خواتین اور بچوں کی جنسی غلامی

جنسی استحصال ، عصمت فروشی ، جبری مزدوری، جبری شادی ، گھریلو غلامی، بھیک منگوانا، اعضا کی پیوند کاری، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم سمیت عورتوں اوربچوں کی بردہ فروشی جسے(انسانی اسمگلنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ اسکا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو بردہ فروشوں کے ذریعہ متاثرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔بردہ فروشی ایک قدیم دور سے چلی آ رہی، جس کے تحت ایک یا اس سے زیادہ اشخاص کو یہ اختیار تھا کہ زبر دستی سے یا باہمی رضا مندی سے کسی اور شخص سے، جو بالعموم عورتیں رہی ہیں، جنسی افعال کروائیں۔ اس میں جبری مزدوری بھی شامل ہے، کئی بار جبری شادی کو بھی اسی ضمن لیا جاتا ہے۔ جدید نو آمد شدہ شکلوں میں انسانوں کی جنسی بازار کاری بھی شامل ہے، جیسے کہ بچوں کی جنسی بازار کاری۔ جنسی غلامی میں ایک ہی مالک کی غلامی بھی ممکن ہے؛ رسمی غلامی کو کئی بار مختلف ممالک سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے جو گھانا، ٹوگو بنین وغیرہ میں دیکھی گئی ہے۔ غیر جنسی مقاصد کے لیے مروجہ غلامی میں بھی کئی بار جبری جنسی غلامی کا عنصر عمومًا دیکھا گیا ہے۔ جبری قحبہ گری بھی جنسی غلامی کی اضافی شکل ہے۔ قدیم زمانے میں داشتاؤں کا چلن بھی عام رہا ہے۔ اور یہ داشتائیں مختلف ممالک سے لائی جاتی تھیں اور انہں داشتائیں بنا کر رکھا جاتا تھا انہیں جنسی طور پر استعمال کیا جاتا تھا انمیں 12سال سے لیکر 18 اور 20 سال کی خواتیں شامل ہہیں۔ دبئی اور یورپ میں ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران پاکستانیوں کی اسمگلنگ میں ملوث ایک بڑے نیٹ ورک کو گرفتار کرلیا گیاہے۔ یورپ کی پولیس نے پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کو سمگل کرنے والے ایک بڑے نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاو?ن کے علاوہ 8ہائی ویلیو ٹارگٹس کو حراست میں لیا ہے۔یورپی پولیس ایجنسی یوروپول کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق متعلقہ نیٹ ورک افغان، پاکستانی اور شام سے تعلق رکھنے والے تقریباً 10 ہزار مہاجرین کو غیرقانونی طریقے سے یورپ لے جا چکا ہے۔یوروپول کے مطابق انسانی سمگلنگ میں 126 سہولت کاروں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر کو آسٹریا سے گرفتار کیا گیا۔انسانی سمگلرز کے خلاف آپریشن گزشتہ سال اگست میں چلائے جانے والے ایک آپریشن میں کیا گیا تھا۔حراست میں لیے گئے ان انتہسائی اہم افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق شام سے ہے جنہوں نے عالمی سطح پر تعلقات قائم کیے ہوئے تھے تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان افراد نے کم از کم 10 ہزار مہاجرین کو یورپ سمگل کرنے میں سہولت فراہم کی ہے۔ اس انسانی اسمگلنگ میں ایف آئی اے حکام کے ملوث ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ بچوں کی اسمگلنگ کا سب سے بڑا مقصد ان کا جنسی استحصال ہے جس کا تناسب 59 فیصد ہے۔ متاثرہ افراد کی آدھی تعداد بالغ خواتین پر مشتمل ہے، تاہم اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران اسمگلنگ میں خواتین اور بچیوں کی مجموعی تعداد 70 فیصد تک رہی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال سے متعلق محدود معلومات فراہم کی گئی ہے تاہم ان ممالک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق بھی متاثرین میں خواتین اور بچیوں کی تعداد 59 فیصد ہے۔ آج صرف خرکار کیمپوں میں ہی بنی آدم کی تذلیل نہیں ہرہی بلکہ قحبہ خانوں، گداگری، گھریلو سطح پر لی جانے والی بیگار، اینٹوں کے بھٹوں میں کام کرنے والے مزدور اور نجی جیلوں میں قید جبری مشقت کرنے والے بھی اس اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ شعبے ماضی کی نسبت زیادہ منظم ہو چکے ہیں۔اب یہ تمام کے تمام شعبہ جات مجموعی طور پر لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کھربوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے ایجنٹس گلی، محلوں سے لے کر بیرون ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں اور ایک بار ان کے چنگل میں پھنس جانے والے بدقسمت کے لئے پھر واپسی کا سفر بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کی یہ وہ مختلف اشکال ہیں جن کے سدباب کیلئے سول سوسائٹی اور حکومتی عہدیداران دعوے توکرتے ہیں لیکن عملی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑ رہی ہے۔ پاکستان میں بظاہر تو جسم فروشی دھندے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے اور پولیس اورسیاستدان معاشرے کی اس لعنت کو ختم کرنے کا ڈرامہ رچاتتے رہتے ہیں لیکن حقیقت بہت دردناک اور بھیانک ہے کیونکہ اس قوم کی بے شمار بیٹیوں کو اسی قوم کے طاقتور اور بدکردار لوگوں نے نہ صرف وطن عزیز کے اندر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس قوم کی بیٹیاں جنسی کاروبار کیلئے فروخت کیی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صرف دبئی کو ہر ہفتے درجنوں کی تعداد میں پاکستانی لڑکیاں سپلائی کی جاتی ہیں جنہیں وہاں کے نائٹ کلبوں اور قحبہ خانوں اور مساج گھروں میں درندہ صفت گاہکوں کی جنسی ہوس پوری کرنے کیلئے پیش کیاجاتا ہے۔گو کہ ا س معاملے کی شدت کا اندازاہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم مقامی طور پر انسدادِ اسمگلنگ کے اداروں کی جانب سے اقدامات کرکے کمی لائی جاسکتی ہے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.