غریبوں کے نام

ہمارے رویّوں کوکیاہوگیاہے ؟شاید ہم نے انسانیت کوسمجھناچھوڑ دیاہے یا ہم خود انسانیت کے دائرے سے نکل چکے ہیں ۔بات کوئی بھی ہوہمارے لیے باعث ِشرم اورمعاشرے کیلئے بربادی کی علامت ہے۔صبح سے شام تک کئی ایک ایسی کہانیاں سننے کوملتی ہیں کہ حساس دل رکھنے والاکوئی بھی انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ ہم ایسی کہانیاں سننے کیلئے کیوں زندہ ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کومعاف فرمائے لگتایوں ہے کہ جیسے اب ہمارازمین کے اوپر رہنے سے نیچے رہنازیادہ بہترہے۔تازہ ترین واقعہ یوں ہے کہ لاہور میں کتوں کے کاروبار سے وابستہ ایک میڈم جس کانام سعدیہ آصف بتایاگیاہے نے اپنی رہائش گاہ میں ہی کتے پال رکھے ہیں اوران کی دیکھ بھال کیلئے کم عمر دولڑکے رکھے ہوئے ہیں جن کے ذمے کتوں کی رکھوالی اوران کی غذاپانی کابندوبست کرناہے۔ہوایوں کہ ایک چودہ سالہ لڑکاجس کانام تقی عثمان عرف سخی بتایاجاتاہے نے ایک دن اپنی ذمہ داری نبھانے میں غفلت کاارتکاب کیااورکتوں کوبروقت روٹی نہ ڈالی۔اس کی اطلاع جب میڈم کوہوئی تووہ آگ بگولہ ہوگئی اوراس نے ڈنڈوں سے تقی عثمان کی خوب مرمت کردی ۔اُس نے معصوم بچے کواتناپیٹاکہ وہ شدید زخمی ہوگیا۔بچے کی حالت غیر ہونے پر اسے ہسپتال لاناپڑاجہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگیا۔بچے کے والد کی درخواست پر پولیس نے مقدمہ درج کرلیاہے ،ملزمہ کوگرفتار کرلیاگیاہے ،لاش پوسٹ مارٹم کیلئے بھجواکر پولیس مصروف تفتیش ہوگئی ہے۔اب اس کاانجام کیاہوگا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں ،چند دن بعد ہی پتاچل جائے گا۔

یہ ایک خبر ہے ۔جولوگ اخبارات کامطالعہ نہیں کرتے اُن کی بات نہیں بلکہ جو باقاعدگی سے اخبارات دیکھتے ہیں اُن میں سے بھی نہ جانے کتنے لوگ اِس خبر کوپڑھنے سے قاصر رہے ہوں گے ۔کیونکہ ایک کالمی خبر اوروہ بھی صفحہ نمبر دویاتین پر شاید اکثرلوگوں کی نظر میں نہیں آئی ہوگی ۔بلکہ اندر کے صفحے تک پہنچنے سے پہلے ہی اکثر افراد کاجی بھر جاتاہے۔باہر کی موٹی موٹی سرخیوں والی خبریں ملاحظہ فرماکر اورمنتخب بقیہ جات دیکھنے کے بعد دوچار گالیاں حکومت ،اپوزیشن ،بیوروکریسی وغیرہ کودے کر آدمی اخبار رکھ دیتاہے۔اورسمجھتاہے کہ وہ اپ ڈیٹ ہوگیاہے اور اُس نے اپنے حصے کاکام کرلیاہے۔غالباً سو میں کوئی دوچار ہوتے ہوں گے جو پورااخبار پڑھتے ہوں ۔مزید یہ کہ یہ خبر تونہ جانے کیسے تیسے اخبارات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ مگرہمارے معاشرے میں ایسی لاتعداد کہانیاں صبح شام جنم لیتی ہیں جو بہرحال کسی بھی رپورٹر کی” نظر التفات “سے محفوظ ہی رہتی ہیں۔پاکستان کے بڑے شہروں میں اکثر امیر گھرانوں میں غریب لوگوں کی بچیاں اوربچے محنت مزدوری کی غرض سے نوکریاں کررہے ہیں۔ دیکھاگیاہے کہ اِن مشقت کرنے والوں کی اکثریت نابالغ اورکم عمر ہوتی ہے ۔جنہیں معاوضے کے طور پردووقت کی روٹی ،مالکان کے بچوں کے پرانے کپڑے جوتے،اورسال چھ ماہ بعد گھر جانے کیلئے کرایہ کے علاوہ چند ہزار روپے مل جاتے ہیں ۔اگر سال کے بعد اُن کی اجرت کاحساب لگایاجائے تویومیہ سوروپے بھی نہیں بنتے ۔جس کے عوض یہ غریب بے چارے سارادن مالکوں کے کام کرتے ہیں ،اُن کی جھڑکیں سنتے ہیں ،گالیاں برداشت کرتے ہیں ،مار سہتے ہیں اوربدلے میں دووقت کی روٹی مل پاتی ہے ۔مالکوں کابچاہواکھاناکھاکر،اُترے ہوئے کپڑے پہن کر،اُن کے اُٹھنے سے پہلے اُٹھ کر اورسونے کے بعد سوکراُن کی خدمت میں لگاتار بغیرکسی وقفے کے اورآرام کیے بغیر جُتے رہنے والے یہ غریب گاہے بگاہے مالکوں کی مار کانشانہ بھی بنتے ہیں۔جس کی نہ کوئی رپورٹ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خبر بنتی ہے۔بلکہ میں ذاتی طور پر جانتاہوں کہ کئی ایسے معصوم بچے اوربچیاں جو جرم غریبی کی وجہ سے گھریلوملازمت کرتے ہیں ان کے ساتھ جنسی طور پر بھی ذیادتیاں ہوتی ہیں۔جس کے بارے وہ کسی سے کچھ کہنے کی بجائے اپنا دکھ اوردرد اپنے سینے میں ہی محفوظ کےے زندگی گزاردیتے ہیں۔

بہرحال یہ خبر پڑھنے کے بعد میں نہ توافطار ٹھیک طرح سے کر سکااورنہ ہی رات کونیند آئی ۔رات بارہ بجے بجلی آنے کے بعد میں چارپائی سے اُٹھااوراپنے سٹڈی رُوم میں کمپیوٹر آن کرکے کالم لکھنے بیٹھ گیا۔کافی دیر اسی سوچ وبچار میں گزر گئی کہ کیالکھوں ،کس کے نام لکھوں ،ظلم کرنے والی میڈم کے نام لکھوں یاانصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں کے نام لکھوں۔اُن این جی اوز کے نام لکھوں جو پورے ملک سے زکوٰة ،صدقات،فطرانے اورعطیات اکٹھے کرتے ہیں اوردعویٰ کرتے ہیں کہ ”اِن کی کون سنے کا پکار“۔کوئی ”روشنی“ پھیلانے کادعویدار ہے توکوئی کہتاہے کہ” اِن ہاتھوں سے مشقت نہ لوبلکہ اِن ہاتھوں میں کتاب دو“۔اِن نان گورنمنٹس آرگنائزیشنزکے نام لکھوں یااُن حکومتوں کے نام لکھوں جو اپنے” اللوں تللوں“ کیلئے توبجٹ میں خاص حصہ مختص کرتی ہیں مگر تعلیم کے فروغ ،بیروزگاری اورغربت کے خاتمہ کیلئے بمشکل ایک یاڈیڑھ فی صد رقم رکھی جاتی ہے اوروہ بھی انتظامی امور پراُٹھنے والے اخراجات کے بعد شاید اعشاریہ ایک فی صد بھی نہ بچتی ہوگی ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کرتادھرتاﺅں کے نام لکھوں یادانش سکول سسٹم کے بانیوں کے نام لکھوں۔اقتدار کیلئے باہم بدست وگریباں سیاست دانوں کے نام لکھوں یاکرپشن کے شاہکاروں کے محافظ میڈیاکے ان سرکردہ افراد کے نام لکھوں جو کسی کی خوشامد یاکسی کی مذمت میںپورے کے پورے صفحے کالے کردیتے ہیں ۔ان سرمایہ داروں اورجاگیر داروں کے نام لکھوں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے غریبوں کااستحصال کرتے ہیں ۔میں کس کے نام” فریاد لکھوں اورکس سے منصفی چاہوں“ ۔کافی دیر کی سوچ وبچارکے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ کسی کے نام لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اورنہ ہی کسی اورکے نام لکھنے سے کوئی فائدہ ہوگا۔کیونکہ یہ سارے کے سارے بے حس ہوچکے ہیں ۔انہیں ماسوائے اپنے مفادات کے اورکچھ نظر ہی نہیں آتا۔میںمقتول کانوحہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے اُن والدین کے نام لکھتاہوں جنہوں نے ایک معصوم کومعاش کاغم غلط کرنے کی خاطر ایک درندہ صفت کے ہاں چھوڑ رکھاتھا۔میں ان تمام والدین کے نام لکھتاہوں جنہوں نے اپنے معصوم بچے اوربچیاں اِس استحصالی طبقہ کے ہاں چھوڑ رکھے ہیں ۔ تمام ایسے والدین سے میری استدعاہے کہ خداراان کے سہارے نہ ڈھونڈوجو اپنے بوڑھے ہوتے والدین کے سہارے بھی نہیں بنتے ۔جو پانی کاگلاس اپنے ہاتھوں سے ڈال کرپینے کاتکلف بھی نہیں کرتے ۔خداراان بے حس اورانسانیت سے عاری لوگوں کے سہارے نہ ڈھونڈو بلکہ عزت کے ساتھ اپنی غریبی میں ہی اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرو۔کیونکہ ان لوگوں نے انسانیت کوسمجھناچھوڑ دیاہے اوریہ خود انسانیت کے دائرے سے نکل چکے ہیں۔
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 5 Articles with 2981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.