قلم شگوفیاں۔ سماجی عہدے خطابات و القابات

انسانی زندگی کےمختلف مراحل اور کرداروں سے متعلق سماجی سرگرمیوں ہر ایک شگفتہ تحریر

ہم میں سے ہر شخص کو چند عہدے اور القابات و خطابات اس دنیا اور معاشرےمیں بطور انعام و اکرام یا یوںسمجھ لیں کہ مفت میں ملتے ہیں اور ان کے حصول کے لیۓ کسی خاص درجے کی تعلیم، میرٹ اور محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور اپنے اپنے نظام الاوقات میں یہ مل کر ہی رہتے ہیں۔

انسان جب بطور بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اسے جو پہلا خطاب ملتا ہے وہ ہے "بچہ یعنی نوزائیدہ بچہ"۔جسے دیہاتوں میں "کاکا" اورشہروں میں "نیوبےبی" کہا جاتا ہےاس موقع پر گڑ سے لے کر پتاشے،مٹھائیاں ،لڈو، رس گلے بانٹنے سے عقیقہ تک کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں اور زچہ و بچہ کی خوب آو بھگت کی جاتی ہےاورانہیں تحائف سے نوازا جاتا ہے۔یہ بڑا نرم و نازک عہدہ اور عہد ہوتاہے۔ اس وقت انسانی جسم کمزور ہوتا ہے اس لیئے حفاظت اور نگرانی کے لیۓ سخت پہرہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ زرا سی لاپروائی کی صورت میں زندگی یا والدین سے بصورت دوری ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ جدید دور میں ہسپتال انتظامیہ کی آدھی توجہ نرسری میں موجود بچوں پر اور ادھی توجہ موبائیل میں موجود باقی دنیا کی طرف ہوتی ہے۔بچی سے بچہ اور بچہ سے بچی کے تبادلے اور گمشدگیوں کا ذکر تو اکثر اخبارات اور نیوز چینل میں ملتا ہی رہتا ہے۔اس موقع پر اگر بچہ شدت سے روتا رہے تو اپنا بھرپور دفاع کر سکتا ہے۔یوں والدین رشتہ داروں اور نرس کی بھرپور توجہ ملنے کا امکان رہتا ہے۔

اگلے مرحلہ میں ب فارم کے اندراج کے ساتھ ہی دوسرا عہدہ اور خطاب ملتا ہے وہ ہے "شہری "جسے" سیٹیزن" بھی کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بچہ مملکت کے امور میں وارد ہوجاتا ہے ۔ جیسے ملکی قرضوں میں اس کا حصہ اور جنم پرچی و نادرہ ب فارم کے عوض ادائیگیاں اور اس کے نام پر ٹیکس وغیرہ۔
اس دوران اس کا ایک کارڈ بھی بنا دیا جاتا ہےجو نہ تو سٹوڈنٹ کارڈ ہوتا ہے،نہ رزلٹ کارڈ اور نہ ہی راشن کارڈ یا نادرہ کا شناختی کارڈ ۔یہ بس حفاظتی ٹیکوں کا کارڈ ہوتا ہے۔ایک منظم اور تیز ترین ٹیم ہر وقت اس کی تاک میں رہتی ہے۔ ویکسی بیشن مہم کے دوران یہ بچہ اگر والدین کے ساتھ کسی سفر میں بھی ہو تو کسی نہ کسی عوامی مقام جیسےلاری اڈے ، ریلوے اسٹیشن یا ایئر پورٹ پر دھر لیا جاتا ہے۔اور اسے اپنی ڈوز مل کر ہی رہتی ہے ۔

اگلا عہدہ جو سماج اور سرکار کی طرف سے ملتا ہے وہ ہے" طالبعلم"۔یہ کیریئر کا بہترین عہدہ ہوتا ہے۔جس کے بل بوتے پر بندہ اپنےوالدین کو تھوڑا بہت بلک میل بھی کرتا ہے چھوٹی موٹی بدتمیزیاں اور دھونس دھاندلیاں بھی سیکھ لیتا ہے۔اس عمر میں گلیوں میں کرکٹ کھیلنا ۔ شور شرابہ کرنا، چھینا جھپٹی اورجتھوں کی شکل میں بسوں کو روکنا اور کنڈکٹروں کی " جھنڈ پریڈ" کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے ۔ طالبعلم چاہے امیر اور کھاتے پیتے گھر سےہی کیوں نہ ہو، وہ ہر قسم کی عیاشیوں کے باوجود بس کو کرایا دینا اپنے تئیں "فعل حرام" سمجھتا ہے۔سکول کے بعد کالجاور یونیورسٹی کا دور شروع ہو جاتا ہے جس کی بود و باش سکول سےزرا مختلف ہوتی ہے۔اس دور میں اگر وہ اپنی عقل اور فہم و فراست سے کام نہ لے تو پھر موجیں ہی موجیں ۔ کسی بھی سیاسیی یا متشدد مذہبی پارٹی کے ساتھ بطور ہراول دستہ ہڑتالوں جلسوں ، جلوسوں اور احتجاجی ریلیوں میں ہلڑ بازی اور نعرے بازی کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں پہ ڈنڈا ،ہاکی اور بیٹ بھی گھما لیتا ہے۔اس دوران جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ اس کی تعلیم اور والدین کا وقار ہوتا ہے۔

یہی نوجوان جب 18 سال کا ہو جاتا ہے تو اب اسے ایک نیا اعزاز ملتا ہے۔ اب وہ ایک" ووٹر "بھی ہوتا ہے۔اس عہدے سے سب سے زیادہ وہ بندہ فوائد لیتا ہے جس کا کسی خاص پارٹی سے جذباتی ،لسانی یا نظریاتی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس کی اپنی بھی کوئی راۓ نہیں ہوتی۔ایسےبندے کی الیکشن کے دنوں خوب چاندی ہوتی ہے۔اور اگر تھوڑا تیزطرار اور سوجھ بوجھ رکھتا ہو تو خوب ۔سال بھر کے رزق روٹی کا بندو بست کر ہی لیتا ہے۔شروع شروع میں وہ اپنا اور فیملی کا ووٹ بیچتا ہے اور مستقبل میں یہ پکا ٹاؤٹ بن کر اچھے خاصے بندے توڑنے اور تڑوانے کا ماہر بن جاتا ہے۔ ایسے افراد کی بڑی مانگ رہتی ہے
اس کے ساتھ چند نئے عہدے بھی ذات شریف کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے "بیروزگار"، "مزدور" ،"ملازم "اور کبھی کبھی "مریض" بھی۔یہ عہدے مستقل نہیں رہتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتےہیں۔ان بیروزگاروں میں اکثر پائے کےفنکار، شاعر اور ادیب بھی بن جاتے ہیں اور خوب نام کماتے ہیں۔ ملازمت یا مزدوری میں اگر عزت کی روٹی کما لے تو وہ سرکار کا "ٹیکس گزار" بھی ہوتا ہے۔دولت زیادہ آنے کی صورت میں ٹیکس چوری کا کورس کرنا پڑتا ہے یا اس کام میں کسی ماہر کی خدمات بھی لینا پڑتی ہیں ۔چند افراد تو اپنے کارناموں اور کرتوتوں کے کارن خصوصی پروموشن کے ذریعےپہلے" ملزم "،پھر "مجرم" اور مزید ترقی سے"قیدی "یا " اشتہاری "جیسے مشہور و معروف عہدوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔جس سے ان کے سیاسی کیریر کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ یوںمستقبل قریب میں وہ وزارتوں اور بشارتوں کے خواب بھی دیکھتےہیں۔

اسی عرصہ میں والدین کی خواہشات اور دوستوں کی مہربانی سے ایک عام آدمی ایک بار ایک دن کے لیئے "دولھا" اور مولوی کے چند آسان سوالات کے جواب دینے سے"شوہر "کے عہدے پر متمکن ہوجاتا ہے ۔عموماً یہ عہدہ دائمی ہوتا ہے اور تا دم مرگ بلکہ مرنے کے بعد بھی باقیات میں اس کا ذکر خیر و شر چلتا رہتا ہے۔ یہ اس کےسماجی امتحانات اور عروج و زوال کے لیئے اہم مرحلہ ہوتا ہے اگر کوئی شخص بطور شوہر اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا ناجانتا ہو اور اس عہدے پر رہتے ہوۓ اپنے اہل عیال کو شکائت کا موقع نہ دے تو ایسا شخص اس دنیا کا کامیاب ترین انسان ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ باس کے بعد بیگم کی ہاں میں ہاں ملاتے رہو تو دفتر اور گھرسے اٹھنے والے ہر قسم کے شر سے محفوظ رہو گے۔ فیر تےستے ای خیراں ۔

اگر کسی فرد نے جوانی کا کچھ عرصہ سرکار کی خدمت میں گزارا ہو تو وہ اگلے مرحلہ میں ملازم کے بعد "پنشنر "کے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔یہ عہدہ بعض اوقات بیوہ اور اولاد میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اثر ہاتھ اور پاؤں کی طاقت زبان میں سمٹ آتی ہے۔یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بندہ عملی کام ، کم اور گفتگو پر زیادہ زور دیتا ہے۔ایسا بندہ عموما ً جوانی کے کارنامے سنا کر اور اپنے ماضی کو یاد کرکے حال میں مگن اور مستقبل سے بے فکر ہو جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس کے متوازی ایک اور خطاب بھی ہوتا ہے جسے ہمارے معاشرے میں "چاچا " یا "بابا" کہتے ہیں ۔جوخوش نصیب ان ملاوٹ شدہ غذاؤں کے اثرات ، بیماریوں ،دہشت گردیوں اور آفات و بلیات سے بچ پاتے ہیں وہ اس عہدہ سے مستفید ہوتے۔اس عہدے کے دورانیہ میں تھوڑی معاشرتی عزت و احترام بھی ملتا ہے۔ لوگ اکثر غلطیاں نظر انداز کر دیتے ہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹ مل جاتی ہے۔سنا ہے کہ بزرگ شہریوں کے ریل کے کرایوں میں بھی چھوٹ ہے جس کا اکثر بزرگان کو پتہ نہیں ورنہ شہر کے سارے بزرگ ریلوے شیڈ کے نیچے ہی ملتے۔ ویسے دبی دبی زبانوں سے سنا ہے کہ اس عمر کا عشق اور محبت کافی خطرناک ہوتی ہے۔دولت کی فراوانی میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ان حالات میں ایسے چاچوں بابوں پر خصوصی نظر ہوتی جہاں "انکم " اور " دن کم"کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔

انسانی تاریخ میں پیش آنے والے واقعات پرمشاہدات اور تجربات کی روشنی میں سیانےاس فکر تک پہنچے ہیں کہ جو افراد مریض والےعہدہ پرایک لمبے عرصہ تک برجمان رہتے ہیں اور صحت کے ساتھ تعلق بگاڑ کر رکھتے ہیں وہ باقی صحت مند افراد کی ضد اور ہٹ دھرمی کے برعکس بہت جلداللہ کی رحمتیں سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یوں وہ ایک آدھ دن "میت" اور پھرباقی ماندہ افرادمیں میں" مرحوم "کے عہدہ اور خطاب سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔اور یہ اس فانی دنیا کا آخری عہدہ ہوتا ہے جس کے بعد بندے پر کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔یہ حتمی اور لازمی عہدہ ہے جو عمر کے کسی بھی حصہ میں نصیب ہو سکتا ہے۔ جس کے لیئے مریض کے عہدے پر ہونا ضروری نہیں ہوتا۔اکثر نرم گوشہ افراد اس موقع پر بھی جاتے جاتے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیۓ چند دن بھرپور ضیافت کا بندوبست کروا جاتےہیں۔جس کا سارا ہرجہ خرچہ اولاد یا دیگر لواحقین کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ایسی ضیافتوں میں فی الحال بریانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 25 Articles with 15113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.