سوشلسٹوں کا مقصد عام طور پر غلامانہ نوکری کے استحصال کو ختم کرنا ہے

کارل مارکس نے سرمایہ داری کے طبقاتی و استحصالی کردار اور اس کے ناگزیر نتائج اور فطری و مادی بحرانات کی جو وضاحت ڈیڑھ صدی پہلے کی تھی آج دنیا کے ہر کونے میں وہ حقیقت کے روپ میں درست اور سچ ثابت ہو رہی ہے۔ (اشتراکیت)ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بے اعتدالی اور ظلم وزیادتی کے نتیجہ میں پیدا شدہ عوامی اضطراب نے بیسویں صدی آتے آتے یکبارگی انقلاب کی شکل اختیار کرلی، تو اشتراکیت کا وجود نمودار ہوا۔ البتہ اس کی آواز بہت پہلے اٹھائی جاچکی تھی۔ سوشلزم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: ایسا نظام جس میں مالک اور مزدور کو سیاسی اور اقتصادی حقوق یکساں میسر ہیں، سماج ہی سبھی ذرائع، جائداد اور منافع کا مالک ہوتا ہے۔ یہ کسی ایک آدمی کی ملکیت نہیں ہوتی۔

کمیونزم کا طریقہ کار انقلابی اور جبری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری طریقوں سے یہ متغیر اور نافذ نہیں ہو سکتا۔غریب، نادار، کمزور اور محنت کش طبقہ کو لے کر ہر ذاتی ملکیت رکھنے والے طبقوں سے جنگ کی جائے گی اور ان کی ڈکٹیٹر شپ کو ختم کیا جائے گا، ان غریبوں کی محنت اور لہو پسینے سے ایک سرمایا داررانہ بنائی ہوئی جائیداد وغیرہ کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا اور جو بھی مزاحمت کرے گا اسے اسکے انجام تک پہنچایا جایگا۔ سارے طبقات ختم کر دئے جائینگے اور سب کو ایک ہی طبقہ یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روٹی کمانے والا طبقہ بنادیا جائے گا۔ ہر قسم کی غلامانہ مزدوری اور اس سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی طبقہ واریت کو ختم کر کے عوام کی حکومت قائم کی جائیگی اور جب یہ انقلاب مکمل ہوجائے گا تو حکومت اور جبر کے بغیر سارے شعبے باہمی رضامندی اور مشاورت سے چلائی جائیں گے۔

سوشلسٹوں کا مقصد عام طور پر فیصلہ سازی اور معاشی معاملات میں زیادہ مساوات حاصل کرنا، کارکنوں کو پیداوار کے ذرائع اور ان کے کام کی جگہ پر زیادہ کنٹرول دینا اور ملازمین کے استحصال کو ختم کرنا ہے۔ سوشلزم کا بنیادی کام پیداواری قوتوں کو تیار کرنا اور لوگوں کی مادی اور ثقافتی زندگی کے معیار کو بلند کرنا ہے۔

سوشلسٹ معیشت میں، حکومت پیداوار کے ذرائع کی ملکیت اور کنٹرول کرتی ہے۔ کبھی کبھی ذاتی جائیداد کی اجازت بھی ہوتی ہے، لیکن صرف اشیائے صرف کی شکل میں۔ سوشلسٹ معیشتیں پیداوار اور تقسیم کو چلانے کے لیے حکومت یا ورکر کوآپریٹیو پر انحصار کرتی ہیں۔ سوشلزم ایک معاشی اور سیاسی نظام ہے جس کے تحت ذرائع پیداوار عوامی ملکیت میں ہوتیہیں۔ سرمایہ داری ایک ایسا معاشی نظام ہے جس کے تحت ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہوتے ہیں۔ پیداوار اور صارفین کی قیمتیں ''سپلائی اور ڈیمانڈ'' کے فری مارکیٹ سسٹم پر مبنی ہیں۔ سوشلزم کا خیال صنعتی انقلاب سے وابسطہ ناانصافی، عدم مساوات اور غربت کے خلاف احتجاج کے طور پر پیدا ہوا تھا، لیکن ایک بار جب یہ ایک خیال کے طور پر تشکیل پا گیا تو، قدیم یونانی فلسفی افلاطون کی طرف سے تیار کردہ ''قومی نظام'' 16ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوا۔ 18ویں صدی کے روشن خیالوں کے ذریعہ پیش کردہ مختلف مثالی سماجی تصاویر میں ''یوٹوپیا'' کی اصل تلاش کی گئی تھی۔ لیکن جدید معنوں میں سوشلزم کی اصطلاح فرانس میں 1830 کے آس پاس تھی۔ فوئیر کب سینٹ سائمن، انگلینڈ میں اوون یہ سب سے پہلے ایک لفظ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے جس سے مراد ایک خیال ہے۔

دوسری طرف، 1840 کی دہائی میں پیرس میں، کمیونسٹ انجمنوں کی پیدائش ہوئی جس کا مقصد جائیداد کی مکمل تقسیم اور قومی طاقت پر قبضہ کرنا تھا۔ (اینگلز کے ساتھ شریک تصنیف)، مارکس نے سوشلزم کو اس مقام تک بدل دیا۔ جہاں تک سوشلزم نے سرمایہ داری کی برائیوں کے خلاف انسانی اور اخلاقی تنقید کا رخ موڑ دیا، وہیں مارکس نے ماضی کی تاریخ اور سرمایہ داری کی حقیقت کے سائنسی تجزیے کی بنیاد پر سوشلزم کا تصور کیا۔ اب تک کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے، اور یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ سرمایہ دارانہ سماج میں سرمایہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کے درمیان جدوجہد بالآخر محنت کش طبقے کے زیر تسلط سماجی طبقاتی سماج کی طرف لے جائے گی۔ اس طرح سوشلزم کو محنت کش طبقے کی تحریک کے طور پر سمجھا گیا۔ (مختلف جگہوں سے مدد لی گئی)
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.