ڈاکٹر ادیب رضوی ۔ عظمت کا مینار. ایک عہد ساز شخصیت


صحتمند ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ صحتمند آدمی بھی کبھی نہ کبھی کسی عارضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے گو کہ عارضی ہی ہو جیسے دانت یا کان میں تکلیف آپ کو بیچین کر کے رکھ دیتی ہے یا کوئی بھی تکلیف جب ناقابل برداشت ہو جاۓ تو آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے سواۓ ڈاکٹر سے رجوع کرنے کے تاکہ فوری آرام آجاۓ۔

گردے کی تکلیف بھی انسان کو تڑپنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہم کیونکہ اس اذیت ناک تکلیف سے چار پانچ بار گزر چکے ہیں تو یہ ایک ذاتی تجربہ بھی رھا کہ کیا حال ہو جاتا ہے انسان کا کہ ایک ماھی بے آب ہو جیسے۔

ایک بار یہی تکلیف ابھی قابل برداشت تھی تو فوری اسپتال کا رخ کیا درد کا انجکشن لگوا کر خاموشی سے گھر آکر لیٹ گۓ کسی سے تذکرہ نہیں کیا کہ سب پریشان ہونگے۔ یہ خاموشی گردے کے اندر چھپے پتھر کو پسند نہ آئی ابھی تک تو گردے میں صرف اس کا دھرنا تھا اب احتجاج شروع کردیا۔ تھوڑی دیر میں ہم اسپتال کے وارڈ میں تھے۔ اس مرتبہ بیہوشی کی سی کیفیت میں یہاں لایا گیا تھا۔ تمام ٹیسٹ ہوۓ الٹراساؤنڈ نے واضح کر دیا پتھری ہے اور سائز بھی ایسا کے آپریشن واحد علاج تجویز کیا گیا۔

چار دن اسپتال میں رہ کر گھر آۓ تو ایک عزیز نے مشورہ دیا سول اسپتال جانے کا۔ ہم نے سنا تو مگر ہمت نہیں پائی کیونکہ یہ سرکاری انتظام میں چلنے والے اسپتال مریض کی دوڑیں ہی لگواتے ہیں۔ مگر انھوں نے حوصلہ دلایا کہ ایک بار ہمت کرلیں آپ کو اندازہ ہو جائیگا۔ چھوٹے بھائی اپنی گاڑی لے آۓ اور ہم گیارہ بجے دن وھاں موجود تھے۔ دیکھتے ہیں جلسے کا سماں تھا بس اب کسی لیڈر کے خطاب کا انتظار ہو جیسے ۔ بھائی سے کہا واپس چلو۔ اتنی دیر میں وہ ٹوکن لے چکے تھے۔ سات سو تین نمبر کا۔ ارے یار یہ تو رات کردیگا بھائی ہم نے کوفت والے احساس اور لہجے میں کہا۔ ہم شاید طبیعت کی وجہ سے الجھ بھی رہے تھے۔ اتنے لمبے راستے کو طے کر کے آۓ ہیں آیۓ پچھلی کرسیوں میں پنکھے کے سامنے بیٹھتے ہیں۔ بھائی نے اس جانب چلتے ہوۓ کہا۔ تھوڑا سکون ہوا چھت سیمنٹ کی چادروں سے بنی ہوئی تھی۔ دو پورشن مرد و خواتین میں تقسیم اور دونوں طرف ٹوکن کی الگ الگ سیریز۔ اتنے میں اسپیکر پر ترتیب سے دس نمبرز پکارے گۓ چار سو چھپن سے چار سو پینسٹھ تک۔ ارے یار یہ ایکساتھ کتنے مریض دیکھتا ہے ڈاکٹر؟ عجیب سا تجسس ذہن میں آیا کچھ اسی طرح ادھر خواتین کی طرف بھی آواز دی جارھی تھی۔ بہت دیر نہیں گزری پھر دس مزید نمبرز۔ ارے کیا چہرہ شناسی کا علم رکھتا ہے ڈاکٹر ابھی بلایا ابھی فارغ شکل دیکھتا ہے کیا صرف۔ اندر ہی اندر سوالات اٹھ رہے تھے مگر ایک حوصلہ مل رھا تھا نمبر جلدی آجائیگا۔

اب ہم عمارت کے اندر داخل ہوۓ اپنے نمبر کے پکارے جانے پر۔ آٹھ یا شاید دس ڈاکٹر ایک ایک بیڈ کے ساتھ ان مریضوں کو دیکھنے لگے۔ ہمارے ڈاکٹر نے رپورٹ اور حال سنتے ہی قریبی کھڑے اسٹاف کو بلایا کہ انکا الٹرا ساؤنڈ کرواؤ۔ کچھ دوائیں تجویز کیں اور ایک ہفتہ بعد دکھانے کو کہا۔ اگلی بار ہم نے اکیلے جانے کی ہمت کی بھائی کی گاڑی صبح ساڑھے سات بجے گھر آگئ۔ نمبر اس بار چار سو اکتیس تھا مگر رننگ نمبر تین سو سے اوپر تھے سکون ہو گیا۔ وہی پراسیس اس مرتبہ ایک باہر کی لیب سے آئی وی پی ایکسرے کا کہا گیا جو ایک خاص انجیکشن لگاتے ہوۓ ہوتا ہے جو گردے کی کارکردگی بتاتے ہیں کہ پتھری کے علاوہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔

اس پورے عرصے میں ہم حیرت ذدہ تھے کہ مریضوں کے اس جم غفیر کو کیسے مطمئین کرتی ہے ڈاکٹر ادیب رضوی کی یہ ٹیم۔ کیا زبردست جزبہ ہے اس بوڑھے آدمی کا اور کیا موٹیویشن ہے ان کی باتوں میں جو بغیر جھگڑے بغیر لہجہ میں تلخی یا جھنجھلاہٹ لۓ یہ تمام لوگ مخلوق خدا کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اور یہ ایک طویل عرصہ سے عبارت ہے ڈاکٹر صاحب کا انتھک مشن۔ ہم کو بتایا گیا ڈاکٹر صاحب اسی کے عشرے سے اس کام کو کارخیر سمجھ کر انجام دے رھے ہیں۔ ہم تو اب خود شاہد ہیں اور معجزات دیکھ رھے ہیں اپنے علاج کے دوران۔

اب اگلا مرحلہ ہمارے اس علاج کا تھا جو ایک خاص ٹیکنک کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے لیۓ ہمیں صبح سات بجے ایس آئی یو ٹی انسٹیٹیوٹ پہنچنا تھا۔ انتہائی صاف ستھرا ماحول لگتا ہی نہیں تھا ہم کسی سرکاری اسپتال میں ہیں۔ انتظار گاہ سے آگے وہ مخصوص ایریا تھا جہاں صرف اسٹاف یا مریض جاسکتا تھا۔ کوئی مریض کے ساتھ اندر نہیں جا سکتا تھا۔ ہم کو اندر بلالیا گیا تمام اشیاء پانی کی بوتل اور جوتے وغیرہ بڑے بھائی کے پاس انتظار گاہ میں رکھوا دیۓ۔

اندر کا ماحول مزید حیران کن اور متاثرکن بھی تھا کیونکہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بغیر جیب میں ھاتھ ڈالے اور رقم خرچ کیۓ ہم اتنی جدید مشینوں سے مستفید ہونگے اور ہمارا علاج ہوگا۔ پانچ جدید قسم کی مشینین وھاں لگی ہوئی تھیں سب کے اوپر ان حضرات یا اداروں کے نام تھے شکریہ کے طور پر جو معاون تھے ان کے انتظام میں۔

ہمیں ایک ڈاکٹر نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ ایک اونچے سے بہت نفیس بیڈ پر لیٹنے کو کہا اور ساتھ ساتھ بہت دلچسپ گفتگو کرتے رہے ہماری توجہ بٹانے کے لیۓ۔ ان کو شاید اندازہ تھا ہماری گھبراہٹ کا جو فطری تھی۔ کچھ معلومات ہماری تکلیف کے حوالے سے لیں پھر بتایا مشین کیسے کام کرتی ہے اور آپ کے گردے میں موجود پتھری کو کیسے ریزہ ریزہ کرے گی کہ آپ کو تکلیف دیۓ بغیر پیشاب کے ذریعہ پاس ہو جاۓ گی۔ ہم سامنے لگے مانیٹر پر گردے میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی واردات خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اتنے محو تھے اس مظاہرے کو دیکھنے اور ڈاکٹر کی کمنٹری پر کہ وہ احساس ہی نہیں ہونے دے رھا تھا اس چوٹ کا جو مشین ہمارے داہنے گردے پر مار رہی تھی۔ پینتیس سے چالیس منٹ ہم گھر کے لیۓ روانہ ہوگۓ۔

بہت اچھے ماحول میں پورے ٹریٹمنٹ کے دوران ڈاکٹر صاحب نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی کچھ فیملی سے اور کچھ سماجی معاملات اور کچھ رننگ کمنٹری پتھری کو نکال باہر کرنیکی ۔

ہمارا یہ سارا تجربہ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کی دھائیوں سے جاری شب و روز محنت کی وجہ سے بہت اچھا رھا اور ہم لوگوں سے درخواست کرینگے کہ ادیب رضوی ان کے ادارے ان کی انتھک کاوشوں کے شکر گزار رہیں ان کی مالی مدد پہلے سے بھی بڑھ کر کریں اور ان کے لیۓ دعا گو رہیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب جیسے لوگ اثاثہ ملت ہیں۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Tariq Asif Siddiqui
About the Author: Tariq Asif Siddiqui Read More Articles by Tariq Asif Siddiqui: 7 Articles with 3329 views I am a 63 years old retired banker, who has a passion to write what he percieves about social and political issues of this country, also tries his bes.. View More