قیامت پر قیامت کے سوالات اور قیامت پر قیامت کے جوابات !!

#العلمAlilm سُورةُالنبا ، اٰیت 1تا 40 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
عم
یتساء لون 1
عن النبا العظیم 2
الذی ھم فیہ مختلفون 3
کلا سیعلمون 4 ثم کلا سیعلمون 5
الم نجعل الارض مھٰدا 6 والجبال اوتادا 7 و
خلقنٰکم ازواجا 8 وجعلنا نومکم سباتا 9 وجعلنا الیل
لباسا 10 وجعلنا النھار معاشا 11 وبنینا فوقکم سبعا شدادا 12
وجلعنا سراجا و ھاجا 13 وانزلنا من المعصرٰت ماء ثجاجا 14 لنخرج بہ
حبا و نباتا 15 وجنٰت الفافا 16 ان یوم الفصل کان میقاتا 17 یوم ینفخ فی الصور
فتاتون افواجا 18 وفتحت السماء فکانت ابوابا 19 وسیرت الجبال فکانت سرابا 20 ان
جھنم کانت مرصادا 21 للطٰغین ماٰبا 22 لٰبثین فیھا احقابا 23 لا یذوقون فیہا بردا ولا شرابا
24 الاحمیما وغساقا 25 جزاء وفاقا 26 انھم کانوا لایرجون حسابا 27 وکذبوا باٰیٰتنا کذابا 28 وکل
شئی احصینٰہ کتابا 29 فذوقوا فلن نزیدکم الا عذابا 30 ان للمتقین مفازا 31 حدائق و اعنابا 32 وکواعب
اترابا 33 وکاسا دھاقا 34 لایسمعون فیھا لغوا ولا کذابا 35 جزاء من ربک عطاء حسابا 36 رب السمٰوٰت والارض و
ما بینھما الرحمٰن لایملکون منہ خطابا 37 یوم یقوم الروح والملٰئکة صفا لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمٰن وقال صوابا 38
ذٰلک الیوم الحق فمن شاء اتخذ الٰی ربہ ماٰبا 39 انا انذرنٰکم عذابا قریبا یوم ینظرالمرء ما قدمت یدٰہ ویقول یٰلیتنی کنت ترابا 40
اے ہمارے رسول ! کیا یہ لوگ آپ سے اُس بڑی خبر کے بارے میں پُوچھ رہے ہیں جس کے بارے میں اِن کے درمیان اختلاف ہے تو پھر ٹھیک ہے آپ اِن سے یہ سوال کریں کہ کیا اِن کی یہ زمین ہم نے ہموار نہیں کی ہے ، اِس زمین میں یہ پہاڑ ہم نے نہیں گاڑھے ہیں ، اِن کے مردوں اور عورتوں کے جوڑے ہم نے نہیں بنائے ہیں ، اِن کی نیند کو ہم نے اِن کے آرام کا ذریعہ نہیں بنایا ہے ، اِن کی نیند پر ہم نے شب کی چادر نہیں ڈالی ہے ، اِن کی شب پر ہم نے دن کو روشن نہیں کیا ہے ، اِن پر سات آسمان ہم نے قائم نہیں کیئے ہیں ، اِن کی شب کے اندھیرے پر دن کا سویرا لانے کے لئے اِن پر سُورج کا یہ چراغ ہم نے روشن نہیں کیا ہے ، اِن پر بادل ہم نہیں لاتے ہیں اور اِن پر بارش بھی ہم ہی نہیں برساتے ہیں ، اِن کے لیئے زمین سے سبزیاں ہم نہیں نکالتے ہیں ، اِن کے لئے اِن کی زمین پر یہ باغات ہم نہیں اُگاتے ہیں ، جب آپ اِن سے یہ سوالات پُوچھیں گے تو اِن کا باہمی اختلاف اگرچہ ختم تو نہیں ہو گا لیکن اِن کو سوچ بچار کا یہ راستہ ضرور مل جائے گا کہ جس طرح اِس عالٙم میں ہر ایک کام اپنے اپنے وقت پر ہو رہا ہے تو اسی طرح قیامت بھی اپنے وقت پر ضرور آجائے گی اور جب ہم قیامت قائم کرنے کا اعلان کردیں گے تو یہ سب لوگ اپنی قبروں سے اسی طرح نکل کر باہر آجائیں گے جس طرح زمین کا سبزہ و گُل ہمارے حُکم پر زمین سے باہر آجاتا ہے اور یا پھر جس طرح شب اور دن ہمارے حُکم پر اپنے اپنے وقت پر حاضر و غائب ہوجاتے ہیں اور جب وہ قیامت قائم ہو گی تو سارے آسمان اور سارے آسمانوں کے سارے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور پہاڑ انسان کو ایک بھاگتے ہوئے سراب کی طرح بھاگتے ہوئے نظر آئیں گے اور وہ دوزخ بھی سامنے آجائے گی جس دوزخ میں اِن سرکشوں نے جانا ہے اور ایک مُدت تک اُس میں رہنا ہے ، اُس دوزخ میں اِن کے لئے کوئی ٹھنڈک بھی نہیں ہوگی اور کوئی ٹھنڈا پانی بھی نہیں ہو گا بلکہ اُس دوزخ میں گرمی ہی گرمی ہوگی اور جب اِن کو پیاس لگے گی تو پینے کے لئے پانی بھی ملے گا تو کھولتا ہوا پانی ہی ملے گا جو اِن کے اُن اعمال کا بدلہ ہو گا جو اعمال ہم نے وقت اور جگہ کے مطابق لکھے ہوئے ہیں اور چونکہ یہ لوگ ہماری اٰیات کی مُسلسل تکذیب کے مُجرم ہوں گے اِس لئے اِن کو یہ اذیت بھی مُسلسل دی جائے گی لیکن جن لوگوں نے اپنی دُنیا میں ہمارا کہا مانا ہو گا اُن کا ٹھکانا ہماری وہ جنت ہوگی جس میں اُن کی زندگی سے بچپن اور بڑھاپا نکال دیاجائے گا اور اُن کو ایک سدا بہار جوانی دے دی جائے گی اور اُن کو وہ ہم عمر ساتھی دیئے جائیں گے جو ایک دُوسرے کے مزاج شناس ہوں گے اور اُن کی اُس جنت میں کوئی بھی ایک دُوسرے کے ساتھ کوئی جُھوٹی یا بیہودہ بات نہیں کرے گا اور یہ اُن کی یہ آرائشِ زندگی اور آسائشِ زندگی اُن کے اُس خطاپوش و مہربان رب کی طرف سے ہوگی جو ساری زمینوں اور سارے آسمانوں کی ساری مخلوق کا لا شریک رب ہے اور جس روز جس تقریب میں وہ اپنے اِن بندوں کو یہ انعامِ جنت دے گا اُس روز اُس تقریب میں اُس کے فرشتے بھی صف بہ صف کھڑے ہوں گے اور کوئی بھی اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کے ساتھ کوئی لٙب کشائی نہیں کر سکے گا ، یقین جانو کہ اُس دن کا آنا برحق ہے ، جو انسان اپنے رب کا کہا مانے گا وہ اُس دن اپنی کمائی اور اُس کمائی کا سارا نفع بچشمِ خود دیکھے اور بذاتِ خود پائے گا اور خُدا کے مُنکر اِس منظر کو دیکھ کر حسرت سے کہیں گے کاش کہ ہم اِس دن سے پہلے ہی مر کر مٹی ہوچکے ہوتے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن بھی قیامت کا وہی مضمون ہے جو مضمون اِس سُورت سے پہلی دو سُورتوں سُورٙةُالقیامة و سُورٙةُالدھر میں بیان ہواہے اور جو مضمون اِس سُورت کے بعد سُورٙةُالنازعات میں بھی بیان ہونا ہے اور سُورٙةُالنازعات سے پہلے اِس سُورت میں قیامت کا جو مضمون بیان ہوا ہے اُس کا مُکمل مفہوم اگرچہ اِس سُورت کے متنِ بالا کے تحت آچکا ہے لیکن اُس مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لئے اُس مفہوم کا ہم جو عقلی و مٙنطقی پس منظر سامنے لانا چاپتے ہیں اُس پس منظر میں آنے والی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یومِ قیامت کا یہ مضمون وہی مضمون ہے جس مضمون کو سُورٙةُالقیامة کی اٰیت 16 و 17 اور اٰیت 18 و 19 میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول علیہ السلام سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ قیامت پر ہمارا یہ خطاب جو ابھی جاری ہے وہ اِس کے بعد بھی جاری رہنا ہے اِس لئے اِس خطاب کو آپ نے تکمیل سے پہلے اپنے خطاب میں شامل نہیں کرنا ہے اور جب ہم اپنا یہ خطاب مُکمل کر لیں گے تو ہم خود ہی آپ کو یاد دلا دیں گے کہ آپ نے کب یہ خطاب کرنا ہے اور کیا خطاب کرنا ہے اور اِس سُورت کا یہ مقام وہی مقام ہے جہاں پر آپ کو یاد دلایا گیا ہے کہ اٙب آپ نے قیامت کے اُس موضوع پر خطاب کرنا ہے کیونکہ اِس وقت مُشرکینِ عرب کے درمیان یومِ قیامت کے واقع ہونے اور یومِ قیامت کے واقع نہ ہونے کے بارے میں جو بحث و مباحثہ جاری ہے اور اُس بحث و مباحثے میں اِس وقت وہ ایک دُوسرے کے ساتھ جو سوال و جواب کر رہے ہیں اُن کے اِس سوال و جواب کا یہ موقع آپ کے یومِ قیامت پر خطاب کا ایک بہت ہی موزوں موقع ہے اِس لئے آپ اِن سے اِس وقت جو خطاب کریں اُس خطاب میں آپ قیامت کے بارے میں مُشرکینِ عرب کے صرف اُن مُسلّمات پر بات کریں جو مُسلّمات اُن کے نزدیک ہمیشہ سے مُسلّم ہیں اور مُشرکینِ عرب چونکہ اللہ تعالٰی کے خالق و مالک ہونے کے کبھی بھی مُنکر نہیں تھے بلکہ وہ اِس بات کے دعوے دار تھے کہ خالق بالذات و مالک بالذات اور حاجت روا بالذات و مُشکل کشا بالذات تو اللہ تعالٰی ہی ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اپنی رضا سے اپنے جن پیاروں کو اپنے گناہ گار بندوں کی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کے لئے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے ہم اُن کی ہی پُوجا کرتے ہیں اور اسی لئے پُوجا کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے پیارے ہیں اور اللہ کی مرضی سے ہماری حاجت روائی اور مُشکل کشائی کرتے رہتے ہیں اور اِس وقت جب اُن کے درمیان قیامت کے وقوع اور عدمِ وقوع پر بحث جاری تھی تو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی علیہ السلام کو اُن سے وہ گیارہ سوالات پُوچھنے کا حُکم دیا تھا جو گیارہ سوالات اِس سُورت کی اٰیت 6 اور اِس سُورت کی اٰیت 16 کے درمیان موجُود ہیں اور اِن سوالات کے فورا بعد اِس سُورت کی اٰیت 17 میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ قیامت کے اُس فیصلے کے دن نے آکر رہنا ہے جس دن اللہ تعالٰی کے اقتدار و اختیار کا اقرار کرنے اور اللہ تعالٰی کے اقتدار و اختیار کا انکار کرنے والوں کی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا ہے ، اِس سُورت کی جن گیارہ اٰیات میں مُشرکینِ عرب سے جو گیارہ سوالات کیئے گئے ہیں اُن گیارہ سوالات سے ایک تو اِس اٙمر پر یہ استدلال کیا گیا ہے کہ تُم لوگ خُدا کے جن اختیارات کو خُدا کے اختیارات مانتے ہو تو اُس کے ساتھ ہی یہ دعوٰی بھی تو کرتے ہو کہ خُدا کے کُچھ پیارے بھی خُدا کے اِن اختیارات میں شریکِ اختیار ہیں اِس لئے اٙب یہ بھی بتاوؑ کہ تُم سے گیارہ سوالات میں جو گیارہ باتیں پُوچھی گئی ہیں اُن گیارہ باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی ہے جو تُمہارے خیال میں آنے والے خُدا کے کسی ایک پیارے نے بھی کبھی کی ہو ، اُس نے کوئی آسمان قائم کیا ہو ، اُس نے کوئی زمین بنائی ہو ، اُس نے زمین کے سینے میں کہیں سے کوئی پہاڑ لاکر ڈالا ہو ، اُس نے زمین میں کوئی سبزہ و گُل اُگایا ہو ، اُس نے مرد و زن کا کوئی جنسی جوڑا بنایا ہو ، اُس نے کسی انسان کے لئے نیند کو سکون کا سبب بنایا ہو ، اُس نے رات کے بجائے دن کو تُمہارا پردہ پوش بنایا ہو یا اُس نے رات کو دن کی طرح تُمہارے لِے روشن و کار آمد بنایا ہو ، اُس نے کبھی کوئی سُورج پیدا کیا ہو ، اُس نے کہیں پر کبھی کوئی بارش برسائی ہو اور اُس نے کبھی کسی درخت پر کوئی پُھول کھلایا ہو ، اگر یہ سب کُچھ اللہ کے سوا کسی اور نے کبھی بھی نہیں کیا ہے اور کبھی بھی کوئی اور نہیں کر سکتا ہے تو پھر اِس سے پہلے بھی اللہ کے اقتدار و اختیار میں کبھی بھی کوئی شریکِ اقتدار و اختیار نہیں تھا اور اِس کے بعد بھی کبھی بھی کوئی اُس کے اقتدار و اختیار میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا اور اِن ہی گیارہ سوالات سے قُرآن نے دُوسرا استدلال یہ کیا ہے کہ اگر آج تک سورج ہمیشہ ہی اپنے وقت پر طلوع و غروب ہوتا رہا ہے ، شب و رزو ہمیشہ ہی اپنے اپنے وقت پر ایک دُوسرے کے آگے اور پیچھے اُسی ترتیب کے ساتھ آتے اور جاتے رہے ہیں تو پھر قیامت بھی اُسی طرح اُس کے حُکم پر واقع ہو جائے گی جس طرح دُوسرے تمام اُمور اُس کے ارادے اور اُس کے حُکم پر واقع ہو رہے ہیں اور چونکہ قیامت کا اصل مقصد انسان کا حسابِ حیات اور اِس کے اعمالِ خیر و شر کی جزا و سزا ہے اِس لئے قیامت کے اِس مضمون کے ضمن میں ہر جگہ کی طرح اِس جگہ پر بھی جنت کی اُن راحتوں کا اور جہنم کی اُن جراحتوں کا وہ ذکر بھی کیا گیا ہے جو ہر جگہ پر اِس مضمون کے ایک مناسب کے حوالے کے طور پر کیا جاتا ہے ، اِس سُورت کی ایک اہم اٰیت بلکہ سارے قُرآن کی ایک اہم اٰیت اِس سُورت کی اٰیت 23 ہے جس میں اہلِ جہنم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ { لّٰبثین فیھا احقابا} یعنی وہ ایک طویل مُدت تک اسی جہنم میں پڑے رہیں گے ، اِس اٰیت میں جو لفظِ { احقابا } آیا ہے وہ اسمِ واحد { حقب } کی جمع قلت ہے جس کا معنٰی ایک طویل مُدت ہوتا ہے اور اِس کی اِس جمع قلت { احقابا } کا معنٰی طویل مُدتیں ہوتا ہے جو اِس اٙمر کی صراحت ہے کہ اِن اہلِ جہنم میں سے کُچھ اہلِ جہنم اِس جہنم میں حسبِ قلتِ سزائے عمل ایک طویل مُدت رہیں گے اور کُچھ اہلِ جہنم اِس جہنم میں حسبِ کثرتِ سزائے عمل طویل مُدتیں گزاریں گے جس کے مطابق کُچھ اہلِ جہنم ایک طویل مُدت کے بعد اُس جہنم سے آزاد ہوں گے تو کُچھ اہلِ جہنم کُچھ طویل مُدتیں گزارنے کے بعد اُس جہنم سے آزاد ہوں گے لیکن آزاد بہر حال ضرور ہوں گے کیونکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو دی گئی کسی سزا کی بُنیاد اُس کی دُشمنی کی بنا پر نہیں دی جاتی بلکہ اُس کی اُس اصلاح کی بُنا پر دی جاتی ہے جو اصلاح اُس کو مطلوب ہوتی ہے اور جہاں تک لفظِ { خُلد } اور { خلود } کا عام معنٰی عام طور پر ایک دائمی جزا و سزا کیا جاتا ہے اُس کا حقیقی معنٰی بھی ایک طویل مُدتی جزا و سزا ہی ہوتا ہے ، قُرآن نے خُدا کا یہ قانون سُورٙہِ ھود کی اٰیت 106 و 107 اور اٰیت 108 میں اہلِ جنت و اہلِ جہنم دونوں کے لئے اسی طرح بیان کیا ہے اور اِس کی عملی صورت یہ بیان کی ہے کہ یہ جنت و جہنم اُس وقت ختم ہوں گی جب اِس جنت و جہنم کے زمین و آسمان ختم ہوں گے اور یا پھر اُس وقت ختم ہوں گی جب اللہ تعالٰی اُن کو خود ختم کرنا چاہے گا اور اِس کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ جب اہلِ جہنم اُس جہنم سے آزاد ہوں گے تو اہلِ جنت اُس جنت سے گزر کر ارتقائے حیات کے کسی اور اعلٰی مقام تک پُہنچ چکے ہوں گے اور کوئی نہیں جانتا اور کوئی نہیں جان سکتا کہ یہ سلسلہ حیات و ارتقائے حیات اُن جہانوں میں کب تک چلتا رہے گا اور انسان کن کن اٙدنٰی مقامات سے گزر کر کن کن اعلٰی مقامات تک جائے گا اور { کل من عیلھا فان } کا جو مرحلہ ہے وہ بھی ہمارے خیال میں آنے والے اِس عالٙمِ خیال کا ایک مرحلہِ خیال ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 465696 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More