اورنج لائن بس:سفری سہولت یا بچوں کی تفریح

موٹرسائیکل چلانے کیاسیکھی،کبھی بیٹے کو چکردینا ہے توکبھی بیٹی کو۔گھرمیں داخل ہوتے ہیں بچے اردگرد جمع ہوجاتے ۔حمزہ بولے میری باری ہے،توحنظلہ آدھمکے اورکہے نہیں،اس کی نہیں میری باری ہے۔دونوں کی سنو،تو جویریہ سراپا احتجاج ہوجائے اورچھوٹی ہونے کاجائز فائدہ اٹھانے پر بضد ۔آج بھی دوپہر کو گھر پہنچاتو امید تھی کہ بچے بائیک پر گھومنے کی فرمائش کریں گے لیکن یہاں توسناٹاتھا۔سناٹا کیا تھا میری بائیک کی توہین تھی۔میں حیران تھا کہ بچے آج بائیک پر باری کے بارے میں کیوں کر خاموش ہیں۔سوچابچوں کو میری مصروفیت کاشاید اندازہ ہوگیا یا امی نے بائیک سے گرنے کاخوف کمال ِمہارت سے ان کے دلوں میں بٹھادیا۔جوتے اتارے ۔کرسی پر دراز ہوا۔بچے کولر کی طرف دوڑے ۔ میرے لیے پانی لانے پر توں توں میں میں کی۔میری مداخلت پر جویریہ ہی کو پانی پلانے کاشرف حاصل ہوا۔پانی کاگلاس مجھے تھمایااور روہانسی صورت میں بولی۔ابو! مجھے بخار ہے۔میں پریشانی سے اچھل پڑااوراہلیہ سے پوچھابچی کو ڈاکٹرکے پاس بھیجا تھا۔امی کے بولنے سے پہلے ہی جویریہ بول پڑی، نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں۔ڈاکٹرکے پاس نہیں جائوں گی۔میں نے پوچھاتوکہاں جائے گی بیٹا؟ اس کاجواب حیرت انگیز تھاکہابس میں گھومنے جائوں گی۔ میں نے کہا کہ کون سے بس میں ؟ اورتم توبیمار ہو؟ کہنے لگی حمزہ اورحنظلہ بس میں گھوم کر آگئے۔یہ سن کر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بیٹی کابخاربھول گیا۔دونوں بچے نو اور دس برس کے ہیں۔کبھی بس میں سفربھی نہیں کیا۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے آداب اورمشکلات سے ناآشنا بچوں کا بس میں سفرکے انکشاف نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔انھیں تویہ بھی پتہ نہیں کہ بس میں چڑھتے ہوئے کون سا پائوں پہلے رکھنا پڑتاہے اوراترتے ہوئے دائیں پائوں پہلے اتارکر آگے کیوں رخ کرنا پڑتاہے۔بچوں کو سوار کرانے کےلیے گاڑی بس پر رک بھی جائے ،تب بھی مشکل یہ ہے کہ میرے گھر کے پاس اورنگی ٹائون کامصروف ترین سڑک ہے ،جو پار کرنے کے لیے بڑوں کوبھی احتیاط کرناپڑتی ہے۔دونوں بچوں کوسامنے کھڑا کیااوربس میں سفر کی روئیداد جاناچاہی ۔دونوں نے بتایا کہ وہ گھر سے نکلے ،پارک پارکیا۔ الخدمت اسپتال (اورنگی ) کے پاس لوہے کی سیڑھیوں پر دیگرلوگوں کے ساتھ اوپر گئے ۔جیب خرچ سے بچائی ہوئی رقم سے ٹکٹ خریدی اور بس میں گھوم کر واپس اتریں اورگھر آگئے۔بہت مزہ آیا۔ چڑیا گھر میں ریل میں گھومے تھے ،اس میں اتنامزہ نہیں آیا تھا۔ابو! آئیں چلیں،جویریہ کو بس کی سیر کرائیں۔میں نے کہا وہ بیمار ہے اورآپ لوگ بس میں گھومنے کی بات کررہے ہیں۔جویریہ خود ہی بولی۔بس میں گھومنے کے بعداسپتال سے دوائی لے لیں گے۔یہ توکہانی توتھی میرے بچوں کی ۔

ذرا اس حوالے سے10 ستمبر 2022 کی ایک خبر بھی آپ پڑھ لیں۔سندھ کے وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کراچی کے شہریوں کے لیے 5 سال کے انتظار کے بعد اورنج لائن بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) بس سروس کا افتتاح کر دیا۔ بس سروس کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن سے بورڈ آفس چوک تک 3.88 کلومیٹر کے روٹ پر چلائی جائے گی، جس کو مرحوم سماجی کارکن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے عبدالستار ایدھی لائن کا نام دیا گیا ہے۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ 20 ائیر کنڈیشنڈ بسیں اس روٹ پر چلائی جائیں گی، راستے میں 4 بس اسٹیشن اور ٹکٹ بوتھ ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ 12 میٹر لمبی بس میں 90 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور اس بس سروس سے تقریباً 50 ہزار شہری فائدہ اٹھائیں گے۔ بس کا کرایہ 10 سے 20 روپے کے درمیان رکھا گیا ہے۔

اگلے روز یعنی 11 ستمبر کو میں بھائی کے ساتھ بائیک پر گھر سے نکلا۔سڑک پر پہنچا۔اورنج بس سڑک پرکھسکتی ہوئی نظرآئی۔بھائی نے بائیک کی رفتارکم کردی۔میں نے بس میں جھانکا،خالی تھی، شاید اتوار کی وجہ سے۔بائیک راستے میں کھڑی کی۔ دوسری بس آئی، وہ بھی خالی تھی۔تیسری آئی ،وہ بھی خالی تھی۔

اب آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ اربوں روپے سے بننے والے منصوبے کی بسیں خالی کیوں تھیں تومیں بتادیتاہوں۔ہمارے ہاں سڑک پر بسیں چالیس کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔وہ 65 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتی ہیں ،بشرط یہ کہ سڑک خالی ہو۔لیکن چونکہ اورنج لائن منصوبے کی بسیں آرام سے بلکہ شاہانہ انداز سے چلتی ہیں،لیکن پھربھی صرف پونے چار کلومیٹرکافاصلہ اتنازیادہ تونہیں کہ پانچ منٹ سے زیادہ لگے۔بقول میرے ایک دوست کے اورنج بس میں سوا رہوا۔ ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ کون سی نشست پر بیٹھو،یہ میری منزل آگئی۔حکومت کاتودعویٰ ہے کہ اورنج لائن منصوبہ اہلیان اورنگی کے لیے تحفہ ہے تاہم یہ اورنگی ٹائون کے لوگوں کے ساتھ مذاق ہے۔ ذرا سوچیں کیااورنگی ٹائون پانچ نمبر یا زیڈ ایم سی کے سٹاف سے شروع ہوتاہے۔ کیااہلیان اورنگی کے لیے اورنگی سے بور ڈآفس آنے کے لیے کوئی اورسستی سواری نہیں ہے کہ قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرکے ایک ایسامنصوبہ شروع کیا گیا جس میں صرف بچے ہی سفرکرکے خوش ہوسکتے ہیں۔کس کے پاس اتناوقت ہوگا کہ فقط پونے چارکلومیٹر سفر کے لیے ایک یادو گاڑیاں بدلے اور پھر سیڑیاں چڑھیں اوراتریں۔ٹکٹ خریدیں۔بس میں سوار ہوں ۔دائیں بائیں دیکھیں اورکنڈکٹرآواز لگائیں۔چلوبھائی آپ کااسٹاف آگیا۔

پانچ سال میں ایک ناقص منصوبہ شروع کرنے سے بہترتھا کہ مزید ایک آدھ سال لگاکر اورنج لائن کے روٹ کو شہر میں چلنے والی گرین بس لائن کے ساتھ ملادیاجاتاکہ اورنگی ٹائون کے باسی اپنے گھر سے بس میں سوار ہوتے اور شہر پہنچ جاتے ۔یا شہر سے اورنگی ٹائون کاسفرکرتے ۔اورنگی سے نیوکراچی یا نیوکراچی سے اورنگی ٹائون کاسفر آسان ہوجاتا۔اوہو، مجھے یاد آیا جویریہ کی طبیعت خراب ہے اوروہ اورنج لائن بس میں گھومنے کی بھی ضد کررہی ہے۔الخدمت میں چیک اپ کرانے کے بعد اورنج بس میں گھمائوں گا۔ آپ بھی میری باتوں پر نہ جائیں ،میرے فعل کو دیکھیںاور بچوں کو اورنج بس کی سیر کرائیں۔اس سے پہلے کے منصوبے کے معمار وں کو ہوش آئے اور وہ اورنج لائن کو گرین لائن سے ملادیں۔جلدی کریں۔
 

ABDULLAH MISHWANI
About the Author: ABDULLAH MISHWANI Read More Articles by ABDULLAH MISHWANI: 6 Articles with 4095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.