کتوں پر نوٹس


پچھلے دنوں ایک چھوٹی سی خبر ہاں جی بلکل چھوٹی سی خبر نظروں سے گذری کہ اسلام آباد میں کتوں پر وفاقی محتسب نے نوٹس لے لیا کچھ کتے آوارہ ہوتے ہیں کچھ پالتو ہوتے ہیں اور کچھ گھر کے ہوتے ہیں اور نہ ہی گھاٹ کے کتا تو بہرحال کتا ہی ہے جسکا کام انسانوں کو کاٹنا ہے یہی کام اگر انسان کرنا شروع کردے تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ جاتا ہے خیر میں بات کررہا تھا کتوں کی وہ بھی اوارہ قسم کے جو ہر کسی پر بھونکتے ہیں اور بس چلے تو کاٹ بھی لیتے ہیں ویسے تو کتوں کی بہت سی قسمیں ہیں مگر میں یہاں پر بات کروں گا آوارہ کتوں کی جنکا وفاقی محتسب جناب اعجاز قریشی نے نوٹس لیا ہے باقی کتوں پر پھر کبھی بات کروں گا جو آوارہ ہوتے ہوئے بھی پالتو ہوتے ہیں جنہیں کبھی کوئی چھچڑا ڈال دیتا ہے تو کبھی کوئی ہڈی ڈال دیتا ہے یہ بعض اوقات پالتوکتوں سے زیادہ وفاداری نبھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو ہڈی انہیں ملتی ہے وہ ملتی ہی رہے انکے گلے میں غلامی کا پٹہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ یہ کتے کبھی کسی کے تلوے چاٹ رہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی اور کے مقصد صرف انکا ایک ہڈی ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات انکے آگے پھینکی ہوئی ہڈی انکے گلے میں بھی پھنس جاتی ہے اور پھر یہ ہڈی پھینکنے والے پر بھی بھونکنا شروع کردیتے ہیں کچھ شکاری قسم کے کتے بھی ہوتے ہیں جنہیں کبھی کبھار صرف شکار کی خاطر ہی باہر نکالا جاتا ہے یہ اپنے شکار کو دبوچنے میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ شکار کو کان وکان خبر نہیں ہوتی اور یہ چھپٹ پڑتے ہیں یہ کتے وفادار اتنے ہوتے ہیں کہ اپنے پسندیدہ شکار کو بھی گردن سے دبوچ کر سیدھا مالک کے قدموں میں لاتے ہیں جس پر مالک خوش ہوکر انہیں پیار بھی کرتا ہے انکے بالوں میں انگلیاں بھی پھیرتا ہے اور انکی خاطر تواضع بھی ہوتی ہے کتوں کی باقی قسموں پر پھر کبھی بہرحال ہوتے وفادار ہیں اپنے مالک کی خاطر کسی کو بھی بھنبھوڑ سکتے ہیں میں نے جیسے عرض اوپر عرض کیا تھا کہ وفاقی محتسب نے آوار ہ کتوں پر نوٹس لیا جو آجکل ہر شہر میں موجود ہیں ویسے تو یہ کتے ہماری گلی محلوں تک پھیل چکے ہیں جن سے کوئی بھی محفوظ نہیں میری مراد کتوں سے ہے جنہیں ہم سب کتا ہی کہتے ہیں خیر میں بات کررہا تھا نوٹس لینے کی یہ کام ہماری میونسپل کمیٹی کے نچلے لیول کا ہے جنکے کام نہ کرنے سے آوارہ کتے اتنے ہوچکے ہیں انکی بات بھی اوپر تک پہنچ گئی یہ ایک ادارے کے ایک چھوٹے سے حصے کی بات ہے جنکا کام ہی کتوں کو مارنا ہوتا ہے جب یہ لوگ اپنا کام نہیں کررہے تو پھر اوپر والوں کا حساب کتاب آپ خود لگالیں اسی لیے تو نہ صرف ہمارے ادارے تباہ و برباد ہوئے بلکہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے نکمے اور نااہل افراد کی بدولت پاکستان بھی معاشی بدحالی کا شکار ہوگیا پاکستان میں کام کرنے والے بہت سے لوگ ہیں جنہیں موقعہ نہیں دیا جاتا اور جو اپنی قابلیت ،محنت ،خلوص اور جذبے سے اوپر آجاتے ہیں تو پھر اسی ایک شخص کی وجہ سے ادارہ بھی مضبوط ہوتا ہے اور اس میں کام کرنے والے افراد بھی اپنا اپنا قبلہ درست کرلیتے ہیں کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جنکی بدولت ادارے مضبوط ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب کوئی اپنے پاؤں پر آجاتا ہے تو پھر وہ دوسروں کا بھی ہاتھ تھام کر منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم نے ادارے تو بنا دیے مگر ان میں ایسے افراد نہ لاسکے جو انہیں مضبوط بناتے یہی وجہ ہے کہ آج جدھر بھی نظر دوڑائیں کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سمجھ آتی ہے اور اوپر سے ہم نے ایک اور کام شروع کررکھا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو ہم نے آگے نہیں آنے دینا جو ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ایسے افراد کی ٹانگیں ہم دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر اسے گرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اﷲ تعالی ہم پر مہربان ہے جس نے اپنے خاص بندوں کو ہماری خدمت پر معمورکررکھاانہی میں سے ایک وفاقی محتسب اعجاز احمد قر یشی بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف عدالتوں کا بوجھ کم کیا ہوا ہے بلکہ ملک کے کونے کونے میں غریب ،نادار اور مفلس لوگوں کو مفت انصاف کی فراہمی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی یہ خدمت خلق یوں کرتے ہیں جیسے رمضان المبارک میں کوئی خدائی خدمتگار بغیر کسی لالچ اور مفاد کے ہاتھ میں ٹین کا ڈبہ اٹھائے یا گلے میں ڈھول لٹکائے سوئے ہوؤں کو اس لیے اٹھاتا ہے کہ وہ رزہ رکھ کر اﷲ تعالی کی بے مثال نعمتوں کو سمیٹ لیں پورے تیس دن وہ یہ کام بلاناغہ کرتے ہیں اسی طرح وفاقی محتسب نے بھی اعلان عام کررکھا ہے کہ بغیر کسی فیس ،لالچ اور مفاد کے اپنے کیس فوری نمٹانے کے لیے آپ ہم تک آئیں نہ آئیں ہم آپ کے پاس آرہے ہیں جذاک اﷲ کیا جذبہ ہے غریب لوگوں کی خدمت کاایسے لوگ مدتوں بعد آتے ہیں اور صدیوں کا کام کرجاتے ہیں گذشتہ روز بہت ہی پیارے اور خوبصورت انسان دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب نے وفاقی محتسب اعجاز قریشی صاحب سے ایک نشست رکھوائی ڈھیروں باتیں ہوئی یہ انسان واقعی خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہے کاش ایسے ہی سبھی لوگ اپنے حصے کا کام کرجائیں تو بات کچھ بن جائیگی اعجاز قریشی نے وہ حالات خود بھی دیکھے ہوئے جن سے ایک عام انسان گذرتا ہے ٹاٹ سکول سے پڑھنے والے اس محب وطن انسان کو غربت کا اندازہ ہے اور غریبوں کے مسائل کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں ایک عام انصاف حصول انصاف کے لیے کتنا خوار ہوتا ہے اور اسکو حصول انصاف کے لیے کن کن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے انہی مشکلات اور پریشانیوں کو انہوں نے نہ صرف ختم کردیا بلکہ جڑ سے اکھاڑ دیا اعجاز قریشی نے اپنے ادارے کے تمام انو سٹی گیشن افسران کو ہدا یت کررکھی ہے کہ وہ ملک کے دور دراز اور پسما ندہ علا قوں میں خو د جا کر عوام النا س کو ان کے گھر کے قر یب انصا ف فرا ہم کر یں تا کہ ان کے سرمائے اور وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ انہیں سفر کی صعو بت بھی نہ اٹھا نا پڑ ے انکا کہنا ہے کہ ہمیں سپر یم کو رٹ کے جج کے برا بر اختیا رات ہونے کے با وجودہم افہام و تفہیم سے مسا ئل حل کر نے کی کو شش کر تے ہیں لیکن اگر کو ئی ہما رے احکا مات کی پر واہ نہ کر ے تو ہم اپنے اختیا رات استعمال بھی کر سکتے ہیں اس وقت چاروں صو بوں کے صو با ئی ہیڈ کوا رٹرز کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑ ے شہر وں میں واقع چو دہ علا قا ئی دفا تر کے افسران مختلف شہر وں اور قصبوں میں خو د جا کر کھلی کچہر یاں لگا رہے ہیں جہاں برا ہ راست شکا یت کنند گان کی شکا یات سن کر موقعہ پر مسائل حل ہورہے ہیں خیر میں بات کر رہا تھا آوارہ کتوں کی جسکا نوٹس بھی وفاقی محتسب کو ہی لینا پڑا باقی ادارے سوئے ہوئے ہیں اور کوئی انہیں جگانے کی کوشش بھی نہ کرے ہوسکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی کتا وہاں بھی ہو اور وہ آپ کو کاٹ لے ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 513944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.