قائد اعظم علامہ اقبال اور بر صغیر کا مسلمان

اس دور میں جب مسلمان اپنی شناخت بھول کر غیروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کو اس عظیم مقصد کے بارے میں روشناس کرایا کہ جس کا حصول پاکستان تھا۔

اقوام کا جذبہ حریت دنیا میں انکی پہچان بنتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح رح نے ایک ایسی مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم بنایا کہ جس کی تہذیب،رسم و رواج سب کچھ اپنے دشمن سے مطابقت رکھتا تھا۔ اسٹینلے والپرٹ امریکی مورخ، اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے مصنف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے چند ہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔۔ ایسے لوگ اور بھی کم ہیں جنہوں نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کیا ہے۔۔ شاید ایسا کوئی ہو جس نے قومی ریاست تخلیق کی ہو محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے ہیں۔

یہ الفاظ قائد اعظم کی عظمت کا مظہر ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہیں کہ جس وقت پاکستان کو تنگ نظر ہندو قیادت اور جابر انگریز سرکار کے پنجوں سے لیا گیا تو صورتحال کیا ہوگی۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب غلامی کا طوق مسلمانوں کی عزت نفس کو مجروح کررہا تھا۔ جب مسلمان اذہان غلامی کی تاویلیں پیش کررہے تھے۔

ٹھیک ایسے وقت میں قائداعظم محمد علی جناح رح نے ایک ایسی مملکت کا نقشہ مسلمانوں کے آگے رکھا کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔ مگر کیا قوم تھی کہ بھوک اور افلاس، معاشی تنگی سب کچھ قبول کیا مگر آزادی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا

قائداعظم نے مسلمانوں کو اس شعور سے روشناس کرایا کہ جس میں مسلمان نہ تو کسی کے تابع ہے نہ کسی کے رنگ میں رنگنے کیلئے اس دنیا میں آیا ہے اور نہ ہی دنیاوی آسائشیں،مال و متاع،عہدے اسکے لئے کوئ معنی رکھتے ہیں اس کے برعکس وہ دنیا میں صرف اس ذات کے تابع اور اسکے بنائے ہوئے قوانین کا پابند ہے کہ جس ذات کے ہاتھ میں اسکی جان ہے۔

علامہ اقبال کا بیشتر کلام مسلمانوں کے زوال کے اسباب،مسلمان کی فکر،اسکا اور اسکے رب کے درمیان کے رشتے کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وہ افراد تھے کہ جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قوم نے انکی آواز پر لبیک کہا اور آج پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔

بےشمار تحاریر،گیت،نغمے صرف ایک پیغام لئے موجود ہیں اور پیغام دین اسلام اور پاکستان(یہاں دین اسلام اور پاکستان ساتھ لکھنے کہ وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں) کی خاطر ہر قسم کے اختلافات کو بھلا کر وحدت کو فروغ دیا جائے۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدلتے جارہے ہیں امت کے مراکز(سعودی عرب و پاکستان) برے طریقے سے اسلام دشمن قوتوں کے نرغے میں ہیں۔
بنیادی اسلامی شعائر اور قوانین آج دشمن کے ہدف پر ہیں۔ ایسے میں اقوام جزوی مباحثوں کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے انکو اپنے اندر پنپنے کا موقع ہی نہ دیں۔

آزادی کی قیمت خون سے ادا کی گئ ہے۔ شیر خوار سے لے کر بڑے بوڑھوں نے وطن کی آبیاری اپنے لہو سے کی۔ ملک دشمن عناصر کو غرض یہاں دین کی سربلندی سے ہے۔ انکے عزائم میں یہ شامل ہے کہ وطن عزیز اپنے بننے کے جواز کو کھو کر وہ سب یہاں لاگو کرے کہ جس کے وہ متمنی ہیں۔ جھگڑے کی بنیاد صرف کلمہ ہے اور پاکستان کی بنیاد بھی کلمہ ہے۔

کشمکش،تکالیف ہمارا مقدر ہے بلکل مومن کی دنیاوی زندگی کی طرح۔ آسائشیں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں تھیں تو انکے امتی کیونکر اس دنیا میں چین کی بانسری بجا سکیں گے ؟

دارالعمل میں جدوجہد ہماری منتظر اول دن سے ہے۔ آزادی لینے کی بنیادی وجہ دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ جس اسلام کو مغرب مذہب بنا کر پیش کرنے پر تلا ہے وہ دین اسلام ہے کہ جس کا اپنا نظام حیات اتنا جامع ہے کہ جس میں ہر کوئ اسکی حدود کی پابندی کرتے ہوئے سکون کی زندگی گزار سکتا ہے۔

ملک کی اشرافیہ اگر آج اسکو اپنے آقاوں کے احکامات کے مطابق کرنا چاہتی ہے تو اسکے مقابلے کی سکت ہم کو اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں آج یہ تہیہ کرنا ہوگا کے ہماری بقاء و ترقی ہمارے دین اسلام سے وابستگی میں پنہاں ہے!
متلاشی حق
سید منصور حسین (مانی)
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 23189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.