عالمی یوم امن اور عہد حاضر کے تقاضے

عالمی یوم امن اور عہد حاضر کے تقاضے
تحریر : شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں 21 ستمبر کو دنیا بھر میں امن کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو عدم تشدد اور جنگ بندی کے ذریعے امن کے نظریات کو تقویت دینے کے لیے وقف قرار دیا ہے۔لیکن حقیقی امن کا حصول ہتھیار ڈالنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اس کے لیے ایسے معاشروں کی تعمیر کی ضرورت ہے جہاں ہر ایک فرد یہ محسوس کرے کہ وہ سماج میں پنپ سکتا ہے۔ اس میں ایک ایسی دنیا کی تعمیر شامل ہے جس میں رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے ۔

چین کا شمار بھی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جو ہمیشہ عالمی سطح پر قیام امن کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ا س وقت ویسے بھی بین الاقوامی سلامتی کی صورتحال گہری اور پیچیدہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور دنیا ابتری اور تبدیلی کے نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اس اہم تاریخی موڑ پر، چین کی جانب سے عالمی سکیورٹی انیشیٹو پیش کیا گیا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام ممالک ایک مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے تصور پر عمل پیرا ہوں، ہر ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے، اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کی جائے، تمام ممالک کے مناسب سیکورٹی خدشات پر توجہ دی جائے، اور بات چیت اور مشاورت کے ذریعے ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو حل کیا جائے، امن کو برقرار رکھنے کے لئے ذمہ داری کا اشتراک کیا جائے، پرامن ترقی کے راستے پر چلا جائے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے قیام کے لیے مل کر کام کیا جائے۔

چین کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ عالمی امن کی خاطر "زیروسم گیم" کی ذہنیت کو ترک کیا جائے ، یکطرفہ پسند اور بالادست قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جائے اور حقیقی دیرپا امن اور مشترکہ سلامتی کے حصول کی خاطر جدوجہد کی جائے۔ چین کی اعلیٰ قیادت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ چین نہ تو کسی دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی کسی بھی طاقت کو یہ اجازت دے گا کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرئے۔چین نے ایسی تمام طاقتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کسی کی دھونس یا دباو میں آنے والا ہر گز نہیں ہے۔

مجموعی طور پر چین کے امن پسند رویے کو دیکھا جائے تو چین ہمیشہ عالمی امن کا معمار ، عالمی ترقی میں معاون اور بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ رہا ہے۔ چین نے متعدد مرتبہ اقوام متحدہ میں حق و انصاف کی آواز بلند کرتے ہوئے دنیا کے امن و ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے چینی فہم اور چینی کلیہ پیش کیا ہے۔ چین نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ طاقت کے بجائے نظام اور اصولوں کی بنیاد پر مشاورت سے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ پرامن ترقی کے بارے میں چین کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ عالمی امن اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے تحفظ کے لئے ہم نصیب سماج کے تصور کو مضبوط بنانا ہوگا۔ تعصب، امتیازی سلوک ، نفرت اور جنگیں صرف تباہی اور مصیبت لاتی ہیں جبکہ باہمی احترام ، مساوات ، پرامن ترقی اور مشترکہ خوشحالی بنی نوع انسان کے لئے درست انتخاب ہیں۔

چین کا موقف رہا ہے کہ عالمی امن کےلئے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو فروغ دینا ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ چین اقوام متحدہ کے امن مشنز میں ہمیشہ فعال طور پر شریک رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ، چین ہمیشہ عالمی اور علاقائی حل طلب مسائل کے پرامن سیاسی حل کی حمایت کرتا آیا ہے۔ اسی طرح چین نے اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالیاتی ذمہ داریوں کو ہمیشہ بروقت ، جامع اور غیر مشروط طور پر پورا کیا ہے۔یہی وہ رویے ہیں جو چین کو دنیا میں ہردلعزیز اور مقبول بناتے ہیں اور چین نے بارہا اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ وہ "حقیقی قیام امن" کا داعی ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1132 Articles with 426706 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More