معافی نہیں مہلت چاہتے ہیں

تحریر :وارث دیناری
اس وقت پورے ملک میں خاص کر سندھ بلوچستان میں سیلاب نے تباہی مچادی ہے کئی کھاتے پیتے خوشحال گھرانے دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں گھرکاروبار فصلیں غرض کہ سب کچھ لوٹ گیا خالی ہاتھ بے سروسامانی کی حالت میں کہیں پر کوئی ٹینٹ ملا تو کسی کو ٹینٹ تک نہیں ملا کھلے سمان تلے قیامت خیز گرمی میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی مستقبل سے مایوس زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ سیلاب سے قبل ان علاقوں میں آباد کئی لوگ بہترین نہیں تو بہتر زندگی ضرور گزار رہے تھے۔ ان لوگوں کی خوشیاں ان کے ارمان سب کچھ سیلاب اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے۔سونے پر سہاگا۔خوشحالی کے دنوں میں کئی افراد نے اپنی آمدنی کو دیکھ کر اپنی ضروریات کیلئے مختلف بینکوں سے قرضے لیتے رہے جو کہ بروقت وہ لوگ باقاعدگی سے معاہدے کے مطابق سود کے ساتھ ادا کرتے آرہے تھے۔اور مذکورہ بینکیں ان سے خوب کماتے آرہے تھے۔لیکن پھر اچانک سیلاب نے سب کچھ بگاڑدیا ہے۔اور یہ خوشحال گھرانوں سے وابستہ افراد۔کوڑی کوڑی کیلئے محتاج بن گئے ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بعض کمرشل بینکوں نے ساتھ دینے کی بجائے ان کو اقساط اداکرنے کیلئے تنگ کرنا شروع کیا ہے۔ایک طرف بارش نے تباہی مچادی ہے تو دوسری جانب انھوں نے ماہانہ قسطوں کی اداگئی کیلئے ان متاثرین لوگوں کا جینا جنجال کردیا ہے۔ جبکہ و ہ اس وقت کھانے کیلئے پریشان ہیں قسط اور سود کی رقم کہا سے لائیں۔یہاں تک گورنمنٹ کی طرف سے ان اضلاع کو آفت زدہ کرار دے دیا تمام واجبات ریونیوکی وصولی تک روک دی گئی ہے۔ لیکن۔کچھ کمرشل بینکوں کے بعض اہلکار وں کو ان سیلاب ذدگان کی مجبوریوں مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے۔کہ ہم لوگوں پر کون کونسی آفت اور مصیبتیں آئی ہیں ان کو تو مارک اپ سمیت قسط چاہئے۔دیکھا جائے تو ان بینکوں نے ان لوگوں سے بہت کمایا ایک عرصے سے ان بچاروں کو سخت شرائط پر قرضے دے کر ان کی خون پسینے کی کمائی سے خوب منافع کماتے رہے۔کھاتے رہے۔اب اس مشکل وقت میں وہ بچارے ان بینکوں سے اپنے قرضوں کی معافی نہیں صرف اور صرف مہلت ہی چاہتے ہیں

اگر ان بینکوں کو ان بے بس مجبور لوگوں کی طرف سے سال چھ ماہ تک قسط نہیں ملا تو کونسی قیامت آجائے گئی یا یہ کہ یہ بینک دیوالیہ ہوجائیں گئے۔تاہم بینکوں کی طرف سے اس معمولی رعایت سے جو کہ صرف ادائیگی وں کو موخر کر دینے۔کی حدتک ہیں۔ ان سیلاب متاثرین کسی حد تک بھلا ہوجائے گا۔ ریلیف ملے گئی ویسے ان آفت زدہ لوگوں کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کیلئے ایک لمبے عرصے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مہنگائی میں وہ کس طرح کھائیں گئے اپنے تباہ شدہ مکانات کس طرح تعمیر کریں گئے کس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دیں گئے زندگی کی دیگر ضروریات کو کیسے پورا کریں گئے یہ سوچ سوچ کر دماغ چکرا جاتا ہے پھر خیال آتا ہے اﷲ تعالیٰ بہت بڑا ہے وہی اسباب پیدا کرنے والا ہے دل کو تسلی ہو جاتی ہے۔مصیبت کی اس گھڑی نے سب کی پہچان کرائی ہے۔ اپنے پرائے خداترس ناترس سب کے چہروں سے نقاب اتر گیا ہے۔ہم سب نے کئی بار اس طرح کے مناظر دیکھے ہیں۔جب کوئی شخص جو کہ پہلے ہی جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے جب وہ بیمار پڑتا ہے تو پھر اس پر کئی بیماریاں حملہ آوار ہوجاتے ہیں۔یہی معاملہ سیلاب متاثرین کو بھی درپیش ہے جو جتنامالی طور پر کمزور ہے سب سے زیادہ مشکلات کا سامناان کو ہی کرنا پڑتا ہے۔بینکوں کے یہ آفیسران جو اے سی والے بنگلوں سے نکل کر اے سی والی گاڑیوں پر ا ے سی واے دفاتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔بھلا ان آفیسروں کو کیا احساس ہوگا کہ لوگ کتنے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔اس قسم کے لوگ کیا جانے کسی کا درد ان کو تو بس ہر حال میں وصولی چاہئے پیسہ چاہئے۔اس لئے تمام کمرشل بینکوں کے سی ای اوز سے گزارش ہے کہ سیلاب سے متاثرہ وہ تمام اضلاع جن کو گورنمنٹ کی جانب سے آفت ذدہ قرار دے دیا گیا ہے۔وہاں سے قرضوں کی ریکوری کو سال چھ ماہ کیلئے موخر کرکے ایک نوٹیفکیشن جاری کریں تاکہ پہلے سے پریشان یہ متاثرین کو کچھ ریلیف ملے ان کی بے چینی کسی حدتک کم ہوجائے۔ویسے یہ بات تو طے ہے کہ یہ سیلاب متاثرین جن کا سب کچھ لوٹ چکا ہے۔مہنگائی کے اس طوفان میں ان کا سبھل جانا،ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ضرور ہے
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 6 Articles with 3882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.