انسانی سماج میں وحشی نفسیات کا فروغ

جنگل میں نہ عدالت ہوتی ہے اور نہ پولیس اس لیے ہر جانور اپنا انتقام ازخودلینے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ وہاں ’جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے‘۔جنگل میں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘ کے ضا بطے پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ وہاں کوئی جانور لاٹھی کا استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ یہ تو انسانی معاشرے کا خاصہ ہے کہ عدل و قسط کا سارا انتظام موجود ہونے کے باوجود طاقتور لوگ قانون کی لاٹھی کا پاس و لحاظ کیے بغیر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ہندوستان اور امریکہ میں جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود مجرمانہ وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے جرائم کی وجوہات میں تنوع بھی نظر آتا ہے۔ اسلام نظامی حیات میں جرائم پر دنیوی تعذیر ا ورجہنم کی سزا بتائی گئی ہے اس کے باوجود اپنے دین سے بے نیاز مسلمان چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال جھارکھنڈکے دمکا کے میں سامنے آئی جہاں انکتا نامی لڑکی کو شاہ رخ حسین نے کھڑکی سے پٹرول ڈال کر آگ لگادی۔ دمکا میڈیکل کالج اسپتال میں ابتدائی علاج کے بعد اسے رمس میں داخل کیا گیا ۔ انکتا نے پانچ دنوں تک زندگی و موت سے لڑنے کے بعد رانچی میں آخری سانس لی۔

انکتا نے موت سے چند گھنٹوں پہلے اپنے ساتھ ہونے والی دردندگی کی پوری داستان سنا دی ۔اس کا ہم سایہ شاہ رخ تقریباً دو برسوں سے اسے پریشان کررہا تھا۔ اس کا کام لڑکیوں کو پریشان کرنا اور انہیں اپنے جھانسے میں لے کر ادھر ادھر گھمانا تھا۔ انکتا نے بتایاکہ اسکول یا ٹیوشن کےلیے جاتے وقت وہ پیچھا کرتا تھا۔ اس نے کہیں سے موبائل کا نمبر نکال لیا تھا، اور اکثر فون کرکے دوستی کےلیے دبائو ڈالتا تھا ۔انکتا کے والد نے سماج میں بدنامی کے ڈر سے پہلے توکوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ آگے چل کر پولس میں شکایت کی تو شاہ رخ کے بڑے بھائی نے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ ۱۵ دنوں تک پریشان کرنے کے بعد شاہ رخ نےدھمکی دی کہ اگر اس کی بات نہیں مانےگی تو وہ اسے اہل خانہ سمیت مار دے گا۔ ۲۲ اگست کی شب اس نےپھر دھمکی دوہرائی کہ کہ وہ مار اسے دے گا اور۲۳؍ اگست کی صبح پٹرول چھڑک کراسے جلا دیا۔ جھارکھنڈ کے دمکا میں سخت سیکوریٹی کے درمیان انکتا کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

اس دردناک سانحہ پر وی ایچ پی، بجرنگ دل، بی جے پی کے ساتھ بڑی تعداد میں عام لوگوں نے احتجاج کیا۔ان لوگوں نے بازار بھی بند کرادیا اور ملزم شاہ رخ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ۔ مشتعل بھیڑ نےسڑکوں پر ضلع انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی ۔ حالات کی کشیدگی کے پیش نظر انتظامیہ نے علاقے میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کردیا ہے اورکوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو اس کےلیے بڑی تعداد میں پولس فورس تعینات کردیاگیا ۔ وزیراعلیٰ ہیمنت سورین نے ٹوئٹ پر فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلانے کا یقین دلایا اور انکتا کے اہل خانہ کو ۱۰ لاکھ روپئے کی امداد دی ۔اس سانحہ کا ایک بھیانک پہلو یہ ہے کہ جس وقت پولیس نے ملزم شاہ رخ کو گرفتار کیا تو وہ ہنس رہا تھا ۔ اس کو اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں تھا وہ نہایت خوش و خرم نظر آہا تھا ۔ پولس نے چھوٹو خان کو بھی گرفتار کرلیا ہے، جس پر پٹرول فراہم کرنے کے الزام ہے۔

عام طور پر جرائم کی وجوہات زر ، زن اور زمین کے تنازعات ہوتے ہیں ۔ دمکا کا مذموم واقعہ زن سے متعلق ہے۔ دین اسلام میں اس کے لیے سخت سزا تجویز کی گئی ہے اور جب تک ان کا نفاذ نہیں ہوتا اس وقت تک اس شرح میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ مغرب زدہ دانشور عام حالات میں تو اسلامی سزاوں کو وحشیانہ بتاتے ہیں مگر جب اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ ہوتا ہے تو ان کی عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ عصر حاضر میں جرائم کی مختلف نفسیاتی وجوہات بھی سامنے آرہی ہیں ۔ اس طرح کا ایک انوکھا واقعہ دہلی کے قریب غازی آباد میں پیش آیا۔ وہاں پر کشور نام کے سولا سالہ نوجوان نے اپنے دوست نیرج کا قتل کردیا ۔ اس قتل کی وجہ اس قدر حیرتناک ہے کہ اسے سن کر دماغ ماوف ہوجاتا ہے۔ کشور نے بتایا کہ وہ دو مرتبہ میٹرک کے امتحان میں ناکام ہوچکا ہے ۔اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا اس کے باوجود اسٹیٹ ایجنٹ والد اس پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے دباو ڈالتے تھے ۔ بالآخر اس نے اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کی خاطر ایک خطرناک منصوبہ بنا کر اس کو عملہ جامہ پہنا دیا۔

اپنے والدین سے پریشان کشور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اگر پڑھائی نہ کرے تو والدین گھر سے نکال دیں گے ۔ اس صورت میں وہ کہاں رہے گا ۔ اس کے علاوہ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ گھر سے بھاگ جائے تو کیا کام کرے گا اور کیسے پیٹ بھرے گا؟ ایک غریب بچے کے لیے یہ سوالات اہمیت کے حامل نہیں ہوتے اس لیے کہ وہ ہر طرح کی جدوجہد اور مشکلات کا سامنا کرنے کا عادی ہوتا ہے لیکن کشور جیسے متمول گھرانے کے بچے کی خاطر یہ مشکل ترین مسائل تھے ۔ اس نے یو ٹیوب پر اس مسئلہ کا حل تلاش کیا تو اسے پتہ چلا کہ جیل ایک ایسی جگہ ہے جہاں رہنے اور کھانے کا مفت انتظام ہے ۔ اس نے جیل میں ملنے والی سہولیات کا پتہ لگانے کے بعد یہ سوچا کہ اگر وہ وہاں جاکر وہ والدین کے ذریعہ پڑھائی کے دباو سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اب اس کے سامنے جیل جانے کا مسئلہ تھا ۔ اس کے لیے اس نے اپنے تیرہ سالہ دوست کی بلی چڑھانے کا فیصلہ کیا ۔

ایک ماہ کی منصوبہ بندی کے بعد کشور اپنے دوست کو لے کر دہلی میرٹھ ایکسپریس روڈ کے ایک سنسان علاقہ میں پہنچ گیا ۔ یہ حرکت وہ تین دن تک کرتا رہا۔ پہلے دو دن اس کو قتل کا موقع نہیں ملا لیکن تیسرے دن وہ اپنے گھناونے منصوبے پر عمل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ وہاں پارٹی منانے کے بعد نیرج کا گلا گھونٹ کر اسے مارڈالا اور بیر کی بوتل کو توڑ کر اس کا گلا کاٹ دیا تاکہ زندہ رہنے کے سارے امکانات ختم ہوجائیں ۔ اپنی اس حرکت کے بعد مجرم کافی دیر تک وہاں کھڑا رہا ۔ جب اس نے دیکھا کہ جسم بالکل ٹھنڈا ہوچکا ہے تو وہاں سے لوٹا۔ ایکسپریس وے کی اونچائی کے سبب عام طور پر لوگوں کی نظر وہاں نہیں جاتی مگر پولیس نے لاش دریافت کرلی۔ اس وقت نیرج گلے پر خون نظر آرہا تھا ۔ تفتیش کے دوران یہ معلوم ہوگیا کہ آخری بار اس کے ساتھ کشور تھا ۔ پولیس نے جب کشور کو حراست میں لیا تو اس نے بلا تردد ّ اپنے جرم کا اقرار کرلیا اس لیے کہ وہ تو خود جیل جانا چاہتا تھا۔ اب کشور کو نابالغ بچوں کی عدالت میں پیش کیا جائے گا بعید نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے جیسے کہ نربھیا کے معاملے میں ہوا تھا کہ ایک مجرم کو کم عمری کے سبب چھوڑ دیا گیا۔ تعلیمی دباو کی وجہ سے طلباء کی خودکشی و ارداتیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ ان سے الگ تھلگ ایک انوکھا واقعہ تھا جو نوعمر طلباء میں تیزی سے بڑھنے والے مجرمانہ رحجانات کا غماز ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور نوجوان نفسیاتی دبا و سے نجات کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے۔

وطن عزیز میں والدین کے دباو کا قہر طلباء کو خودکشی پر مجبور کرتا ہے۔ جرائم کے قومی اندراج (NCRB) کے مطابق 2020 ءمیں، ہر 42 منٹ کے اندر ایک طالب علم نے خودکشی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن 34 سے زائد طلباء اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔ یہ اعداد بھی درست نہیں ہیں کیونکہ ایک اندازے کے مطابق صرف 63 فیصد خودکشی سے پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے۔ اپنے والدین کو ان کی غلطی کا احساس دلانے کی خاطر ایک نوجوان نے اپنے والدین کو ویڈیو کال کرکے اپنی شہہ رگ کاٹ لی تھی لیکن مسابقت کا جنون تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ مادہ پرستی اور صارفیت نے پہلے تو والدین کو پاگل کیااور اب وہ نادانستہ اپنی اولاد کے دشمن بن گئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کو انسان بنانے کے بجائے دنیا کمانے کا وسیلہ سمجھ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں وحشی والدین نے اپنے بچوں کو حیوان بنادیا ہے۔ اس کی ابتداء تو خودکشی سے ہوئی اور اب بھی یہی رحجان غالب ہے مگر کشور کے ہاتھوں نیرج کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ اب وہ اپنے بجائے دوسروں کی جان لینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کشور اور شاہ رخ کے درمیان ڈھٹائی مشترک ہے۔ ان دونوں کو اپنے جرم کی سنگینی کا چنداں احساس نہیں ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ دنیا کی عدالت میں وہ بچ بھی گئے تو خدا کے سامنے خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہوگی ۔ وہاں ہر مجرم کو اپنے کیے کی قرار واقعی سزا مل کر رہے گی ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1251293 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.