حالات کا ذمہ دار

ہمیں اور ہماری دھرتی کو خدا نے اقبال اور جناح جیسے مخلص ، وفادار اور سچے جذبوں سے سرشار لوگوں سے نوازا۔ اقبال کے پیغام خودی اور جناح کی قائدانہ صلاحیت کے انعام میں ہم نے ایک گلشن آباد کیا جسے پاکستان جیسے مقدس نام سے نوازا گیا۔ 14 اگست 1947 ءتاریخی دن لوگ خوشی منانا بھول گئے اور مہاجرین بھائیوں کے دکھ درد اور بے بسی کوسمجھتے ہوئے انہیں گلے لگایا اور ان کی پناہ گاہوں کا بندوبست کرنے لگے۔ انکی بیداری نے صحیح معنوں میں ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا۔

میرے نزدیک آزادی کی تعبیر کچھ یوں ہے اپنے فیصلوں میں آزادی ، ملکی خودمختاری ، اپنی سوچوں میں آزادی اور سب سے بڑھ کر یہاں رہنے والوں کی آزادی ۔ اب ہم آزاد ہیں اس کی شہادت پچھلے چند برس دے رہے ہیں ہمارے حکمرانوں کی مخلصیت اور 17 کروڑ عوام سے محبت تو اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اس ملک کو اور اس خطہ کی عوام کو امریکہ کی طرف سے بھی انعام و اکرام سے نواز رہے ہیں۔بڑ ے انعامات میں ڈاکٹر عافیہ پر قید وبند کی سختیاں جو میرے خیال میں پاکستان تو کیا اپنا نام تک بھول چکی ہوگی۔ پھر لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا شکاری شوق جس نے ان کے خاندان کی خوشیاں تو کیا چھینی بلکہ ہمارے لیڈرز کی عوام سے محبت کا پردہ بھی چاک کردیا۔ " ڈرونز حملے " بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہمارے کسی قومی لیڈر نے آج تک اس کی مذمت تک نہیں کی۔ مذمت کا مطلب صرف میڈیا کی حد تک بیان نہیں بلکہ مذمت کا مطلب اپنے مطالبات میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا ہوتا ہے۔ یہاں آئے روز سینکڑوں بے گناہ ڈرونز حملوں میں اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں ۔ مساجد کا تقدس پامال کرتے ہوئے ان پر بمباریاں ، عورتوں کے سر سے خاوند کا سایہ چھین کر بیوہ جیسے نام سے نواز دینا اور سات سال کے بچوں کو دہشت گرد ٹھہرا کر انہیں شہید کردینا اور ان چراغوں کوبجھا دینا جو گھر کا دیا جلاتے ہیں۔ خدا دیکھ رہا ہے میں سوچنے لگتا ہوں کیا دیکھ رہا ہے ۔ ملک کو لیڈرز اور فوج نہیں بچایا کرتی بلکہ قوم بچایا کرتی ہے۔ پچھلے دنوں ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن نے ہمارے ذہنوں میں اور بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ اسامہ پر حملہ نہیں بلکہ یہ ہماری خود مختاری پر حملہ ہے۔ لیکن فقط اس بات کو ٹال مٹول کیا جارہا ہے حکمران اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قومی ووٹ سے آتے ہیں اور ہر قوم کو مکمل حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اپنے لیڈ رز کا انتخاب کرے ۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ہماری پوری قوم سو چکی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اقبال نے قرآن کے مفہوم کو اپنے شاعرانہ انداز میں بھی بیان کیا۔ اور تمام شاعری کا نچوڑ " خودی" میں سمو کر رکھ دیا۔ جناح جیسے پر خلوص لیڈر نے اس ملک کو آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا اے میری قوم " میں تمہیں اس گلشن کا مستقبل اور خودمختاری سونپ رہا ہوں ہمیشہ بیدار رہنا۔ لیکن افسوس کہ ہمیں اقبال اور جناح کا پیغام بھول گیا۔ اور ہم غفلت کی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن قارئین کو ایک بات باور کراتا چلوں کہ حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ یہ قوم بھی ان حالات کی ذمہ دار ہے۔ جیسے ایک بچہ دس سال کا ہو کر بھی نماز نہ پڑھے تو والدین کو مکمل حق ہے کہ اسے مارپیٹ کر نماز پڑھائیں تو اگر ہماری حکومت لوٹا کریسی اور امریکی پالیسوں کا شکار ہو گئی تو ہم کیوں سو گئے ہم غافل کیوں ہوئے اور یہ تمام انہی باتوں کا نتیجہ ہے۔ پچھلے 63 برسوں سے یہ دھرتی اعلیٰ پائے کے لیڈرز سے لیڈ ہوتی آرہی ہے جنہیں فقط تجوریاں بھرنے سے فرصت تک نہیں ملتی اور بہت ہی خوش نصیب ہیں ہم لوگ جن کو کبھی خارجہ پالیسی بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ بنی بنائی پالیسی آتی ہے اور ہم بڑے شوق سے آمین کہتے ہیں لیکن اتنے اندھیروں میں امید کی ایک کرن نظر آئی جس نے ہوا سے بجھتے چراغوں کو اپنے ہاتھوں کی لپیٹ میں لے لیا جس نے ڈرونز میں یتیم ہونے والے بچوں کے سرپردست شفقت رکھا جس نے بیوہ ہوتی ہوئی عورتوں کی غم گساری کی اور ان کی آہوں اور سسکیوں کو 17 کروڑ عوام کی عدالت میں پیش کیا۔ چند دنوں سے وہ مسیحا پشاور کی سڑکوں پر سراپا احتجاج مظلوم لوگوں پر ظلم کا حساب اورسوئی ہوئی حکومت کے دروازے پر" ڈرونز حملے بند کراﺅ"کی صدائیں دیتا رہا ۔ اس کی سچائی اور عوام سے محبت کا ثبوت امریکن وکیل کلائیوسمتھ کی دھرنا میں موجودگی تھی۔ مگر عمران خان کی قدر ڈوبتوں کے لیے تنکے کی سی ہے۔ کیونکہ جہاں حکمران وقت اپنے ہاتھوں سے ملک کا بیڑا پار کررہے ہوںجنہیں عوام کی سسکیاں سنائی نہ دے رہی ہوں جو ڈرونز حملو ں کی تباہ کاریوں سے غافل ہوں ملک قرض ، افراط زر میں ڈوب رہا ہو وہاں ایک انسان کی قدر تنکے کی ہواکرتی ہے۔ مگر اس تنکے کی قدر میں ڈوبتوں میں دیکھ چکا ہوں اس طرح کے تنکے ملکر ایک پرامن گلشن آباد کر سکتے ہیں مگر ۔۔۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے یہ قوم جو ہزاروں شہیدوں کی قربانیوں سے بیدار نہیں ہوئی تو آج اس مسیحا کے جذبات کو دیکھ کر اور جبکہ یہ ملک تقاضا کررہا ہے قومی بیداری کا تو قوم کو چاہیے کہ وہ معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خدارا جاگ اٹھے۔ تاکہ اپنے آج کو بچانے کےلیے کل کو بربادی کے حوالے کرنے کی حکمرانہ پالیسیوں سے بچا جا سکے۔ خدا اس ملک اور قوم کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین
چشمِ تر کر بیٹھے
حال دل کابیان کر بیٹھے۔
Khalid Iqbal Asi
About the Author: Khalid Iqbal Asi Read More Articles by Khalid Iqbal Asi: 8 Articles with 5500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.