انقلاب زندہ باد

بس جس رفتار سے سفر کر رہی تھی، اُس سے کہیں زیادہ رفتار اور شدت سے حالاتِ حاضرہ پر بحث ہو رہی تھی۔ بحث میں حصہ لینے والے بیشتر مسافر دل کی بات کچھ اِس انداز سے بیان کر رہے تھے جیسے حالاتِ حاضرہ پر ”حاضری“ آگئی ہو! اِس معاملے میں وہ از خود نوٹس لینے کے بعد ایک دوسرے پر راشن پانی لیکر پل پڑے تھے! حالات پر بحث وہ معاملہ ہے جس میں مسافر کبھی ”ڈبل اے اُستاد“ کی صدا کا انتظار بھی نہیں کرتے!

کبھی کبھی بس کا سفر ”علم“ میں اِس قدر اضافے کا باعث بنتا ہے کہ بدہضمی سی ہونے لگتی ہے! خان کوچ کا یہ سفر بھی ایسا ہی تھا۔ مسافر صورت حال پر اُسی طرح دل کھول کر تبصرے فرما رہے تھے جس طرح گاڑی سُست رفتاری سے چلانے پر ڈرائیور کو ”خراج تحسین“ پیش کیا کرتے ہیں!

کوچ یا کسی اور بس میں سفر کے دوران حالاتِ حاضرہ پر بحث کا بنیادی اصول وہی ہے جو ٹی وی پر بولنے کا ہے، یعنی جو کچھ بھی جی اور منہ میں آئے، فی الفور بَک دیا جائے! کچھ لوگ اِس معاملے میں قَے کے اُصول پر عمل پیرا رہتے ہیں یعنی ذرا سا بھی برداشت نہیں ہو پاتا اور اول فول بکنے لگتے ہیں! ایسے میں موضوع پر اُن کا ”عبور“ قابل دید اور قابل داد ہوتا ہے!

کوچ میں ہمارے ساتھ والی نشست پر ایک ایسے صاحب بیٹھے تھے جنہیں کہیں اور، بالخصوص ٹی وی اسٹوڈیو میں ہونا چاہیے تھا۔ ان کی گفتگو کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ چودھری شجاعت سے بے حد متاثر رہے ہیں کیونکہ اُن کی کوئی بھی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی! موصوف چونکہ ہمیں پیٹھ دِکھا رہے تھے اِس لیے اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ بولتے وقت اُن کے ”چہرے کے تاثرات“ کیا ہیں! خیر، اُن کی باتوں میں بے مثال روانی دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا تھا کہ شاید اِدھر اُدھر ہی کی ہانک رہے ہیں! تین چار منٹ تک وہ کچھ کہتے رہے اور لوگ اِقرار میں گردن ہلاتے رہے۔ گردنوں کی حرکت کے اقراریہ انداز نے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں مدد دی کہ جناب کوئی ایسی بات کر رہے ہیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی! ساتھی مسافروں کے کانوں کو اگالدان سمجھ کر ذہن کے پان کی پیک تھوکنے کے بعد موصوف اُٹھے، گاڑی کے گیٹ پر کھڑے ہوکر منہ کے پان کی پیک سے سڑک کو ”گل و گلزار“ کیا اور دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھ کر پھر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تب اندازہ ہوا کہ وہ ”انقلاب“ کے موضوع پر خیالات کا بے لاگ اظہار فرما رہے ہیں! چلتی گاڑی میں ہم نے اپنے ذہن کو بریک لگاکر سوچا کہ جو پان اور گٹکے کی غلامی ترک نہ کر پائیں وہ لوگ کب اور کون سا انقلاب لاسکیں گے! ہماری دانش مندی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ بات ہم نے دل ہی میں رکھی کیونکہ برملا اظہار کی صورت میں یہ خدشہ تھا کہ وہ پان کی پیک سے ہمارے ہی گریبان و دامن کو گل و گلزار کردیتے!

پاکستان میں عوامی گفتگو کے مظلوم ترین موضوعات میں انقلاب یقیناً سب سے نمایاں ہے۔ جب کچھ نہ بن پا رہا ہو تو لوگ باتوں ہی باتوں میں انقلاب برپا کرنے پر تُل جاتے ہیں! ویسے تو مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں لیکن چبوترے، ٹِھیے اور ہوٹل کی کرسیاں آئیڈیل ”مقاماتِ انقلاب“ ہیں! بس تھوڑی سی فرصت ہی تو چاہیے۔ فراغت کی ہانڈی میں باتوں کا بگھار دیا جائے تو انقلاب ہی کی تڑتڑاہٹ ہوگی! ایسے میں لوگ دنیا کو پلٹنے سے کم پر راضی نہیں ہوتے! بات چل نکلے تو لوگ سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خیالوں کے ساتھ ساتھ خوابوں کو بھی پوری شرح و بسط سے بیان کرنے لگتے ہیں! باتوں کی دنیا صرف اور صرف ممکنات کی دنیا ہے۔ جب عوام باتوں ہی باتوں میں انقلاب لانے پر تُل جائیں تو پھر انقلاب کیوں نہ آئے، کیونکر نہ آئے! انقلاب پر گفتگو ہو تو زمان و مکاں کی حدیں سمٹ جاتی ہیں، لوگ آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ جیب خالی ہے تو خالی سہی، اب کیا کوئی انقلاب کی بات بھی نہ کرے! اِس میں کون سے پیسے لگتے ہیں!

جس نوعیت کے ”انقلابات“ پاکستانی قوم کو پسند ہیں وہ تو کہیں بھی برپا کئے جاسکتے ہیں! کیا آپ نے شادی کی تقریب میں کھانا کھلنے پر لوگوں کا ”انقلابی“ جوش و خروش نہیں دیکھا؟ ایسے لذیذ مواقع پر لوگوں کا رویہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے رَسّی تُڑاکر بھاگے ہوں! ایسے میں اگر اُنہیں اسپین کے بھینسے بھی دیکھیں تو شرما جائیں!

ہم نے اُن لوگوں کو انقلاب کے بارے میں زیادہ باتیں کرتے دیکھا ہے جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا کون سا بچہ کس کلاس میں پڑھ رہا ہے اور آخری امتحان میں اُس کی پرسنٹیج کیا رہی ہے! جو لوگ صورت حال میں ذرا سی خرابی یا پھر تہوار کے موقع پر یکساں جوش و خروش سے دودھ، گوشت، سبزی، آٹا وغیرہ خریدنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں وہ بھی انقلاب پر کچھ زیادہ ہی یقین رکھتے ہیں! ایسے مواقع پر ان کا رویہ صاف بتا رہا ہوتا ہے کہ انہیں یقین ہی نہیں کہ دنیا کل تک رہے گی!
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست!

مرزا کے سامنے جب ہم انقلاب پر کچھ بات کرتے ہیں تو وہ فوراً رَسّی تڑاکر ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں! انقلاب کی بات چلی تو کہنے لگے ”اب کیا کوئی انقلاب کی بات بھی نہ کرے؟ لوگ تھوڑی سی خوشی چاہتے ہیں مگر تم اِس کے لیے بھی تیار نہیں۔ تم سے تو لوگوں کی خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی!“ ہم نے سمجھانا چاہا کہ خوشی کی کوئی بنیاد تو ہو۔ اس پر مرزا نے قلندرانہ شان سے فرمایا ”اماں رہنے دو۔ خوشی تو خوشی ہوتی ہے۔ اب کیا خوش رہنے کے لیے بھی جواز ڈھونڈتے پھریں گے ہم؟ جب جی چاہے، باتیں کرکے خوش ہو لو۔ خوشی کا اِس سے آسان نسخہ کہیں ہے تو بتاؤ۔ اوروں کا کیا ذکر، تم بھی تو اِسی نُسخے پر عمل کرتے ہو۔“

ہم نے گھبرا کر وضاحت طلب کی تو مرزا فرمانے لگے ”کیا تم بھی کبھی کبھی بے ذہنی کے عالم میں کچھ بھی انٹ شنٹ لِکھ کر خوش نہیں ہوتے؟“

مرزا کی اِس بات پر ہمارا جی چاہا کہ ”سرد جنگ“ بالائے طاق رکھ کر اُن سے متفق ہو جائیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483157 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More