موسمیاتی تبدیلی

پاکستان اور آزادکشمیر اس وقت شدید مشکلات کی زد میں ہیں پاکستان میں اس مرتبہ جتنا سیلاب آیا ہے اسکی گذشتہ تیس سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی تمام کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی مال مویشی لوگوں کے گھر پانی کی نذر ہو گئے اس وقت معاشرہ ہم سے انصار اور مہاجرین جیسے ایثار اور قربانی کی توقع کر رہا ہے ہر ایک پر فرض ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرے ان کے دکھ کا ساتھی بنے اگر پانچ خاندان مل کر ایک خاندان کی بہتری اور تعمیر کا بیڑا بھی اٹھائیں تو ملک کے اندر انقلاب برپا ہو سکتا ہے یہی وہ وقت ہے جب ہم نے عالمی دنیا کو ایک قوم بن کر دکھانا ہے کہ کیسے جب مسلمان معاشروں میں مشکلات آتی ہیں تو تمام مسلمان اپنی نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور جتنی بڑی سے بڑی مشکل ہو پسپائی اس کا مقدر بنتی ہے مخیر حضرات بڑھ چڑھ کر سیلاب متاثرین کی مدد کریں اور ایک جاندار قوم ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ پاکستان میں حالیہ بارشوں سے جو تباہی ہوئی وہ اب تک کی سب سے بڑی اور خطرناک تباہی ہے بھائیوں کے سامنے بھائی ڈوب رہے ہیں والدین کے ہاتھوں سے تیز پانی کا ریلہ بچے چھین رہا ہے موت کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ دل ڈوبنا شروع ہوجاتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر اپنی عوام کو موت کے منہ میں دھکیلا ہے کیونکہ یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہو رہا ہے بلاشبہ ہم ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار نہیں پاکستان اپنی جی ایچ جی کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے مگر اسکے باوجود ہمیں یہ تبدیلیاں بھگتنا پڑرہی ہیں پاکستان بھر میں رواں سال مارچ سے شروع ہونے والی شدید گرمی سے لاکھوں لوگ بری طرح متاثر ہوئے پورے جنوبی ایشیا میں گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات، گندم کی فصل متاثر، بجلی کی بندش اور آگ لگنے سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے غریب اور پسماندہ کمیونٹیز کو خاص طور پر متاثر کیا جرمن واچ کی طرف سے جاری کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کی رپورٹ جو تجزیہ اور درجہ بندی کرتی ہے کہ کون سے ممالک اور خطے کس حد تک شدید موسمی واقعات (طوفان، سیلاب، ہیٹ ویوز وغیرہ) کے اثرات سے متاثر ہوئے ہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں گزشتہ چند سالوں کے دوران ہیٹی، فلپائن اور پاکستان جیسے ممالک جو بار بار تباہی سے مسلسل متاثر ہوتے آئے ہیں طویل مدتی انڈیکس اور متعلقہ سال کے انڈیکس دونوں میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہیں اس سال زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے ہمارے پھل اور فصلیں مکمل طور پر تیار نہیں ہوسکے گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز نے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں 3,044 سے زیادہ برفانی جھیلیں تخلیق کی ہیں ان میں سے تینتیس کسی بھی لمحے پھٹ سکتی ہیں اور پھر اچانک آنے والے پانی سے مزید جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے اور اگر دنیا کا درجہ حرارت ایک خاص سطح سے بڑھتا ہے تو بہت سے ساحلی شہر زیر آب آ جائیں گے جس سے پاکستان کی ساحلی پٹی متاثر ہوسکتی ہے پاکستان کے لیے موسمیاتی تناؤ کتنا حقیقی اور خطرناک ہے اسکا ہمیں اب اندازہ ہوجانا چاہیے غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ہم دنیا میں سب سے کم اخراج کرنے والوں میں سے ایک ہیں اور اس کے باوجود ہم آب و ہوا کے نمونوں میں تقریباً وجودی تبدیلی کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ان تمام بحرانوں کی زندہ مثال ہیں اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم سبق حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی پلاننگ ہوتی ہے ایک بحث جو بڑے عرصہ سے دنیا میں آب و ہوا پر بحث ہورہی ہے لیکن ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اب بھی وقت ہے کہ آب و ہوا کے اخراج پر توجہ دی جانی چاہیے جب دنیا میں عالمی رہنما ایک کمرے میں بیٹھ کر فیصلہ کر رہے تھے تو اس وقت ان میں اکثریت کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی کچھ کی عمر ستر سے بھی زیادہ تھی جبکہ وہاں باہر بیٹھے اور سبز امن کے لیے احتجاج کرنے والے لوگ زیادہ تر بیس سے پینتیس سال کے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب گلوبل وارمنگ کا اثر نمودار ہوگا تو تب تک یہ تمام بوڑھے مر چکے ہوں گے مگرہمیں ان کے فیصلوں کے نتائج کے ساتھ جینا ہے جنہوں نے اسکی تیاری کرلی تھی وہ آباد ہیں اور جنہوں نے اسے نظر انداز کیا وہ پریشانی کا شکار ہیں ایک تجزیاتی رپورٹ بھی چھپ چکی ہے جسکا عنوان ہے کون سے ممالک تاریخی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں؟ یہ رپورٹ تاریخی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی مجموعی مقدار 1.2C کے درجہ حرارت سے قریبی تعلق رکھتی ہے جو پہلے ہی واقع ہو چکی ہے مجموعی طور پر انسانوں نے 1850 سے اب تک تقریباً 2,500 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) (GtCO2) فضا میں خارج کی ہے جس سے باقی کاربن بجٹ کا 500GtCO2 سے بھی کم درجہ حرارت 1.5C سے کم رہ گیا ہے درجہ بندی میں پہلے نمبر پر امریکہ نے 1850 سے اب تک 509 گیگا ٹن زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈخارج کی جو دنیا کے کل کا تقریباً 20 فی صد کے ساتھ تاریخی اخراج کے سب سے بڑے حصے کے لیے ذمہ دار ہے اگرچہ حالیہ دہائیوں میں بڑے آلو دگی پھیلانے والے ممالک نے اپنے اخراج کو نمایاں طور پر کم کیا ہے لیکن وہ آج بھی تاریخی گرمی میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والوں میں شامل ہیں رہی بات ہماری بلخصوص پنجاب جہاں باقی صوبوں کی نسبت بہت کم جانی اور مالی نقصان ہوا ہے کیونکہ یہاں کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی نے تمام محکموں کو متحرک رکھا ہوا تھاجسکی وجہ سے صوبہ میں مختلف اداروں کی بروقت کوششوں سے متاثرہ علاقوں سے مختلف خاندانوں اور لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا دیا گیا تھا جو اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ واپس اپنے تباہ حال گھروں کو لوٹ رہے ہیں اتنی بڑی تباہی کے بعد اب ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ ہر کام وقت پر کرلیا جائے تو مشکلیں اور پریشانیاں اپنا راستہ بدل لیتی ہیں اگر عین موقعہ پر بھاگ دوڑ کرینگے تو پھر حالات سنبھلے کا موقعہ نہیں دیتے اس وقت پا ک فوج کی جانب سے پنجاب میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے 70 سے زائد امدادی جبکہ لاہور ڈویژن میں مختلف مقامات پر 10، ملتان میں12، گوجرانوالہ میں 17اور بہاولپور ڈویژن میں 19 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں ان کیمپس میں عوام سیلاب متاثرین کے لئے عطیات جمع کر وا رہے ہیں جبکہ جمع شدہ سامان کی بلوچستان ، سندھ کے پی کے اور جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان تک ترسیل کے لئے پاکستان آرمی دن رات مصروف عمل ہے فوج کی جانب سے عطیات کے حوالے سے عوام کی رہنمائی کے لیے ایک ہیلپ لائن 1135 بھی قائم کی گئی ہے اسکے ساتھ ساتھ ہماری خوبصورت ہیروئن اور سماجی رہنامیڈم مسرت شاہین نے بھی عوام کی خدمت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا پاکستان کے مختلف علاقوں میں جب کبھی کوئی آفت یا مصیبت آئی تو یہ خاتون ڈٹ کر انکے ساتھ کھڑی رہی نہ صرف ملک کے کونے کونے سے بلکہ دنیا کے ہر ملک میں بسنے والے پاکستانیوں نے دل کھول کر انہیں عطیات دیے جو مستحق افراد تکہ پہنچائے بغیر یہ نڈر خاتون سکون سے نہیں بیٹھی اب پھر وہ میدان عمل میں مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے مخیر حضرات ان سے بھی رابطہ کرکے اپنے عطیات بھجوا سکتے ہیں جو مستحق افرادتک باآسانی پہنچ جائیں گے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 512610 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.