یومِ قیامت و اِستشہادِ یومِ قیامت !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُرسلات ، اٰیت 1 تا 28 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والمرسلٰت
عرفا 1 فالعٰصفٰت
عصفا 2 والنٰشرٰت نشرا
3 فالفٰرقٰت فرقا 4 فالملقیٰت
ذکرا 5 عذرا او نذرا 6 انما توعدون
لواقع 7 فاذاالنجوم طمست 8 و اذاالسماء
فرجت 9 واذا الجبال نسفت 10 واذا الرسل اقتت
11 لایّ یوم اجلت 12 لیوم الفصل 13 و ما ادرٰک ما یوم
الفصل 14 ویل یومئذ للمکذبین 15 الم نھلک الاولین 16 ثم
نتبعھم الاٰخرین 17 کذٰلک نفعل بالمجرمین 18 ویل یومئذ للمکذبین
19 الم نخلقکم من ماء مھین 20 فجعلنٰہ فی قرار مکین 21 الٰی قدر معلوم
22 فقدرنا فنعم القٰدرون 23 ویل یومئذ للمکذبین 24 الم نجعل الارض کفاتا 25
احیاء و امواتا 26 و جعلنا فیھا رواسی شٰمخٰت و اسقینٰکم ماء فراتا 27 ویل یومئذ
للمکذبین 28
انسان قیامت کے جس یومِ انقلاب کا انکار کرتا ہے ہم اُس یومِ انقلاب پر شہادت قائم کرنے کے لئے ہم اُس دن سے پہلے بھی اِس عالٙم میں اپنے عالٙمِ فطرت کی وہ انقلابی قُوتیں بہیجتے رہتے ہیں جو اِس عالٙم میں نفع بخش نظام کے قیام اور غیر نفع بخش نظام کے انہدام میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں کیونکہ ہمارے عالٙم میں نفع بخش چیزوں کو باقی رکھا جاتا ہے اور غیر نفع بخش چیزوں کو ختم کر دیا جاتا ہے تاکہ مرنے مٹنے اور مارنے مٹانے والی اِن چیزوں کے تصادم میں جس غیر نفع بخش چیز نے مٹنا ہے وہ مٹ جائے اور جس نفع بخش چیز نے بچنا ہے وہ بچ جائے اِس لئے انسان کو یقین کرلینا چاہیئے کہ جس فیصلے کے جس دن کا اُس سے وعدہ کیا گیا ہے اُس دن نے آنا ہی آنا ہے اور جب وعدے کا وہ دن آجائے گا تو ہماری فطری قوتیں خلا کی اِس چادر کو کھول دیں گی جس کے بعد ستارے اور سیارے ریت کے ذروں کی طرح اِس فضا میں بکھر جائیں گے اور کوہ و جبال بھی خاشاک کی طرح اُڑکر ذرات کی صورت میں پھیل جائیں گے جس کے بعد ہادیانِ دین کو بلا لیا جائے گا اور فیصلہ کا وہ مُوؑخر دن شروع ہو جائے گا تو ہر بے یقین کو اُس کی آمد کا یقین ہو جائے گا اور اُس دن کی تکذیب کرنے والے سارے لوگ اُس دن رُسوا ہوں گے ، آخرت کے اِس دن کے اِن منکروں کے ساتھ وہ پہلے منکر بھی لا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے جو اِن منکروں سے پہلے اپنی زندگی کے بعد آنے والے اِس دن کا انکار کیا کرتے تھے اور اِس طرح ہم اِن سارے مجرموں کو ایک دن ایک ہی جگہ پر جمع کردیں گے اور اُس دن کی تکذیب کرنے والے اُس دن ذلیل و رُسوا ہو جائیں گے ، اُس دن انسان سے پُوچھا جائے گا کہ وہ کیا چیز تھی جس کے باعث تُو بُھول گیا تھا کہ ہم نے تُجھے ایک قطرہِ آب کی صورت میں اپنے مقرر کیئے ہوئے ایک حیات بخش مقام پر ایک وقت تک قیام و قرار بخشا تھا اور پھر تُجھے اپنی قدرت سے ایک موجِ عالٙم تاب بناکر اِس عالٙم میں پھیلایا تھا اِس لئے آج تیرے اُن سارے فرزندوں کے لئے ذلت و رُسوائی ہے جنہوں نے ہمارے اِس یومِ حساب کا انکار کیا تھا ، تُم غور کرو کہ کیا ہم نے زمین کو جاندار و بے جان کو سمیٹ لینی والی نہیں بنایا ہے اور ہم نے اِس میں بلند و بالا پہاڑ کھڑے نہیں کیئے ہیں اور کیا ہم نے تُمہارے تشنہ لبیوں کو سیراب کرنے کے لیئے اِن کے روزنوں سے تُمہارے لئے میٹھا و شفاف پانی نکال کر تُم تک نہیں پُہنچایا ہے ، اگر تُم یہ سب فراموش کر چکے ہو تو پھر تُم خود سوچو کہ آج یہاں پر تُم کو اِس ذلت و رُسوائی کے سوا کیا مل سکتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا نام { مُرسلات } بروزنِ { مُشکلات } ہے جو اپنی لفظی ساخت کے اعتبار سے اسمائے مفعول میں سے ایک اسمِ مفعول ہے اور جمع ہے جس کا معنٰی کسی جگہ پر کسی مقصد کے لئے کُچھ چیزیں بہیجنا ہوتا ہے اور جب اِس پر تخصیص و معرفت کا { الف لام } بھی آگیا ہے تو اُن چیزوں کی بھی تخصیص ہو گئی ہے جن خاص چیزوں کا اِس سُورت کی پہلی اٰیات میں ذکر کیا گیا ہے اور اِن میں بیان کی گئی خاص چیزوں سے مُراد وہ خاص چیزیں ہیں جو چیزیں اللہ تعالٰی نے قیامت سے پہلے اِس عالٙم میں اِس مقصد سے بہیجی ہوئی ہیں کہ اِن خاص چیزوں کا انقلابی عمل قیامت واقع ہونے کے انقلابی عمل کی شہادت دیتا رہے اور اِن چیزوں کے اِس انقلابی عمل سے انسان کو قیامت کے بڑے انقلاب کا بھی کُچھ نہ کُچھ اندازہ ہوتا رہے ، اِس سُورت سے پہلی دو سُورتوں میں قیامت کا جو پہلا مضمون بیان ہوا ہے اِس سُورت میں بھی قیامت کا وہی پہلا مضمون بیان ہوا ہے اور اِس سُورت کے بعد آنے والی دو سُورتوں میں بھی قیامت کا وہی پہلا مضمون بیان ہونے والا ہے ، عُلمائے تفسیر نے اِس سُورت کی ابتدائی اٰیات سے جو چند چیزیں مُراد لی ہیں اور پھر اُن چند چیزوں میں سے ترجیحی بُنیاد پر جو چیز کثرت رائے سے قبول کی گئی ہے وہ عالٙم میں پھیلی ہوئی وہ ہوا ہے جو روشنی کی طرح روشنی سے پہلے ہی ہر اُس جگہ پر پُہنچ جاتی ہے جس جگہ پر کسی خاص مقصد کے تحت کسی طریقے کے ساتھ اِس ہوا کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی گئی ہو ، ہماری زمین پر موجُود رہنے والی اِس ہوا کا مرکز و مخرج ہمارا وہ سُورج ہے جس میں قُدرت نے وہ بیشمار بڑے بڑے ہوائی اخراج کے راستے بنائے ہوئے ہیں جن راستوں سے یہ ہوا گزر کر ایک ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ہماری زمین کی طرف آتی ہے اور سُورج سے زمین کی طرف آنے والی اِس ہوا میں زمین کے اُوپری سطح پر موجُود رہنے والی وہ بے شور ہوا بھی شامل ہوتی ہے جو ہوا خراماں خراماں چلتی ہوئی آتی ہے اور ہر جان دار کے پھیپھڑوں میں اپنی تازہ توانائی ڈال کر گزر جاتی ہے ، اِس بے شور ہوا کے مقابلے میں ایک وہ پُر شور ہوا بھی ہوتی ہے جو اپنے دوش پر گرد و غبار کے طوفان اُٹھا کر لاتی ہے اور بیشمار انسانی بستیوں کو ملیا میٹ کر کے گزر جاتی ہے ، اِس نامُراد ہوا کے سنگ وہ بامُراد ہوا بھی ہوتی ہے جو اپنے زور سے پانی کے سینے پر سفینوں کو آگے بڑھاتی ہے اور بڑے بڑے دیو ہیکل جہازوں کو سینہِ سمندر پر چلاتی ہے ، یہ ہوا پھیل پھیل کر چلتی ہے اور بادلوں کو فضا میں پھیلا پھیلا کر چلاتی ہے اور پھر ضرورت کے مقام پر لے جاکر برساتی ہے ، ہوا کی ایک قسم وہ بھی ہے جو انسانی خیالات کو ایک خوب صورت ساز و آواز اور الفاظ و اصوات میں ڈھال کر انسان کے لب و زبان اور گوشِ سماعت تک پُہنچاتی ہے ، یہ ہوا انسان کے مُنہ سے نکلے ہوئے الفاظ ہی کو نہیں بلکہ اِس کے خیالات کو بھی چند لٙمحوں اور لحظوں میں مشرق سے مغرب تک پُہنچا سکتی ہے ، اِس ہوا کا ایک اور کمال یہ ہے کہ اِس نے اٙزل سے ابد تک پیدا ہونے والی آوازوں کو فضا کے کسی گوشے میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور قیامت تک پیدا ہونے والی یہ آوازیں ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اِس کے اسی آواز خانے میں جمع ہو رہی ہیں ، قیامت کے روز جب منکرینِ قیامت اپنے اعمال کا انکار کریں گے تو اُن کی ہوا کی ہوا میں جمع کی گئی یہ آوازیں بذاتِ خود بھی اُن کے خلاف ایک ناقابلِ تردید گواہی ہوں گی ، جس روز انسان اپنے الفاظ و اعمال کو جُھٹلانے کی جرات کرے گا اُس روز اِس فضا کے اسی توشہ خانے میں الفاظ و اصوات کا ریکارڈ رکھنے والی یہ ہوا انسانی زندگی کی ہر ایک صواب و خطا کی حامل آواز سامنے لا کر انسان کا ناطقہ بند کر دے گی اور انسان کے سارے اعضائے جسمانی اِس کی زندگانی کی ایک ایک جلی و خفی کہانی دُہرانے پر قادر ہو جائیں گے ، یہ جو ہوا اہلِ زمین کی طرف آتی ہے تو اِس پیغام کے ساتھ آتی ہے کہ کوئی ظالم اپنی رسی کو دراز نہ جانے کیونکہ قُدرت کی پیدا کی ہوئی جو ہوا اپنے خالق کے حُکم سے زمین پر یہ آفات لا سکتی ہے تو وہی ہوا اِس زمین پر وہ قیامت بھی لا سکتی ہے جس قیامت کا انسان انکار کر رہا ہے تاہم اِس سُورت کی اِن اٰیات کے حوالے سے مُجرد ایک ہوا یاچند ایک ہواوں کا حوالہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اِن حوالہ جات میں نظامِ فطرت کی وہ تمام دیدہ و پوشیدہ قوتیں شامل ہیں جو قدرت کی طرف سے اِس عالٙم میں اِس عالٙم کے تغیرات پر ما مُور ہیں اور جن کی وجہ سے زمین پر جس طرح دیگر انقلابات رُونما ہوتے رہتے ہیں اسی طرح ایک دن وہ بڑا انقلاب بھی رُونما ہو جائے گا جس کا نام قیامت ہے ، خلاصہِ کلام یہ ہے کہ ہوا کے یہ انقلابات بھی انقلابِ قیامت پر عالٙمِ فطرت کا وہ فطری استشہاد ہیں جن کا انسان مشاہدہ کرتا رہتا ہے اِس لئے اِس انسانی مشاہدے کی بنا پر بھی قیامت کا انکار مُمکن نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461389 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More