ان طوفانی بارشوں میں انسانیت کا حق ادا کریں

زندگی ہر فرد واحد کے لیے ایک طرح نہیں ہوتی اور ہر کسی کا زندگی کو پرکھنے کا زاویہ بھی الگ ہوتا ہے ۔کچھ لوگ آسائشیں ملنے پر بھی خوش نہیں ہوتے اور زیادہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ تھوڑے پر بھی راضی ہو جاتے ۔ایک طرح کے حالات کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار اور دوسری طرف کچھ لوگوں کے لیے دلخراش ہوتے ہیں ۔زیادہ دور کی بات نہیں کرتے جیسا کہ آپ لوگ اس چیز سے با خوبی واقف ہیں کہ پورے ملک میں بارشیں برس رہی ہیں ۔اب یہ حالات ان لوگوں کے لیے تو بڑے خوشگوار ہوں گے جنہوں نے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں یٹھ کر ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑ کر چائے کی چسکی لینی ہے اور جون کی مستی بھری شاعری اور کھڑکی سے بارش کی بوندوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا ہے جبکہ یہی حالات ان کے لئے دلخراش ہیں جہاں سیلاب جیسی قیامت برپا ہے ، جن کے کچے گھر اور جھونپڑیاں ہیں بارش آتے ہیں انہیں فکر لگ جاتی ہے کہ ہم نے خود کو اور اپنے گھر والوں کو کیسے بچانا ہے ۔لیکن اس کے بر عکس جو لوگ ائرکنڈیشنر روم میں رہتے ہیں اور جنہوں نے کھڑکی سے سردی، گرمی، دھوپ اور بارش دیکھی ہو وہ اس چیز کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔بلاشبہ ہم بھی شہری لوگ ہیں مگر اس چیز سے بخوبی واقف ہیں کہ جب ایسے حالات آتے ہیں انسان کتنی مشکل اور مصیبت میں گر جاتا ہے ۔لیکن اس کا عملی اندازہ کرنے کے لیے میں اور میرے میڈیا کے کچھ دوست شہر سے کچھ دور کچی آبادی کی طرف گئے اور جب وہاں پہنچے تو ہم نے کچھ جھونپڑیوں اور کچے گھروں کو دیکھا تو معلوم ہوا زندگی ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے ۔لیکن ان کے حوصلے اور صبر کو سلام جو ان حالات میں بھی اللہ پاک کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ زندگی کا اہم سبق تو یہاں پر ملا کہ حالات جیسے بھی شکر کا کلمہ ہر وقت ہمارے لب پر جاری رہنا چاہیئے ۔ ۔ وہاں پہنچ کر جب ان لوگوں سے بات چیت کی اور ان سے کچھ سوالات کیے کہ ابھی تک آپ لوگوں کی امداد کے لیے کوئی آیا ہے اور کب سے یہ آپ کے حالات ہیں تو ان کا بڑے افسوس کے ساتھ اور آنکھوں میں پانی لیے ان کا یہ کہنا تھا کہ ہماری امداد کے لیے کوئی نہیں آیا کہ سب جانتے ہیں، ہمارے حالات سے واقف ہیں کہ ہم بھوک سے مر رہے ہیں ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن لوگ امداد کے لیے نہیں آتے۔ ان کے چھوٹے بچے رو رہے تھےلیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم ان کی امداد کے لئے کچھ خاطر خواہ نہیں کرتے اور انسانیت کو پس پشت ڈال کے انھیں بھول جاتے ہیں۔ انھیں تو اس چیز کا پتہ نہیں تھا کہ رات کا کھانا ملے گا یا نہیں ۔غربت کی وجہ سے ان کے بچے کہیں پڑھ نہیں پاتے ۔ ہم سے جو بن پڑا ہم نے ان کی مدد کی لیکن افسوس ہوتا ہے ہے جو انسانیت کے قرض اور فرض ہم پر واجب ہے ہم وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے کیوں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ہم دین کی خاطر مرنا تو چاہتے ہیں لیکن دین کی خاطر جینا نہیں چاہتے اور امت نبوی کی امداد کرنا نہیں چاہتے ۔ ایک طرف دیکھئے جہاں سیلاب آیا ہوا ہے وہاں بھی حالات ابتر سے ابتر ہو گئے ہیں لوگوں کے مال و جان سب برباد ہوگئے ہیں اور وہاں پر بھی کچھ لوگ امداد کی بجائے دھوکہ دہی کا کام کر رہے ہیں ۔

ایک ہمارے ملک کے نام نہاد عوامی لیڈر ہیں جو نعرہ تو عوام کا لگاتے ہیں مگر اس مشکل گھڑی میں عوام کو مکمل طور پر بھول چکے ہیں ۔

جو لوگ سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں تو ایک اطلاع کے مطابق وہ لوگوں سے فارم پر کروارہے ،شناختی کارڈ مانگ رہے ،تصدیق کر رہے پھر بھی بہت سے لوگوں تک امداد نہیں پہنچتی تو خدارا ان چیزوں سے نکلے ۔ایک طرف قیامت منظر ہے اور ہم اب بھی تصدیق ،شناختوں میں پڑے ہیں ۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کہ جب کوئی انسان مشکل میں دیکھو،اس کی تشویش نہ کرنے لگ جاؤ اس کی مدد کر دو یہ نہ دیکھو اس کا فرقہ کون سا مذہب کونسا رنگ کونسا ،نسل کون سی ہے صرف یہی دیکھیں کہ انسان ہے اور اس کی مدد کر دو ۔ جہاں ہم نے کل دیکھا وہاں چند لوگ تھے لیکن میرے ملک میں بہت سارے ایسے لوگ ہوں گے جو مصیبت میں مبتلا ہیں ۔رحمت کی بارشیں شاید ہمارے اور ہمارے حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے زحمت بن گئی۔ان حالات سے اعلٰی احکام کو آشنا کرنے لیے ان کا پیغام ریکارڈ کر کے علاقے کی اعلیٰ انتظامیہ تک پہنچایا تا کہ ان کی ان کی مدد ہو سکے اور انتظامیہ نے اس وقت مدد اور تعاون کا یقین دلایا ۔ لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی کے دکھائے بغیر خود کیوں نظر نہیں آتا کہ یہ لوگ بھی کسی امداد کے مستحق ہیں ان لوگوں پر مشکل آ پڑی ہے تو ہمیں انسان ہونے کے ناطے اپنے آس پاس خود لوگوں کو دیکھنا ہو گا کہ کہیں ارد گرد کوئی بھو کا تو نہیں ۔اور ہمیں ان کے حالات کی بھی خبر رکھنی چاہیئے جو ہمارے گھروں میں کام کرنے والے ہیں ۔کہیں اگر کوئی ان حالات میں معاشی طور پر پریشان ہیں تو ان کی مدد ضرور کریں ۔آج اگر ہم کسی کے لئے آسانیاں بانٹتے ہیں تو یقین مانے میرا رب ہمارے لئے آسانیاں ضرور پیدا کر دے گا۔

اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ میرے بابا جی فرماتے تھے کہ تم پر اللہ کا کرم اس لیے ہے کیونکہ تم کسی کو ٹھونگیں نہیں مارتے ۔اگر اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تم پر اپنا کر م نہیں کرے گا۔ ٹھونگیں مارنے کا مطلب دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ۔ اللہ پاک سے یہی دعا ہے مجھے اور آپ کو انسانیت کی درست معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق دے تا کہ انسانیت کا جو قرض ہے وہ ادا ہو جائے ورنہ یہ دھرتی ہم سے یہ قرض سود سمیت واپس لے گی ۔جب کبھی ہم پر مشکل وقت آن پڑے گی تو ہماری مدد کے لیے بھی کوئی نہیں ہو گا اگر آج ہم اپنے انسانی فرائض سے انکار کریں گے ۔ویسے بھی سچے دل اور خالص نیت سے دکھی انسانیت کی خدمت کرنے سے ضمیر مطمئن اور روح پاکیزہ ہوتی ہے ۔
 

Faizan Waris
About the Author: Faizan Waris Read More Articles by Faizan Waris: 3 Articles with 2528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.