عوام الناس بنام سرکار( قسط نمبر 2)

 عوام کو اپنی رعایا سمجھنے اور ان پرحاکمیت کے روایتی تصور کے مارے حکمرانوں کی پولیس میں حد سے زیادہ مداخلت، فرسودہ تھانہ کلچرنیچے سے لے کر اوپر تک نااہل کرپٹ اور بدکلام افسران کی سفارش پر ٹرانسفر پوسٹنگ نے عوام کی نظروں میں اس کا امیج دن بدن بگاڑا ہے ٹھیک نہیں کیا پولیس کو سیاسی مقاصد اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے اورآج تک نہیں رکا سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے من مرضی کا آجی جی لگاتے لگاتے 6آئی جی پنجاب بدل دیئے تھے مگر انہیں کوئی بھاتا ہی نہیں تھا لیکن بعض اعلیٰ پولیس افسران کی انفرادی کاوشیں البتہ گاہے بگاہے بہتری بھی لاتی رہی ہیں ایسے افسران کی کوششوں سے گوجرانوالہ میں بھتہ خوری اقدام قتل ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کی وارداتوں میں کمی کے لئے کئی نامی گرامی اشتہاری ملزمان پولیس مقابلوں میں پار کئے گئے توبھتہ خوری کی لعنت ختم ہوئی اس حوالے سے سی آئی اے پولیس نے اپنا ایک الگ امیج قائم کر لیا تھا اور کئی خطرناک اشتہاری تو بیرون ملک سے گرفتار کر کے انجام تک پہنچائے گئے لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومتوں میں لمبے ہاتھ اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے بعض دس دس افراد کے قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کو جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکو ل موبائل فون کے علاوہ دیگر ناقابل یقین سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہیں ہمارے ملک میں عام آدمی اور بڑے نام والے اشتہاری کی جیل بھی مختلف ہوتی ہے ایسے ہی چند عناصر کچھ عرصہ قبل اس رعب ودبدبے سے رہا ہوئے ہیں اور جس شان و شوکت سے اپنے علاقوں میں ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں پہنچے ہیں اس سے گوجرانوالہ میں ایک بار پھر بدمعاشی اور قانون شکنی کے کلچر کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے حیرانی کی بات ہے کہ سنٹرل جیل سے رہائی کے بعد انکی بطور ’’ بھائی لوگ ‘‘اپنے علاقوں کو روانگی اور سر عام فائرنگ پر ضلعی پولیس قیادت خاموش تما شائی بنی رہی رہائی کے بعد ایک ملزم کی اعلیٰ حکومتی شخصیت سے ملاقات کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ، حکمران کلاس کو احساس ہی نہیں کہ انکی جانب سے ایسی غیرذمہ داری اور سیاسی پشت پناہی معاشروں کو تباہی اور بربادی کی جانب لے جائے گی ہائی پروفائل کریمینلز جیلوں میں اس طرح پروٹوکول لیتے رہے تونادان نوجوانوں کے لئے انہیں اپنا آئیڈیل بنا لینا مشکل نہیں ہوگا اعلی ٰ پولیس افسران سکیورٹی ایجنسیز اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی پوری توجہ اور انہماک ایسے جرائم پیشہ عناصر پر مستقل مرکوز ہونی چاہئے تاہم اسکے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ پولیس کا خراب رویہ ،تھانوں میں شکایات کا انبار، پولیس کیسز میں سیاسی مداخلت اور روایتی تھانہ کلچر کی تبدیلی سمیت بھی پولیس قیادت کوبیک وقت کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں اور پولیس عملی طور پرانصاف کی راہ میں حائل وہ پتھر ہے جسے حکمران اپنے مفادات کی وجہ سے ہٹانا نہیں چاہتے حکومتیں بدلتی اور افسران بھی اٹھا کر کہیں اور پھینک دئیے جاتے ہیں ٹرانسفر پوسٹنگ کا کوئی طریقہ کوئی نظام ہی نہیں ،گفتگو، تقریریں اور باتیں بہت ہوچکی ہیں ہر آنے والا افسر ماتحتوں کے دربار لگا کراپنی پر مغز تقریروں سے ’’بھینس ‘‘کے آگے بین بجانے کا کام کرتا اور ایجنڈے میں ناکام ہو کر نئی منزلوں کی جانب چلا جاتا ہے کوئی بڑے سے بڑادانشور پویس افسر آج تک ماتحت افسران کو سائل سے بات کر نے کی تمیز تک نہیں سکھا سکا ، یہ المیہ ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ہی افسران کی ٹرانسفر کا طوفان برپا ہوجاتا ہے اور حکمران پسند ناپسند اور اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اعلیٰ پولیس افسران کو ادھر سے ادھر کرنے میں ذرا سا تامل بھی نہیں برتتے ، اچھی شہرت اور مناسب کارکردگی والے افسران جہاں بھی ہوں کو بلاوجہ تبدیل نہیں کرنا چاہئے ،ایسے افسران پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں روکنے کے لئے پولیس کا واہیات انداز میں بے دریغ استعمال ہمارے ملک میں ایک مکروہ روایت بن چکا ہے حکمرانوں کو اپنے سیاسی مقاصداور غیر قانونی کاموں کے لئے اس پولیس گردی کو بند کرنا چاہئے خاص طور پر وہ جماعتیں جو سیاسی کلچر بدلنے کی دعوے دار ہیں انہیں پولیس اور عوام کی حالت پر رحم کرنا چاہئے پولیس اور عوام کے درمیان حائل خلیج کو کم کرنے کے لئے بہت کچھ کہا سنا اور لکھا جا چکا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اعلیٰ افسران اپنے دفاتر میں کتنی ہی شیریں گفتگو کریں جب تک پولیس کا تھانوں میں عوام کے ساتھ رویہ بہتر نہیں ہو گا پولیس عوام کا اعتماد اور انکے دل جیتنے میں کامیاب ہو سکے گی نہ ہی انکے اندراحساسِ تحفظ پیدا کر سکے گی ، اس سلسلے میں تھانوں کی مؤثر مانیٹرنگ کے بغیر بہتر نتائیج کا حصول ممکن نہیں ہے عوام تھانے جاتے ہوئے جس ڈر اور خوف میں مبتلا ہیں اسے ختم کرناہوگا، آفیسرز جونیئر ہوں یا سینئر انکے اند ر اگر خوش اخلاقی کے جراثیم نہیں ہیں تو انہیں تھانوں میں ایس ایچ اوز لگانے کی کبھی غلطی نہیں کرنی چاہئے ایسے افسران جو عوام پر چڑھ دوڑنے اور انکی تذلیل کوناگزیر اورپولیس کے رعب ودبدبہ کوہی پولیسنگ سمجھتے ہیں انکی سوچ کو بدلنے کے لئے تربیت سختی اور جوابدہی کے عمل کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ، تھانوں میں تعینات پولیس افسران کو عام شہریوں اور جرائم پیشہ عناصر کے لئے الگ الگ رویے کا مظاہرہ کرنا سیکھانا چاہئے، گھریلو جھگڑوں اور روزمرہ کے مسائل کے لئے مصالحتی کمیٹیوں کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت ہے تھانوں میں تعینات تفتیشی افسران عوامی مسائل حل کرانے کی صلاحیت اور نیت سے محروم نظر آتے ہیں ان میں جانچ، کھوج اور دور اندیشی کی صلاحیت موجود نہیں نہ ہی انکے پاس تفتیش کے جدید طریقوں اور وسائل تک رسائی ہے چنانچہ ایک ایک تفتیشی کے پاس درجنوں کیسز کی تفتیش بیک وقت چل رہی ہوتی ہیں اور وہ معاملات کو نمٹانے کی بجائے لٹکانے اور کسی ایک یا دونوں فریقین سے مال کھانے کو اپناجائز حق تصور کرتا ہے ایس ایچ اوز اور تفتیشی افسران کے درمیان گٹھ جوڑ نے مدعیان کو شٹل کاک بنا رکھا ہے ، بعض جگہ ڈی ایس پیز ایس ایچ اوز کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کے باعث ایک زنجیر میں پروئے جاتے ہیں جو عام آدمی کو جکڑ لیتی ہے اوراسے انصاف تک رسائی نہیں دیتی ، تھانوں میں فرسودہ طریقہ ء تفتیش اور مارکٹائی کو چھوڑ کر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانا ہو گا روایتی پولیسنگ ، افسران کو طویل لیکچر زاور کمیونٹی پولیسنگ کھلی کچہریوں کے تجربات بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ، عوام الناس کے ساتھ رابطوں کے نام پر تھانے ٹاؤٹس پیداکرنے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں ،پولیس قیادت اور دیگر افسران کا معاشرے کو سدھارنے کے لئے تبلیغ کا راستہ اختیار کرنے میں حرج نہیں لیکن جب اپنا گھر ٹھیک نہ ہو تو دوسروں کی اصلاح کے لئے زیادہ وقت صرف کرنا دانشمندی نہیں ، پولیس کے اندر جوابدہی اور جزا سزا کا عمل سخت کئے بغیر پولیس کبھی ڈسپلن فورس نہیں بن سکے گی ، پولیس افسران کو’’ جیسا معاشرہ ویسی پولیس ‘‘کی انوکھی منطق ترک کرنا ہوگی، پولیس افسران اپنے اندر اس سوچ کو پروان چڑھائیں کہ قانون کی عملداری نہ ہو تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔( جاری ہے)

 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.