چنگاریاں اس سارے نظام کو خاکستر کر سکتی ہیں۔ اس سے اندیشہ ہے کہ سارا بنا بنایا نظام سلطنت بکھر کر رہ جائے۔

آپ کی بات درست ہے لیکن اس آندولن کیلئے بھی تو ہمیں اسی نظام کی ناکامی نےمجبور کیا ہے ۔ اب جو نظام ناکام ہو گیا اس کے درہم برہم ہو جانے کون سا انرتھ ہو جائیگا؟ ممکن اس کا انتم سنسکار [آخری رسومات]عوام کیلئے خوشیوں کا نیا پیغام لے کر آئے؟

اس نظام کے ختم ہو جانے سے عوام کو کیا ملے گا یہ تو ہم نہیں جانتے اور نہ جاننا چاہتے ہیں ۔ ہمیں تو اس بات کی چنتا ہے کہ اس کے ختم ہوجانے کے نتیجے میں ہمارا کیا ہوگا؟ ہمارے سارے مفادات؟ساری ٹھاٹ باٹ جو اس پر منحصر ہے اس کیا ہوگا ؟ بدھیمان انسان وہ ہے جو دوسروں سے پہلے اپنی فکر کرے اور اس کے بعد دوسروں کی ۔راج پروہت نے نصیحت کا انداز اختیار کیا۔

گرودیو اگر آپ آگیہ دیں تو ایک بات کہوں۔

میری آگیہ کے بغیر ہی تم بہت کچھ بول چکے ہو تو اب آگیہ کے انوسار بھی بول دو ۔ راج پروہت نے ایک زہریلی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے کہا ۔

میں اس کیلئے شما[معافی] چاہتا ہوں پرنتو یہ اوشیہ کہوں گا کہ ہماری اس عقلمندی نے ہی اس آندولن کی ضرورت پیدا کر دی ہے جس سے ہم لوگ تھر تھر کانپ رہے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اب یہ حربہ زیادہ دنوں تک ہمارے کام نہیں آئے گا ۔

راج دربار کو موت کی خاموشی نے نگل لیا تھا کہ مہاراج وکرم سنگھ کا پیمانہ صبر اس جملے کے ساتھ لبریز ہو گیا اور وہ بولے گرودیو یہ باغی اپنی حدوں کو پھلانگ چکا ہے ۔ آپ راج دھرم کے انوسار مجھے آدیش دیں میں اس کا پالن کرنے میں کوئی سنکوچ نہیں کروں گا ۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ تلوار پر رکھ دیا۔

راج پروہت نے صبر سے کام لیتے ہوئے جواب دیا یہ حرکت اگر کوئی شودر جاتی کا منوشیہ کرتاتو اس کے ساتھ منو شاستر کے انوسار وہی ویوہار ہوتا جو تم کرنا چاہتے ہو پرنتو یہ نہ بھولو کہ یہ براہمن جاتی کا راج درباری ہے ۔ اس سے پہلے کسی براہمن نے ایسی مورکھتا [حماقت] کا پردرشن نہیں کیا شاید یہ صورتحال منو جی کے خواب و خیال میں نہیں آئی تیج اس لئے انہوں نے اس بابت ہماری کو ئی رہنمائی نہیں کی اس لئے ہمیں خودکوئی اجتہاد کرنا ہوگا ۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا اس وقت تک ہم اس باغی کو فساد پھیلانے کی خاطر کھلا چھوڑ دیں گے؟ راج پردھان نے راج پروہت سے سوال کیا۔

نہیں ہم ایسا ہر گز نہیں کر سکتے۔ اسے تین دن کی حراست میں رکھا جائے اس کے بعدمنو شاستر کی روشنی میں مناسب فیصلہ کر کے ہم اس پر نافذ کر دیں گے ۔اس لئے کہ اس معاملے میں جلد بازی فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔

پولیس کے سپاہی کمل پرشاد اپادھیائے کو اپنے ساتھ گرفتار کر کے جیل لے گئے مہاراج وکرم سنگھ نے راج پردھان کی جانب دیکھا اوراس نے ان کا اشارہ سمجھ کر تخلیہ کا اعلان کر دیا۔ سارے راج درباری اپنا اپنا فرشی سلام کر کے نکل گئے اور مہاراج کے ساتھ راج پروہت اور راج پردھان باقی رہ گئے ۔

مہاراج وکرم سنگھ راٹھور کو اس روز بے حد صدمہ ہوا تھا وہ کمل پرشاد سے زیادہ راج پروہت سے ناراض تھے جس نے انہیں کمل کی گردن مارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ وکرم نے تخلیہ کے بعد جب اپنی دائیں جانب مڑ کر دیکھا تو وہاں بیٹھی اپسرائیں سارا مدھو شالہ لے حاضر ہو گئیں۔ بائیں جانب بیٹھے کنجر سمجھ گئے کہ اب ان کو بھی بازیابی کا شرف حاصل ہوگا ان کی توقعات بھی پوری ہوئیں اور رقص و سرود کی محفل میں جام پر جام لنڈھائے جانے لگے۔ راج پروہت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اجازت طلب کی اور چل دیا لیکن حیرت انگیز طور پر راج پردھان نے بھی اس کی پیروی کی اور باہر نکل آیا۔ راج پردھان کا رتھ تیار کھڑا تھا لیکن وہ راج پروہت کی بگھی میں سوار ہو گیا تاکہ اس نئی صورتحال پر گفت و شنید ہو سکے۔ راج پردھان جانتا تھا کہ اس چکرویوہ کے مرکز میں اسکی اپنی ذات ہے اور رقص و سرود میں اس مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔

راج پروہت اور راج پردھان راستے میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے لیکن گھر پہنچنے کے بعد اصل موضوع پر آگئے ۔ راج پردھان نے کہا گرودیو میرا خیال ہے کہ آپ نے کمل کے ساتھ کچھ زیادہ ہی نرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس کو اس طرح چھوڑ دینے سے راج دربار میں موجود دوسرے ارکان کے حوصلے بھی بلند ہو جائیں گے اور بغاوتو ں کا ایک سیلاب پھوٹ پڑے گا۔

راج پروہت نے کہا نہیں تمہارا اندیشہ غلط ہمارے دربار میں بیٹھنے والے بڑے ارمانوں سے یہاں آتے ہیں اور ان کے بے شمار مفادات ہم سے وابستہ ہو جاتے ہیں اس لئے مجھے ان میں سے کسی کی بغاوت کا کو ئی خاص خدشہ نہیں ہے ۔اگر اکا دکا اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے تو ہم لوگ اس سے بڑی آسانی سے نبٹ سکتے ہیں لیکن اگر کمل کی سزا اسے عوام کے اندر ہیرو بنا دیتی ہے تو اس سے جو انقلاب آئیگا اس پر قابو پانا ہمارے لئے نا ممکن ہے اسی لئے میں جلد بازی میں کوئی اقدام کرنے سے گریز کر رہاتھا ۔

راج پردھان نے راج پروہت کی تائید کی اور بولا آپ مہان ہیں گرو دیو ہم لوگ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے جہاں آپ کی سوچ جاتی ہے لیکن اب آپ اس سمسیہ کا کیا اپائے سجھاتے ہیں؟

میرا خیال ہے ہم کمل کو کوئی کڑی سزا نہ دیں بلکہ اسے دربار سے نااہل قرار دےکر ذات برادری سے الگ کر دیا جائے۔ میرا خیال ہے راج درباریوں کو ڈرانے کیلئے یہ سزا کافی ہے اور ایسا کرنے سے عوام میں بھی کو کوئی خاص غم و غصہ پیدا نہیں ہوگا اس لئے ان کی نظروں میں ویسے ہی نہ تو راج دربار کی کوئی قدرومنزلت باقی ہے اور نہ ذات برادری کی کوئی اہمیت ہے اس لئے انہیں یہ محسوس ہی نہ ہوگا کہ کمل کو کسی محرومیت کا شکار کیا گیا ہے یا اس پر کوئی ظلم ہوا ہے ۔

اس کے بعد کچھ بھی نہ بدلا نہ کرانتی آئی اور نہ جنگلو کو اپنی زمین واپس ملی ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے کمل پرشاداپادھیائے کملوکمہار اور جگت پرشاد جگو بن گیا ۔

[باقی آئندہ انشااللہ]
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1251176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.